آج ١٩ جنوری کو آسمان ادب اطفال کا ایک روشن ستارہ بچوں کے شاعر حیدر بیابانی کی شکل میں غروب ہوگیا۔ آج صبح فجر میں چھ بجے کے وقت حیدر بیابانی صاحب کو اتنا شدید دل کا دورہ پڑا کہ وہ انتقال کرگئے۔ معتبر ذرائع کے مطابق حیدر بیابانی پچھلے کئی روز سے بستر علالت پر تھے، اور آج صبح انھوں نے داعی عجل کو لبیک کہا۔ ان سانحۂ ارتحال پر ادبی دنیا خصوصاً ادب اطفال کے ادباء و شعراء غمگین ہیں۔ حیدر بیابانی نے اپنے آپ کو بچوں کے ادب کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ انھوں نے اپنی ساٹھ سال سے زائد ادبی زندگی میں بچوں کے ادب میں گرانقدر سرمایہ چھوڑا ہے۔ انھوں نے تقریباً پچپن کتابیں بچوں کے ادب میں شائع کیں جن کو پذیرائی حاصل ہوئ۔ ہندوستان کی مختلف اکیڈمیوں، تنظیموں نے ان کو اعزازات و اکرام سے نوازا۔ ان کی بہت سی نظمیں نہ صرف ہندوستان کے مختلف صوبوں کے نصاب میں بلکہ پاکستان کے اسکولوں کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔ ان پر دو ڈاکیومنٹری فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ اسی سال ٨ جنوری کو ان پر ایک طالبہ نے پی ایچ ڈی مکمل کی تھی۔ جس پر وہ بہت خوش تھے اور اس کی اطلاع حیدر صاحب نے بنفس نفیس خاکسار کو پچھلے بدھ کو دی تھی۔ میں نے اس پر مبارکباد پیش کی تھی مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ ان سے آخری ملاقات ہوگی۔ جیسے ہی ان کے انتقال کی خبر آئی اور اس کو ادب اطفال کے مقبول واہٹس ایپ گروپ پر شئیر کیا گیا۔ تعزیتی پیغامات کا سلسلہ ادب اطفال کی شخصیات کی جانب سے شروع ہوگیا۔حیدر بیابانی کے انتقال سے ادب اطفال کی ایک بڑی شخصیت سے لوگ محروم ہوگئے۔ حیدر بیابانی نے اپنی شاعری میں بچوں کے لئے کوئی ایسا موضوع نہیں چھوڑا جس پر انھوں نے نظمیں تحریر نہ کی ہوں۔ ادب اطفال میں حیدر بیابانی کے رخصت ہونے سے ایک بڑا خلاء پیدا ہوگیاہے جس کا پر ہونا مشکل ہے۔ آل انڈیا ادب اطفال سوسائٹی کے صدر محمد خلیل سائنسداں، نائب صدر فیروز بخت احمد چانسلر مانو، بانی سکریٹری محمد سراج عظیم ودیگر عہدے داران نے ایک تعزیتی نشست میں اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے۔ تعزیتی کلمات پیش کئےاور مغفرت کی دعا کی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...