لائل پور کے جس محلے میں میرا جنم ہوا ، اُس کا نام،، سمن آباد ِ، ہے مگر پکارا ہمیشہ ،، سمنا آباد ،، سے ہی جاتا تھا، اصل میں یہاں آکر آباد ہونے والے اردو کی شین کاف سے نہ تو اتنے واقف تھے اور نہ اردو کی شین کاف سے واقفیت رکھنے کو اپنی زندگی موت سمجھتے تھے ۔ جو لوگ اردو کی شین کاف کا خیال نہ رکھنے والے خاندان میں اپنی بیٹی کے شادی کو زندہ درگو کرنے پہ ترجیح دیتے تھے وہ سمندر کے قریب آباد شہرکراچی میں بس گئے تھے۔
سمن آباد کو سمنا آباد کہنے والے ہندوستان کی تقسیم کے بعد اوپر کے پنجاب سے جب یہاں ہجرت کر کے آئے ، تو آتے ہوئے جہاں وہ گھروں میں بندھی بکریاں، کنستروں میں رکھے گُڑ کے مرونڈے، اور چھولہے پہ رکھے توے ساتھ لے کر آئے ساتھ ہی وہ وہاں کا لہجۃ بھی اپنے ساتھ کرآئے تھے ، راستے میں کئی تو بکریوں طرح ذبح ہو گئے ، اور بعض کے پیٹ سے جب انتڑیاں باہر نکالی گئیں تو انتڑیوں کے ساتھ گُڑ کے مرونڈے بھی رزق ِ خاک ہوئے ۔
محلے کے محلے ایک ایک ساتھ چلے تھے اور یہاں پہنچ کے محلے کے محلے ہی ایک جگہ آباد ہوگئے ، انھی میں لائل پور کی ایک جگہ کچی آبادی تھی۔ لائل پور میں اس کچی آبادی سے نکلنے والوں نے جہاں اور بہت سے کالونیاں بنا ئیں ، سمن آباد میں اباد ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق بھی اسی کچی آبادی سے تھا۔ اس کالونی کا سمن آباد نام تو بہت بعد میں پڑا پہلے اس کانام ،، لیبر کالونی تھا۔ کیونکہ اس میں رہنے والے کالونی کے قریب قائم ۔۔ لائل پور کاٹن ملز ۔ پرئمیر ٹیکسٹایل اور کریسنٹ ٹیسٹایل ملز کے ملازمیںن کی تھی مگر جب ان ملازمیں میں سے بعض ہیڈ کلرک ہوگئے اور انھوں نے آدھی بازوں والی شرٹ پہننا شروع کر دیں تو اپنی کالونی کا نام ،، لیبر کا لونی ،، سے ،، سمن آباد ،، کالونی رکھ دیا۔
آدھی بازوں کی شرٹ پہنے ان بابوں نے زیڈ کی بنی نِب پہ جمی خشک ہوتی سیاہی کو تھوک لگا کر اس کالونی کا نام سمن آباد تو لکھ دیا مگر تالو کے اندر لگے اپنے،، لہجےکے ،،کاں ،، کو نہ کاٹ سکے اور سمن آباد کو سمنا آباد ہی کہتے رہے
جس طرح یہ اپنا لہجہ نہ بدل سکے اسی طرح ان کا رہن سہن بھی اسی طرح رہا ، محلے کی کسی لڑکی کے بیاہ پہ سارے محلے کا برات کے لیے بستر چارپایاں دینا ، برات کی سیوا کرنا ۔ کسی کی مرگ پہ پکتی روٹی توے سے اتار کر توا الٹا کر دینا ۔ اور گلی کی نکڑ پہ بیٹھےمیاں جی سکول سے بھاگے لڑکوں کو کان سے پکڑ کر دوبارہ سکول چھوڑ کے آتے تھے
ٹیکسٹایل کی ملازمت سے بچے ترکھانوں، موچیوں ۔ پنساریوں، رنگ سازوں نے اپنے اپنے پیشے کی دوکانیں کھول لئیں تھیں ،، مگر مال کے بدلے مال کے رواج کو وہ پچھلے پنجاب میں ہی دفنا چکے تھے ۔
