مصنف(انگریزی) : رسکن بونڈ
خاک روب لڑکے نے ڈیوڑھی میں لٹکے چٹائی نما پردے پر پانی چھڑکا ، اورہوا میں، تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی، ٹھنڈک پھیل گئی۔
چارپائی کے سرےپر بیٹھا میں کھڑکی سے باہر دھول میں اٹی سڑک کو دیکھنے لگا جو دوپہر کی گرمی میں گویاٹمٹما رہی تھی۔ایک کار گزری اور دھول کے بادل لہروں کے مانند اچھالا کھا کر ہوا میں بلند ہو گئے۔
سڑک کے دوسری جانب وہ لوگ رہتے تھے جن کی ذمہ داریوں میں ان دنوں میری دیکھ بھال بھی شامل تھی۔اورجب تک میرے والد ، جو ملیریا کی وجہ سے ہسپتال میں پڑے تھے، واپس نہیں آ جاتے مجھے ان لوگوں کے ساتھ ہی رہنا تھا۔ لیکن میں نے ان کے ساتھ ،سوائے کھانا کھانے کے، کوئی خاص ربط نہیں رکھا۔ دراصل نہ میں انھیں زیادہ پسند کرتا تھا نہ وہ مجھے۔
لگ بھگ ہفتے بھر، یا اس سے کچھ زیادہ عرصےکے لئے، مجھے سرخ اینٹوں سے بنے اس بنگلے میں، جوقصبے کے باہر جنگل کے کنارے واقع ہے ، اکیلے رہنا تھا۔رات کی چوکیداری کے لئے بھنگی لڑکا تھا جس کے سونے کی جگہ کچن میں مختص تھی۔اس کے علاوہ کوئی ساتھی یہاں موجود نہیں تھا۔پڑوسی گھروں کے بچے تھے لیکن انھیں میں چاہتا نہیں تھا اور نہ وہ مجھے چاہتے تھے۔
“دیکھو اس بھنگی لڑکے کے ساتھ مت کھیلنا۔۔۔۔۔۔”پڑوسی بچوں کی ماں مجھے سمجھاتی”۔۔۔وہ گندہ ہے۔ اس کے پاس بھی نہیں پھٹکنا، وہ نوکر ہے سمجھے۔۔۔؟۔تم میرے بچوں کے ساتھ کھیلا کرو”
خیرمجھے بھنگی لڑکے کے ساتھ کھیلنے میں کوئی دلچسپی تھی نہ اس خاتون کے بچوں کے ساتھ۔ جب تک میرے پاپا ہسپتال سے واپس نہیں آ جاتے میں اپنے کمرے میں بیٹھے رہنے اوران کا انتظار کرنے کا من بنا چکا تھا۔
خاکروب لڑکا سارا دن پانی ڈھونے میں لگا رہا۔ وہ پانی کی ٹینکی سے بالٹی بھر کر اٹھاتا اور گھٹنوں پر بدلتا ہوا اوپر لے آتا ۔آتے جاتے جب بھی وہ میرےسامنے سے گزرتا، مسکرا دیتا ۔اور میں ۔۔۔۔میں ہر بارتیوری چڑھا لیتا ۔
وہ تقریباً میرا ہم عمر تھا ،یعنی یہی کوئی دس سال کا۔ ترشے ہوئے بالکل چھوٹے چھوٹے بال، سفید دانت اور مٹیالے مٹیالےہاتھ پاؤں اور چہرہ ۔ خاکی رنگ کی بوسیدہ سی نِکر وہ واحدکپڑا تھا جو اس نے لباس کے نام پرزیب تن کر رکھا تھا۔باقی جسم بالکل ننگا ،جو دھوپ سے گہرابھورا ہوگیا تھا۔وہ جتنی مرتبہ ٹینکی پرجاتا،نہا لیتااور جب گھر کے اندر داخل ہوتا تو اس کےسارےجسم سےپانی ٹپک رہا ہوتا۔
میں پسینے میں شرابور تھا۔
یہ بات میرے رتبےسے میل نہیں کھاتی تھی کہ میں بھی ٹینکی پر جا کر نہاؤں جہاں مالی، آب دار،باورچی، نوکرانیاں، صفائی والے اور ان کے بچے سب یکجا ہوتےتھے۔ میں ایک” صاحب” کا بیٹا تھا اور یہ خلاف دستور تھا کہ میں نوکروں کے بچوں کے ساتھ کھیلوں یا گھل مل جاؤں۔ لیکن میں تو دوسرے “صاحبوں” کے بچوں کے ساتھ بھی نہ کھیلنے کا تہیہ کئے ہوئے تھا کیوں کہ وہ مجھے اچھے لگتے تھے نہ میں انھیں
کھڑکی کے شیشوں پربھنبھناتی مکھیاں، چھت کے شہتیروں پر بھاگتی ناچتی چھپکلیاں اور مرجھائے ہوئے پھولوں کی پتیوں کو اچھالتی ہوا میری تفریح کے لئے کافی تھے۔میں ان سب سے محظوظ ہوتا رہا۔
