(Last Updated On: )
اداکاری محض نقالی نہیں ہوتی بلکہ کسی کردار کے لب و لہجے، تیور انداز گفتگو اور نفسیات کے بھرپور ادراک کے ساتھ اس کردار میں حلول کرجانا ادکاری ہے۔ بیانہ صدا کاری اور قلم کاری فنون لطیفہ کے دو الگ الگ شعبے ہیں۔ بیک وقت اداکاری، صداکاری اور قلم کاری کا ارتکاز کسی ایک شخصیت میں کم کم ہی ہوپاتا ہے۔ اگر ہوتا بھی ہے تو وہ عمل محض تقلیدی یا کسبی نہیں ہوتا بلکہ خالص وہبی عمل ہوتا ہے۔ کسب و تقلید اور وہبی عمل کے مابین حقیقت اور مجاز کا فرق ہوتا ہے۔ وہبی عمل ایک فطری مظاہرہ ہوتا ہے۔ کلکتہ ( مغربی بنگال) وہ شہر ہے جس کی مٹی سے شہرہ آفاق فن کار اٹھے ہیں۔ مثلاً رویندر ناتھ ٹائیگور، سوامی وویکا نند، ششی کپور، سورو گنگولی اور اب نسیم جاوید۔ ہم یہاں آرٹ کلچر اور ادب کی دنیا کی بلند پایہ ہستیوں کی فہرست میں جاوید نسیم کو اس اعتبار سے شامل کرتے ہیں کہ یہ شخصیت بیک وقت اداکاری، صداکاری اور قلم کاری کا وقیع تر امتزاج ہے۔ ایسے بھی فن کار ہوئے ہیں جو بیک وقت اداکار، گلوکار، مکالمہ نگار، گلوکار و موسیقی کار تھے۔ جاوید نسیم اداکار، صداکار اور قلم کار ہیں۔ ادکاری اور صداکاری ان کا فطری میلان ہے اور نثر نگاری اور شاعری انہیں مٹیا برج یعنی چھوٹے لکھنؤ کے ادبی ماحول سے ورثہ میں ملی ہے۔ جاوید نسیم کے اندر کا فن کار کسی مسلمہ تربیتی ادارے کا سند یافتہ نہیں ہے، بلکہ تمام تر فن کارانہ مظاہرے درون ذات کا عکس ہے۔ بحیثیت اداکار جاوید نسیم نے مختلف النوع کرداروں میں خود کو سمیٹ رکھا ہے، ان کی تقریر و تحریر اور اداکاری برملا، برمحل اور سیاق و سباق کے عین مطابق ہوتی ہے۔ جاوید نسیم کی حیرت انگیز صلاحیتوں کو جاننے سے پہلے ہم ان کے ماضی میں جھانک کر دیکھتے ہیں۔ پہلے ان کی نسلی جڑوں کی کھوج کرتے ہیں، تاکہ چند اہم ترین حقائق کا انکشاف ہوجائے۔ تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ جاوید نسیم کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں توارث اور ماحول کو کس حد تک دخل رہا ہے۔
’جاوید نسیم‘ یہی ان کا پورا نام ہے، ان کی پیدائش 1960ء میں ریاست مغربی بنگال کے شہر کلکتہ (جسے دنیا سٹی آف جوائے یعنی خوشیوں کا شہر کے نام جانتی ہے، اس شہر کے لیڈی ڈفرن ہاسپٹل میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد نسیم الدین جو ایم ایل جوبلی کالج کے فارغ التحصیل مہذب اور شائستہ انسان تھے، انہوں نے انگریزی زبان سے ڈبل ایم اے کیا تھا۔ علم طب (ہومیوپیتھی) کے اچھے معالج بھے رہے ہیں۔ پریکٹس مالی منفعت کے بجائے خدمت خلق کے بطور کیا کرتے تھے۔ پیشہ انہوں نے تجارت کو بنایا تھا۔ والدہ محترمہ جمیلہ خاتون درون خانہ کی نیک صورت خاتون تھیں، جنہوں نے جاوید نسیم کی پرورش کچھ اس طرح کی کہ جاوید نسیم میں پوشیدہ صلاحیتیں پوری طرح ابھر کر آجائیں۔ چند برس خوشحالی کے گزرے تھے کہ 1964ء کے فساد میں سب کچھ بکھر کر رہ گیا۔ والد نسیم الدین صاحب نے بیوی بچوں کو ساتھ لیے شہر کلکتہ کے قریہ میٹا برج جو چھوٹا لکھنؤ کہلاتا تھا میں سکونت اختیار کرلی۔ ان دنوں جب جاوید نسیم کی عمر 9سال کی تھی۔ رشتہ داروں کے شر اور سازشی رویوں نے نسیم الدین صاحب کو دلبرداشتہ کردیا تھا اور وہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوگئے اور واصل بحق ہوگئے۔ بڑے بیٹے ہونے کے ناطے جاوید نسیم پر گھر کی ذمہ داریاں عائد ہوگئیں۔
جاوید نسیم کی ابتدائی تعلیم کا آغاز اردو میڈیم اسکول بنگالی بازار ہائی اسکول سے ہوا۔ ان کے مکتبی اساتذہ میں قابل ذکر عزیز الحسن ہاشمی، سہیل اختر، شمیم اختر کے نام ہیں۔ اسکول کی تعلیمی فراغت کے بعد جاوید نسیم ایک نائٹ کالج میں داخلہ لیا۔ جوانی کے دن نہایت عسرت کی حالت میں گزارے، اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں:
حوالہ: ’’بچپن سے ہی میرے پاس کچھ تھا یا نہیں اس سے پرے میرے سر میں ایک جنون سمایا ہوا تھا کہ مجھے دنیا کی بھیڑ کا حصہ بننا نہیں ہے۔ مجھے خود اپنی رہنمائی کرنی ہے۔ اپنا سرپرست خود ہونا ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرا بچپن اور بچپن کی رعنائیاں مجھ سے دور ہوگئیں۔ میری زندگی میں کسی کھیل، گیم اور اسپورٹس کی گنجائش ہی نہیں رہی، بس میں تھا اور میرا مطالعہ (کتابوں اور سماج کا مطالعہ) طرح طرح کے سبجیکٹ میں ڈوبا رہتا۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی فطرت کو سمجھنے اور ان کی صحبتوں سے استفادہ کرنے کی کوشش کیا کرتا۔‘‘ (ماخوذ از خود نوشت از جاوید نسیم)
جاوید نسیم نے ایم اے کامیاب کرنے کے بعد انٹرپرینر کی خواہش میں اور بھی کئی طرح کے کورس کیے جو زیادہ تر ان کے لئے مشعل راہ ثابت ہوتے رہے اور ان کے اندر کے فنکار مہمیز کرنے کے محرک بنتے گئے۔ اسٹیج کی دنیا سے رغبت کے باعث ان کے شب و روز اسی ماحول میں گزرنے لگے۔
اسٹیج کی دنیا سے وابستگی کا پس منظر
