مندرجہ ذیل ایک عدالتی کارروائی کا واقعہ ہے۔ یہ سینفورڈ پرلس کا ہے اور لاء سکول میں پڑھایا جاتا ہے۔
ایک ملزم پر اپنی بیوی کے قتل کا الزام تھا۔ وکیلِ صفائی کی پیشہ وارانہ مہارت مشہور تھی۔ کیس کا فیصلہ جیوری نے کرنا تھا۔ لیکن اپنے دلائل تیار کرتے وقت وکیلِ صفائی مشکل میں تھے۔ ان کے موکل کے خلاف واقعاتی شواہد مضبوط تھے۔ البتہ پولیس کو مقتولہ کا جسم نہیں ملا تھا۔ وکیل اپنے دلائل مکمل کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنا معمول کا طریقہ اپنایا۔ شواہد کا خلاصہ کیا۔ ان میں شک کا عنصر ڈھونڈ کر جیوری کو قائل کرنا تھا کہ شواہد شک و شبہہ سے بالاتر نہیں۔ اس شک کی بنیاد پر ملزم کو سزا نہیں دی جانی چاہیے۔ کچھ ٹھیک نہیں ہو پا رہا تھا۔ منطق کام نہیں کر رہی تھی۔ جب وہ اس خلاصے کو اپنے آپ کو سناتے تو اپنے یہ دلائل وزنی نہ لگتے۔ ان کو خدشہ تھا کہ وہ اس طرح جیوری کو قائل نہں کر سکیں گے۔ کیس ہار جائیں گے ۔۔۔۔ اور پھر انہیں کہیں سے ایک خیال آیا۔
اگلے روز جیوری کے سامنے کھڑے انہوں نے ایک ڈرامائی اعلان کیا۔ “مقتولہ کا پتا لگا لیا گیا ہے۔ وہ تو قتل ہی نہیں ہوئی۔ وہ اس وقت اسی احاطے میں موجود ہے۔ اس کے بعد انہوں نے جیوری ممبران کو کہا کہ وہ پیچھے مڑ کر دیکھیں۔ مقتولہ اگلے کچھ لمحات میں کمرہ عدالت کے دروازے سے داخل ہونے لگی ہے، ملزم کی بے گناہی ثابت ہو جائے گی”۔ سب پیچھے مڑ کر دیکھنے لگے۔ چند سیکنڈ گزر گئے۔ کوئی اندر نہیں آیا۔ وکیل نے اب دلیری سے اعلان کیا۔ “نہیں، بدقسمتی سے ابھی مقتولہ کا پتا نہیں لگا۔ لیکن آپ سب پیچھے مڑ کر دیکھ رہے تھے۔ اس انتظار میں تھے کہ وہ خاتون کمرے میں داخل ہوں اور آپ کے لئے فیصلہ آسان کرنا ہو جائے، کیونکہ ابھی آپ کے دلوں میں شک موجود ہے۔ پیش کردہ دلائل شک و شبہہ سے بالاتر نہیں۔ آپ سب یہ جانتے ہیں کہ اگر وہ خاتون ہمیں مل گئیں تو آپ کے ضمیر پر اس غلط فیصلے کا کتنا بڑا بوجھ ہو گا۔ اس لئے میں استدعا کروں گا کہ اپنے دلوں میں جھانکٰیں، اپنے شک کو پہچانیں اور ملزم کو بری کرنے کا فیصلہ دیں”۔
یہ ایک خوبصورت اور شاندار مثال ہے، ایسی سوچ کی جو روایتی نہیں۔ قدم بہ قدم اپروچ لے کر اس تک نہیں پہنچا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وکیل کو جو اچھوتا خیال اچانک آیا، وہ کہاں سے آیا؟ اس کیلئے دو چیزیں درکار ہیں۔ خام مال اور اس کو پراسس کرنے کی صلاحیت۔ کسی شاعر کو شعر سوجھتا ہے۔ کسی مفکر کو نیا خیال، وکیل کو نئی دلیل۔ جس نے جس بارے میں جتنا علم حاصل کیا ہے۔ پڑھا ہے، سنا ہے، سوچا ہے، پھر چاہے ایک طرف رکھ دیا ہے۔ یہ سب خام مال ہے۔ ذہن صرف اس کے ساتھ ہی کھیل سکتا ہے۔ میں شاعر نہیں، شعروں کے بارے میں نہیں سوچتا تو مجھے شعر نہیں سوجھتے، موسیقی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں تو موسیقی کی نئی دُھن نہیں آ سکتی۔ اس میں وہی امڈے گا جو خام مال اس میں پڑا ہے۔ دوسرا یہ کہ صرف خام مال کافی نہیں۔ ذہن میں سب کچھ ڈال کر اس کو پراسس بھی کئے جانا ہے۔ اس صلاحیت کو ذہنی مشقوں سے اور اپنی توجہ کو توجہ دے کر بہتر کیا جا سکتا ہے۔ ذہن کو آوارہ خیالی کے لئے چھوڑ دینا۔ اس کو بند نہ کرنا اس کے لئے بہت ضروری ہے۔
اس میں جس طرح کا مال بھریں گے، اپنی توجہ جس طرف رکھیں گے، خیال بھی اسی طرف کے آئیں گے۔نت نئے بھی اور اچھوتے بھی۔ ذہن نے تو کام کرنا ہے اور کرتے رہنا ہے۔ پھر چاہے تو کسی کو ایذا پہنچانے کے طریقے ڈھونڈ لیں، چوری چھپے غبن کر لینے کے یا پھر محلے کا کوئی تنازعہ حل کرنے کے۔ توجہ دیں گے تو کچھ سوجھ ہی جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کیس کا کیا ہوا؟ ملزم کی بدقسمتی یہ کہ اس کو یہ علم نہیں تھا کہ وکیل نے یہ کرنا ہے۔ جب سارے پیچھے مڑ کر دیکھ رہے تھے تو کمرے میں صرف وہی تھا جو اس بارے میں ذرا بھی شک کا شکار نہیں تھا کہ مقتولہ زندہ نہیں۔ وکیلِ استغاثہ نے یہ بات پکڑ لی۔ غیر روایتی طریقے کا جواب غیرروایتی طریقے سے دے دیا گیا۔ ملزم کو بالآخر سزا ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑے معمے قدم بہ قدم کی سوچ سے حل نہیں ہوتے۔ جے کے رولنگ نے ہیری پوٹر اس طرح نہیں لکھی تھی اور نہ ہی چیسٹر کارلسن نے فوٹوکاپی کی مشین اس طرح ایجاد کی۔ غیرمتوقع خیالات، اچانک امڈنے والے فلیش، صورتحال کو دیکھنے کے الگ ہی زاویے، یہ ان کو حل کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمپیوٹر اپنی “سوچ” سے کئی طرح کے مسائل حل کرتا ہیں۔ ان کو کوئی مسئلے کے بارے میں بتاتا ہے، وہ مسئلہ حل کرنے کے لئے کہیں کلک کرتا ہے۔ جبکہ ہمارا ذہن سوچتا کیوں ہے؟ اس کو اس قدر محنت کی ضرورت ہی کیا پڑی ہے؟ اس کا سوئچ کیوں رہتا ہے؟ خیالوں کے یہ فیکٹری چلتی کیوں رہتی ہے؟
دماغ کی بائیولوجیکل مشین سے نکلتے ذہن کو خود سوچنے کا عمل لطف دیتا ہے۔ سوچنا خود میں ہی اس کیلئے ایک انعام ہے۔