خاکروب لڑکا میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور کھیلنے کے سے انداز میں مجھے سیلیوٹ کیا۔ میں نے نظریں موڑ لیں۔ “جاؤ جاؤ، بھاگو یہاں سے “میں نے اسے جھاڑا تووہ رسوئی میں گھس گیا۔ میں اٹھا ، کمرے سے باہر لابی میں آیا اور کھونٹی سے اپنا ہیٹ اٹھالیا۔
ایک کن کھجورا دیوار سے رینگتا ہوا نیچے اترا اور فرش پر دوڑنے لگا۔ میں چیخ کر پلنگ پر چڑھ گیا ۔ لڑکا میری چیخ سن کربھاگتا ہوا اندر آگیا۔اس نے مجھے دیکھا، فرش پر موجود حشرےکو دیکھا اور پھرالماری سے ایک بھاری بھر کم کتاب اٹھا کراس مکروہ مخلوق پر دے ماری۔
میں پلنگ پر کھڑا تھااور خوف سے کانپ رہاتھا۔وہ مجھ پر ہنس دیا ۔ میں نےکچھ خجالت سی محسوس کی لیکن اس پر برسا “دفع ہو جاؤ”
ڈر کے مارے میں ہیٹ یا ہیٹ سٹینڈ تک نہ جا سکا اور پلنگ پر بیٹھا بیٹھاسوچوں میں ڈوب گیا۔اپنے والد کو واپس گھر میں دیکھنے کی شدیدحسرت نے پھر مجھے گھیر لیا ۔
ایک مچھر میرے قریب سے گزرا اور پھر گھوم کر کان میں گنگنانے لگا۔میں نے بے دلی سے اس پر پنجہ مارا لیکن وہ بچ نکلااور ڈریسنگ ٹیبل کے عقب میں کہیں غائب ہو گیا۔”اس کم بخت نے پہلے میرے پاپا کو ملیریا کر کے ہسپتال پہنچایا اور اب میرے پیچھے پڑا ہے” میں نے اندازہ لگایا۔
ساتھ والے گھر کی خاتون صحن سے گزری اور کھڑکی کے باہر سے جاتے ہوئےہلکے سے مسکرا دی۔ میں بھی جوباً مسکرایا، لیکن بس واجبی سا۔
لڑکا بالٹی اٹھائے ایک بار پھرپاس سے گزرا اور مسکرایا۔ میں نے رخ دوسری جانب موڑ لیا۔
رات کو بستر میں لیٹے ہوئے ، میں نے پڑھنے کی کوشش کی لیکن کتابیں میری بے چینی کو مات نہ دے پائیں۔
لڑکا گھر میں ادھر ادھر گھومتا رہا۔اس نے دروازوں کی چٹخنیاں لگائیں، کھڑکیاں بند کیں اور پھر مجھ سے پوچھا کہ مزید کوئی کام ہو تو بتاؤں۔ میں نےنفی میں سر ہلادیا تووہ بجلی کے سوئچ بورڈ تک گیا، بلب بجھا ئے اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔اندر، باہر ہر طرف گھپ اندھیرا تھا۔روشنی کی ایک ہلکی سی لکیر لڑکے کے کمرے کی ایک دراڑ سے باہر آرہی تھی لیکن تھوڑی دیر بعد وہ بھی بجھ گئی۔
میں نے سوچا کاش میں پڑوسیوں کے ساتھ رہ لیتا۔ اندھیرے اور اکیلے پن نے میری حالت غیر کردی۔ایسی خاموشی اورٹھہراؤجیسے اس میں کوئی شئے پوشیدہ ہو،کوئی مشکوک اور بہت ڈراونا سا کچھ۔
یکایک ایک چمگادڑ کھڑکی سے آن ٹکریا اور زمین پر جا لگا۔ بیچ بیچ میں ایک کتے کے بھونکنے کی آواز آ رہی تھی۔جب ایک گیدڑ بنگلے کے پیچھے جنگل میں کہیں چنگھاڑا تو میں سہم کر رہ گیا۔لیکن رات کی گہری خاموشی اور جمود نہ ٹوٹا۔
ہوا کا ایک خشک جھونکا اور بس۔۔۔۔۔ہوا پیڑوں کے درمیان سرسراتی رہی اور میرے ذہن میں ایک سانپ کو پالتی رہی جو خشک پتوں اور ٹہنیوں پر پھسلتاجا رہا تھا۔ ایک کہانی ،جسے سنے ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا تھا، بار بار میرے دماغ پر دستک دیتی رہی ۔اس کہانی میں ایک سوئے ہوئے لڑکے کو ایک کوبرا سانپ نے ڈس لیا تھا۔
میں سویا نہیں، میرا مطلب سو نہیں سکا۔ مجھے رہ رہ کر پاپا کی یاد ستا رہی تھی۔
کواڑ بجنے لگے، دروازے چیخ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔یہ ایک بھوت پریتوں بھری رات تھی۔
بھوتوں بھری رات!