بلال چوک میں اچھو تانگہ ساز کی دوکان ہمیشہ میری توجہ کا مرکز رہی ، مجھے جب بھی موقع ملتا میں وہاں لکڑی کے بنتے تانگے اور گھوڑوں کے بنتے ساز دیکھتا رہتا جس کو وہ گھوڑے کا زیور بھی کہتے تھے ، جس طرح عورت کے پہننے کے لیے ہر زیور کے مختلف نام ہیں اسے طرح گھوڑے کو پہنانے والے زیور کے بھی مختلف نام تھے ۔۔ انھی سازوں میں گھوڑے کی آنکھوں کے گرد جو عینک لگا ئی جاتی اس کو ،، کھوپے ،، کہا جاتا تھا ، گھوڑے کو قابو میں رکھنے کے لیے گھوڑے کے سارے ساز میں سے دو ساز بہت ایمہت رکھتے تھے ایک ،، باگیں ،، اور دوسرا،، کھوپے ،،
باگیں تو کوچوان کے ہاتھ میں ہوتیں اور وہ جدھر چاہتا گھوڑے کو موڑ لیتا مگر گھوڑے کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنی مرضی سے ادھر اُدھر دیکھنے کی جرات کرے اس کے لیے اس کی آنکھوں اکے ارد گرد ،، کھوپے ،، لگا دئیے جاتے ، تانگے میں جوتنے سے پہلے اس کی آنکھوں پہ کھوپے لگا کر اس کو ایک میدان میں لے کر جایا جاتا جہاں اس کو ایک دائیرے میں دوڑیا جاتا اور اس کو کہولو کے بیل کی طرح سدھایا جاتا ہے اور یہ پورا ہفتہ ہوتا ہے پھر اس کو تانگے میں جوتا جاتا ہے،
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے تانگوں کے آگے جوتے گھوڑوں کو بھی اسی طرح سدھایا جاتا ہے جس طرح اچھو تانگہ ساز کی دوکان پہ بیٹھے کوچوان اپنے گھوڑوں کو سدھاتے تھے ۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے کوچوان بھی اپنی جماعتوں کے آگے جتے گھوڑوں کی باگیں اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہیں اور گھوڑا کہیں بھولے سے بھی ادھر اُدھر نہ دیکھ لے سیاسی جماعتوں کے کوچوان لوگوں کی آنکھوں کے ارد گرد اپنے منصوبوں کے،، کھوپے ۔۔ لگا دیتے ہیں ۔ اور پھر جب تک گھوڑا ان کے منصوبوں کے کھوپے پہنے کوچوان کے ہاتھوں میں پکڑی باگوں کے مطابق چلتا رہتا ہے سیاسی جماعتوں کے کوچوان کوچوان گھوٹے کو دانا بھی کھلاتے ہیں اور شام کو اس گھوڑے کی مالش بھی کرتا رہتے رہتے ہیں مگر جیسے ہی کو ئی گھوڑا کھوپوں کے ہوتے ہوئے بھی ادھر اُدھر دیکھنے کی جسارت کرتا ہے تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے کوچوان ان پڑھ ہونے کے باوجود بھی امریکی کوچوان کی طرح اس گھوڑے کو گولی مار دیتے ہیں اور اگر گولی نہ بھی ماریں تو ۔ وہ گھوڑا چاہے پھر زندہ بھی رہے اس کا شمار مرے ہوئے گھوڑوں میں ہی ہوتا کہ اس کا مصرف صرف اپنے زخموں پہ بیٹی مکھیوں کو اپنی دم سے بار بار اُڑانا ہی رہ جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://www.facebook.com/masood.qamar/posts/10154576118413390
“