کالج کے دنوں میں دوستوں میں ایک شکیل انصاری ہیں جو عصر حاضر کے مشہور اینکر ہیں جو آرٹ اور کلچر کے دلدادہ ہیں۔ بشمول جاوید نسیم کالج کے چار نوجوان ہم خیال اور ہم مشرب تھے۔ شکیل انصاری کا میڈین بھی تھے۔ انہیں دنوں میں ’’اُپہار‘‘ نام سے ایک بڑے ڈرامہ کلب کی تشکیل عمل میں لائی گئی جس کے ایک رکن جاوید نسیم بھی تھے۔ اکثر شام کے اوقات وہ ڈرامہ فنکاروں کی ریہرسل دیکھنے جایا کرتے تھے، ایک دن یوں ہوا کہ وہ ایک گوشے میں بیٹھے چپ چاپ اسٹیج کلاکاروں کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کررہے تھے۔کثرت مشاہدہ کے باعث انہیں کلاکاروں کے مکالمے ازبر ہوتے گئے۔ ڈرامہ کے مرکزی کردار کے لئے کوئی بھی کلاکار ڈائریکٹر کے معیار پر اتر نہیں رہاتھا۔ ڈائریکٹر کو نہ جانے کیا سوجھی کہ ڈائریکٹر نے جاوید نسیم سے کہا کہ وہ ایک کردار دل بہار سنگھ کے مکالمے بولے۔ جاوید نسیم اس اچانک تحریک پر وقتی طور پر چند لمحوں کے لئے حیران رہ گئے، پھر سنبھالا لے کر آگے بڑھے اور بھرپور انداز میں ایک منجھے ہوئے آرٹسٹ کی طرح مکالمے ادا کردئیے، بے ساختہ تالیاں بجنے لگیں اور ڈائریکٹر شری ستیہ نارائن ورما بھی ایک نئے اور باکمال فنکار کی دریافت پر خوش ہوئے۔ اس طرح جاوید نسیم باقاعدہ اسٹیج کی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ پھر کیا تھا، کلکتہ کے ڈرامہ آرگنائزیشن مثلاً سنگیت کلا مندر، پریاس، شاہین آرٹس، پنچ ٹی وی اور ایکشن گروپ والے انہیں ہاتھوں ہاتھ لینے لگ گئے۔ اور انہوں نے کئی قابل لحاظ ڈرامے کیے، ان میں قابل ذکر ڈرامے نفرت کی آگ، جال، سیاہ حاشیے، سلگتے چنار، بیتے دن، آخری چیخ ہیں۔ یہاں سے آگے بڑھے تو دوردرشن کے پروڈکشن کی جانب چل پڑے، کلکتہ دوردرشن کے ان ہائوز پروڈکشن شعبہ اردو نے ٹیلی فلم ’’بے وزنی‘‘ بنائی جس میں انہوں نے بحیثیت اداکار کام کیا۔ اس فلم کے کہانی کار تھے ظفر اوگانوی، یہ فلم اس درجہ مقبول ہوئی کہ دوردرشن نے بارہا ٹیلی کاسٹ کیا۔ ظفر اوگانوی کی یہ ٹیلی فلم ایک نہایت سنجیدہ موضوع کی حامل تھی، جو اسکرپٹ اور جاوید نسیم کی موثر اداکاری کے باعث ناظرین میں اس کی زبردست پذیرائی ہوئی۔ ٹیلی فلم ’’بے وزنی‘‘ سے جاوید نسیم کی پہچان ایک سنجیدہ کردار کے نمائندہ کے بطور مسلمہ ہوگئی۔ دور درشن کے ایک اور پروجیکٹ میں جاوید نسیم نے متنوع کردار ادا کیے۔ یہ ایک سلسلہ تھا اردو کلاسیکل شعراء کو ان کے حلیے انداز تکلم، لب و لہجے اور تمکنیت کے ساتھ چھوٹے پردے پر پیش کرنا۔ اس کے لئے جاوید نسیم سب سے فٹ اترتے تھے، چنانچہ انہوں نے مرزا غالب، میر تقی میر، استاد صفی لکھنؤی، یاس یگانہ چنگیزی کے علاوہ لگ بھگ درجن بھر شعراء کے شخصیتوں کو جاوید نسیم نے اپنے وجود میں حلول کرلیا، اس طرح کہ اپنی بے پناہ فطری اداکاری کے وسیلے سے کلاسیکل شعراء کی چھبی کو گویا زندہ کردکھایا۔ یہ سیرئیل بہت ہی مقبول ہوا۔ ڈائریکٹر نے جاوید نسیم کے تعاون عمل سے چھوٹے پردے پر ایک کامیاب تجربہ کیا۔ پھر کیا تھا، جاوید نسیم دوردرشن کے کئی سیرئیلوں میں دکھائی دینے لگے۔ اس طرح کمرشیل اعتبار سے بھی چھوٹے پردے کا ایک مقبول چہرہ بن گئے۔ آگے آگے انہوں نے وودھا، سٹرڈے سسپنس، پیار کے ترانے، سیل تھری اور چاہت، سرزمین جیسے سیرئیلوں میں اپنی اداکاری اور صداکاری کے جوہر دکھاتے رہے۔ ایک پنجابی فلم ’’رب راکھا‘‘ اور بنگلہ دیش کی فلم ’’ابھی سپتو نکھشتر‘‘ میں اساسی کردار نبھائے، بعد ازاں ایک اور قدم آگے بڑھتے ہوئے فلم سازی کے میدان میں بھی اتر پڑے، اور دور درشن کے لئے ٹیلی فلم ’’ہم سفر‘‘ میں تجربہ اور تخلیق کی توانائیاں سمو کر رکھ دیں۔ اس فلم کی کہانی ایک معذور جوڑے پر مرکوز ہے، مرد ایک ٹانگ سے معذور ہے اور عورت اندھی ہے۔ فلم کا منظر نامہ اور مکالمے کچھ اس قدر کمال کے ساتھ تحریر کیے گئے تھے کہ اس معذور جوڑے کی بے بسی اور مایوسی سے مغلوب جذبات و احساسات کی نہایت پراثر ترجمانی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے یہ فلم ناظرین کے دلوں کو چھو گئی، پرنٹ میڈیا نے بھی اس فلم کو بہت ہائی لائٹ کیا۔ جاوید نسیم کی بھرائی ہوئی آواز اور عمدہ اداکاری کے باعث انہیں اینکرنگ کے آفر ملے اور انہوں نے ثابت کردکھایا کہ وہ ایک کامیاب اینکر بھی ہیں۔ اینکرنگ کے علاوہ ڈبنگ اور وائس اوور کی دنیا میں بھی ان کی بڑی پذیرائی ہوئی۔ اداکاری سے صداکاری تک ایک پراعتماد اور کامیاب سفر کلکتہ کی ماحول میں جاری تھا کہ انہیں اپنی نجی وجوہات کی بنا پر کلکتہ چھوڑ کر شعر و ادب اور آرٹ کا دلدادہ شہر حیدرآباد دکن مستقل طور پر فروکش ہونا پڑا اور گذشتہ چار برسوں سے جاوید نسیم حیدرآباد کی فضائوں میں سانس لے رہے ہیں۔ حیدرآباد کے ادبی و ثقافتی حلقوں نے جاوید نسیم کو پہچاننے میں بڑی سرعت دکھائی۔ حیدرآباد تھیٹر گروپ ’’سوتر دھار‘‘ کے بانی ونئے ورما کے ساتھ انہوں نے ’’جال‘‘ اور ’’سیاہ حاشیے‘‘ جیسے دلچسپ ڈراموں میں کام کیا، اس کے علاوہ آل انڈیا ریڈیو سے جڑے رہے۔ بالآخر حیدرآباد کے ہائی ٹیک ٹی وی چینل میں مستقل طور پر بحیثیت پروگرام کنٹرولر اور پروگرام اینکر کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ ہائی ٹیک ٹی وی چینل سے جڑنے کے بعد جاوید نسیم بڑے دلچسپ اور وقیع تر پروگرام کرنے لگے ہیں۔ مثلاً ریختہ نامہ، وراثت، لائل پور اسٹوڈیو اور کا کہتے ہیں بھیاجی جیسے متنوع پروگرام کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ تاحال جتنے پروگرام ٹیلی کاسٹ ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں اہل ذوق حضرات انہیں ’’جاوید نسیم‘‘ کے نام سے کلک کرکے یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے یوٹیوب چینل پر ’’کا کہتے ہیں بھیا جی‘‘ ایک نہایت دلچسپ اور معیاری پر مزاح سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں ہم جاوید نسیم کی اداکارنہ صلاحیت اور صداکاری سے محظوظ ہوسکتے ہیں۔