بھوت!
یا اللہ مجھے بھوتوں کا خیال کیوں آرہا ہے!!!!؟
ارے وہ دروازے کے پاس کھڑا بھوت!!!!!!!!
پاپا!۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاید ملیریا نے میرے پاپا کو مار دیا تھا۔۔۔۔اور اب وہ بھوت کی شکل میں مجھے میں ملنے آئے تھے!
میں نے اپنا آپ سوئچ بورڈ تک دھکیلا اور کمرہ روشن ہو گیا۔میں بستر میں ڈوب گیا،ساکت اوربے جان سا ! پسینہ میرے نائٹ سوٹ کو بھگوچکا تھا۔میرے والدیا ان کا بھوت نہیں آئے تھے۔وہ، دراصل ، ان کا ڈریسنگ گاؤن تھا جو واش روم کے دروازے پر لٹک رہا تھا۔
میں نے لائٹ آف کردی۔
باہر گہری خاموشی تھی جو لمحہ بہ لمحہ میرےقریب ہوتی جارہی تھی۔میرے ذہن میں کن کجھورا، چمگادڑ، کوبرا اور اس کا شکار لڑکا گھومنے لگے۔میں نے چادر کھینچ کر یہ سوچتے ہوئے سر پر تان لی کہ اگر مجھے کوئی چیز دکھائی نہیں دے رہی تو میں بھی کسی کو دکھائی نہیں دوں گا۔
بجلی کی گڑگڑاہٹ نے مسلسل گہراتی خاموشی کو توڑ دیا۔
بجلی کی ایک لکیر آسمان میں دو حصوں میں بٹ کر اتنی نزدیک تک لپکی کہ چادر کے بیچ میں سے بھی مجھے سامنے کا پیڑ اور اس کے عین مقابل کامکان صاف دکھائی دیا۔میں بستر میں دھنس گیا اور اپنےآپ کو چھپانے کی کوشش میں تکئے کو کانوں کےگرد لپیٹ لیا۔
لیکن اگلی گرج کے ساتھ، جو پہلی سے بھی زیادہ خوف ناک تھی، میں بیڈ سے کود گیا۔ میں یہ نہیں سہہ سکتا تھا۔ بے ارادہ بھاگتا ہوا میں ، سیدھا ،خاک روب لڑکے کے کمرے میں جا گھسا۔
وہ ننگے فرش پر بیٹھا تھا۔
“کیا ہورہا ہے” اس نے پوچھا
روشنی چمکی اور اس میں اس کے دانت اور آنکھیں بھی چمک اٹھے۔اس کے بعد وہ پھر گہرے اندھیرے میں ایک دھندلاہٹ سا بن کر رہ گیا۔
“مجھے ڈر لگ رہا ہے” میں اس کے نزدیک ہو گیا ۔ ایک ٹھنڈا سا کندھا میرے ہاتھ سے ٹکرایا
“یہیں رک جاؤ۔ویسے مجھے بھی ڈر لگ رہا ہے”
میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر وہیں بیٹھ گیا، خاک روب،اچھوت لڑکے کے بالکل ساتھ۔بجلی کی گرج چمک تھم گئی تھی۔تھوڑی دیر میں بارش شروع ہو گئی جس نےنالی دار چھت پر ایک دھماچوکڑی مچادی۔
“برسات کا موسم شروع ہو چکا ہے” لڑکے نے میری جانب مڑتے ہوئے کہا۔اس کی مسکراہٹ اندھیرے میں معدوم ہو گئی ۔ اس نے قہقہ مارا۔ میں بھی ہنس دیا ، لیکن قدرے دھیرے۔
لیکن اب میں خوش تھا اور محفوظ بھی۔گیلی مٹی کی خوشبو اندرتک آ رہی تھی اور بارش مزیدتیز ہو گئی تھی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...