جاوید نسیم کی اداکاری، صداکاری اور اسکرپٹ
اداکاری، صداکاری اور قلم کاری کے حوالے سے جاوید آرٹ کی دنیا میں اپنی سب سے جداگانہ پہچان رکھتے ہیں۔فلم یا ڈراموںکے لئے اداکاروں، ڈبنگ آرٹسٹوں اسکرپٹ رائٹرس کی ایک ٹیم درکار ہوتی ہے، کوئی تنہا شخص ایسے سارے کام انجام نہیں دے سکتا۔ لیکن جاوید نسیم نے ایسے سارے کام تنہا کردکھائے ہیں۔ اداکاری اور صداکاری کے علاوہ مونوپلے (صوتی ڈرامہ) میں یہی اکیلے پلے کے خالق اور اداکار اور صداکار ہوتے ہیں۔ مونو پلے کے لئے اسکرپٹ درکار ہوتی ہے۔ جاوید نسیم کو اگر موضوع دیا جائے تو وہ بنا کسی ہوم ورک اور اسکرپٹ کے براہ راست کیمرے کے روبرو اپنے مخصوص انداز میں بولنے لگ جاتے ہیں۔ مونو پلے عموماً ریڈیو کی طرح ہوتا ہے۔ جہاں منظر نہیں ہوتا بس آواز ہوتی ہے، جاوید نسیم کا مونو پلے محض صوتی نہیں ہوتا دکھائی بھی دیتا ہے۔ صرف ایک اداکار دکھتا بھی ہے اور بولتا بھی ہے۔ جب وہ اسکرین پر پیش ہوتے ہیں تو کردار میں اس طرح ڈھل جاتے ہیںکہ جاوید نسیم کا اصلی چہرہ کہیں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ آواز کا اتار چڑھائو، لب و لہجہ چہرے کے تیور کردار کی علاقائی زبان سب کچھ پر جاوید قادر نظر آتے ہیں۔ مثلاً اگر کردار بہاری ہے تو وہ وقتی طور پر خالص بہاری ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے حیدرآباد میں ہائی ٹیک ٹی وی پر ایک مونوپلے جیسا سلسلہ شروع کررکھا ہے، اس میں وہ بہاری کردار ’’بھیا جی‘‘ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ بھیا جی بظاہر ایک دیہاتی مرد جیسا نظر آتا ہے مگر جب وہ بولنے لگ جاتا ہے تو طنز کے تیر برسانے لگتا ہے، مزاح کے شگوفے کھلاتا ہے اور حالات حاضرہ اور تہذیبی اور سیاسی تناظر میں ایک ماہر طنز و مزاح نگار کی طرح سماج کے خبیث عناصر کی دھجیاں اڑا دیتا ہے۔ جاوید نسیم کی اس ہمہ جہتی صلاحیت سے ناظرین کو نہ صرف ذہنی تلذذ حاصل ہوتا ہے بلکہ آگہی بھی ملتی ہے۔ ’’کاکہتے ہیں بھیا جی‘‘ کے ہر ایپی سوڈ میں بھیا جی نہ تنقید کرتے ہیں بلکہ اختتام پر ایک ایسا پیام دے جاتے ہیں کہ ناظرین کے ذہن کی کھڑکیاں کھل جاتی ہیں۔ ’’کاکہتے ہیں بھیا جی‘‘ معیاری اور دلچسپ اور ادبی سطح کا پروگرام ہے جس سے محروم ہوجانا اہل ذوق کی بدنصیبی کہی جاسکتی ہے۔ تاحال ہائی ٹیک ٹی وی سے ’’کاکہتے ہیں بھیا جی‘‘ کے جتنے ایپی سوڈ نشر ہوئے ہیں انہیں یوٹیوب پر جاوید نسیم ٹائپ کر کے دیکھا جاسکتا ہے۔ نشر شدہ ایپی سوڈ کے چند نام کچھ اس طرح ہیں:
(۱) دو چور (۲) چھوٹی سی کہانی (حالات حاضرہ کے تناظر میں) (۳) بھیا جی عید مبارک (۴) ایک گزارش (۵) عید مبارک (۶) بھیا جی اور نیا اوِش کار (۷) لائل پور اسٹوڈیو اور فیس بک (۸) صفورہ زرگر (جامعہ کی ایک محبوس حاملہ طالبہ)
ہائی ٹیک ٹی وی پر جاوید نسیم کے ادبی پروگرام
حیدرآباد کے ممتاز و معروف ادبی شخصیتوں کی موجودگی سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے پروگراموں کے ثقافتی رخ کو بدلتے ہوئے مشاہیر ادب سے انٹرویو کا خالص ادبی سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ اس پروگرام کو انہوں نے ’’ایک ملاقات‘‘ کا عنوان دے رکھا ہے، جس میں انہوں نے حیدرآباد کے ادیبوں، شاعروں اور نقادوں سے ہم کلامی کے ذریعہ ادبی قدروں کے حوالے سے بڑے اہم ترین معلومات فراہم کی ہیں۔ ’’ایک ملاقات‘‘ پروگرام کی حیدرآباد کے ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ہوئی ہے اور آگے آگے اور بھی مشاہیر ادب سے ہم کلامی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ تادم تحریر ایک ملاقات کے جتنے شمارے نشر ہوئے ہیں،ان میں بین الاقوامی حیدرآبادی طنز و مزاح نگار مجتبیٰ حسین، نامور افسانہ نگار ، نقاد محقق پروفیسر بیگ احساس، نامور شاعر و نقاد پروفیسر قطب سرشار، حیدرآباد کی سنجیدہ شاعرہ محترمہ تسنیم جوہر اور الیاس شرف الدین نے جاوید نسیم کے سوالات کے جوابات میں عصری ادب کے حوالے سے نہایت وقیع تر انکشافات کیے ہیں۔ انٹرویوز میں عموماً سیدھے سادے سوالات کے جوابات بھی گہرائی اور گیرائی کے حامل ہوتے ہیں۔ جبکہ جاوید نسیم جو سوالات بھی کرتے ہیں خود ان کی علمی و ادبی آگہی کے نمائندہ ہوا کرتے ہیں۔
ایک اداکار، صدا کار، اینکر، ڈبنگ آرٹسٹ کی ادبی آگہی بلاشبہ انفرادیت ہے۔
احمد علی برقی اعظمی آل انڈیا ریڈیوکے شعبہ فارسی کے سابق انچارج جنہوں نے جاوید نسیم کو بہت ہی قریب سے دیکھا، پرکھا اور سمجھا ہے، اپنے تعارفی مضمون میں لکھتے ہیں:
حوالہ: ’’جاوید نسیم کا تعلق اس سرزمین سے ہے جہاں نواب واجد علی شاہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے ہیں۔ کلکتہ کا وہ علاقہ جو مٹیا برج یا چھوٹی لکھنؤ کہلاتا ہے۔ جاوید نسیم کی جنم بھومی ہے، ان کے آباء و اجداد کا تعلق شہر یمن سے رہا ہے، حالات ان کے جد امجد کو ہندوستان لے آئے (اس طرح) وقت کے اس چکر نے ہمیں جاوید نسیم جیسی شخصیت عطا کی۔ آپ ایک بہترین اداکار ہیں۔ انہوں نے کلکتہ کے سبھی تھیٹر گروپ میں اداکار کی حیثیت سے کام کیا ہے۔ 1994ء میں ایک ٹیلی فلم ’’بے وزنی‘‘ بنی تھی جس میں انہوں نے مونولاگ کیا تھا۔ شاعروں کی زندگی پر دوردرشن سے بنی سیریز میں انہوں نے کئی شعراء کے رول کیے جن میں مرزا غالب، میر تقی میر، یاس یگانہ چنگیزی اور داغ دہلوی کے نام قابل ذکر ہیں۔ پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی انہوں نے بہت ساری فلمیں بنائی ہیں۔ ’’بے وزنی‘‘ مغربی بنگال سے بننے والی پہلی اردو ٹیلی فلم تھی (حوالہ ختم)
جاوید نسیم کی زبان دانی
جاوید نسیم نے انکشاف کیا کہ وہ شمال کی بہت ساری علاقائی زبانیں اہل زبان کی طرح بول لیتے ہیں۔ ان کے اپنے سیرئیل ’’کا کہتے ہیں بھیا جی‘‘ میں انہوں نے ایک بہاری کا کردار نبھایا ہے، چنانچہ اس مونولاگ میں وہ لب ولہجہ تیور اور انداز گفتگو سے جاوید نسیم نظر نہیں آتے۔ اس کردار میں وہ متکلم کی طرح خود کلامی کرتے ہیں۔
جاوید نسیم بحیثیت شاعر
جاوید نسیم اچھے اور سلجھے ہوئے شعر بھی کہہ لیتے ہیں، کیوں نہ ہو جب کہ تربیت کلکتہ کے خالص ادبی ماحول میں ہوئی ہے۔ جاوید نسیم ایک متمول دماغ Rich Minded انسان ہیں، تخلیقی صلاحیت کے باوصف شعر گوئی بھی کرلیتے ہیں۔ اس بات کا انکشاف مرزا غالب اکیڈمی حیدرآباد کے ادبی اجلاس و مشاعرے میں ہوا۔ ان کی شاعری ذات و کائنات کے بصری و حسی تجربات کی ترجمان ہوتی ہے۔ ان کی غزل کے چند اشعار کچھ اس طرح ہیں:
ہوائوں کے دریچے آسماں پر کھول سکتے ہیں
محض میٹھی زباں سے جو دلوں کو مول سکتے ہیں
یہی تہذیب ہے اپنی یہی پہچان ہے اپنی
انہیں میں ہم بھی شامل ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
اب دیکھتے ہیں کہ جاوید نسیم خود اپنے بارے میں کیا انکشاف کرتے ہیں:
حوالہ: ’’میری شخصیت کی پہچان جن چیزوں سے ہے وہ میری زندگی میں کسی نہ کسی واقعہ سے وارد ہوگئیں اور زندگی کا حصہ بن گئیں خواہ وہ تھیٹر ہو کہ اینکرنگ، شاعری ہو کہ وائس اوور (Voice Over) منظر ہو یا پھر کوئی نئی بات اور نیا واقعہ یا نئے حالات ایک نئی منزل کی جانب مجھے لے چلیں گے۔ (ماخوذ از خود نوشت از جاوید نسیم)
جاوید نسیم کا وجود اسٹیج، ٹی وی اور ادب کی دنیا میں اس اعتبار سے گراں قدر کہا جاسکتا ہے کہ ان کی پہلودار شخصیت اور تخلیقی صلاحیتوں کے باعث اردو دنیا مسرت اور بصیرت سمیٹ رہی ہے۔ جاوید نسیم حریت پسند مرد ہیں۔ آزاد مرد وہی ہوتا ہے جس کا یقین حق و انصاف پر مضبوط ہوتا ہے اور بھیڑ سے اپنی پہچان الگ رکھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ
شوق مجھ کو نہیں کہ بھیڑ کا میں حصہ بنوں
ہو قیادت کی ضرورت تو بلانا مجھ کو
محبوب نگر (تلنگانہ) قطب سرشار
۱۹؍ جولائی ۲۰۲۰ء
“