ادیبوں کے میں عموما اچھے اور برے لکھنے والوں کے فرق کو کم ہی زیر بحث لایا جاتا ہے۔ اچھے اور برے لکھنے والے ہر ادبی آفاق میں اپنی موجوگی کا احساس دلواتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اچھے اور خراب لکھنے والوں کی کی نشاندہی اس لیے نہیں کی جاتی کہ عام قاری، ناقدیں اور محققین اس سے اغماض برتے ہیں اور دانستہ یا غیردانستہ طور پر نظریں چراتے ہیں۔ یا وہ اس کا تقابل، تجزیہ اور اس فرق کو سمجھ نہیں پاتے اور نہ ان میں اس کی اہلیت یا قابلیت ہوتی ہے۔ یاایہ منفاقانہ عمل بھی ہوسکتا ہے ۔ جس میں ستائش باہمی ، دوستی یاری اور سطحی مزاج حاوی ہوتا ہے۔
اچھے لکھنے والوں اور برے لکھنے والوں میں فرق کا ہنر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کا تعلق استقامت سے ہے۔ جو برے لکھنے والے نے چھوڑ دیا۔ اچھے لکھاری چلتے رہتے ہیں۔ بس اتنا ہی اس میں فرق ہے۔ جنھیں واضح اور نمایاں طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔
اچھے لکھاری دوران تحریری عمل میں مشق کرتے ہیں۔ وہ متن لکھنے ہیں، تیار کرنے اور ترمیم کرنے میں وقت لیتے ہیں جب تک کہ یہ ٹھیک نہ ہو۔اچھا مصنف لکھتے ہوئے گھنٹے اور دن لگاتے ہیں اور کئی بار تحریری نصوص یا متن نظر ثانی کرتے ہیں۔
اچھے لکھاری تنقید ذات کرتے ہیں اور اپنے اچھے بری پہلوں کر نظر رکھتے ہیں۔ اور مددگار تاثرات پر "شکریہ" کہتے ہیں۔ وہ بیرونی اور اندرونی دونوں آوازیں سنتے ہیں جو انہیں محرک کرتی ہے اور جمود سے باہر نکالتی ہیں۔ وہ ان سب کو اپنے کام کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کرتے ہی اور تنویریت سے اپنی تحریر اور متن کی تزئین کرتے ہیں۔ اور اس کے سقم اور پیچیدگیوں کی طہارت کرتے ہیں۔
وہ اس حقیقت سے مستعفی ہوجاتےہیں کہ پہلے مسودے بیکار ہوتے ہیں اور یہ کہ چیمپئن کا حقیقی نشان دستکاری سے وابستگی ہے۔ یہ الہام کے جذبات میں لکھنے کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ کام کرنے ، دن میں اور دن کے بارے میں ہے۔
اچھے لکھنے والے یہ کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی پیشے یا شوق سے زیادہ ہے۔ یہ ایک کال ہے، ایک پیشہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
** جو کام برے لکھنے والے نہیں کرتے۔**
برے لکھنے والے اس کو نہیں سمجھتے، یہی وہ چیز ہے جو انہیں برا لکھاری بناتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی تحریر نے ایک خاص درجے کی فضیلت حاصل کر لی ہے ، اس لیے وہ اکثر ترمیم یا دوبارہ لکھنا بند کر دیتے ہیں۔ وہ متکبر ہو جاتے ہیں اور اپنی کھوکھلی انّا ، خود ستائی اور نرگسیّت کا شکار ہوکر " خودکشی " کرلیتے ہیں اور بحران کا شکار ہوکر لکھنے لکھانے سے تائب ہو جاتے ہیں۔ مگر بھر بھی اپنے سا سقم اوع کمزوریوں کے بہت سے برے لکھنے والے تسلیم نہیں کرتے اور ایک جنت الحمقا میں رہتے ہیں ۔ لیکن واقعی ، یہ سستی اور خوف ہے۔ جو ان کی زات کو وجودی بحران اور اپنے ادبی اور فنکارانہ سے عدم آگئی اس کا سبب ہوتا ہے۔
وہ ترمیم کیوں نہیں کرتے؟ وہ آگے کیوں نہیں لکھتے؟ وہ راتوں رات ذہانت کا فالودہ کیوں کر دیتے ہیں؟ کیونکہ وہ اپنی کوشش کی ناکامی سےخوف زدہ ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہےکہ ان کا کام بکھرا ہوا اوراس کے فکری تلامے الجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور تحریر میں فکری اور تخلیقی جمالیات ، اتنا اچھا نہیں ہوتا جتنا وہ تصور کرتے ہیں۔
** مختلف ہونے کا طریقہ۔**
بہت سارے مہذب مصنفین کو لگتا ہے کہ وہ عظیم ہیں۔ اور وہ یہ سوچتا ہےمیں ان لوگوں میں سے ایک ہوں جو ۔ ضدی اور ہڑ دھرم ہے۔ میرے مزاج میں تبدیلی، لچک اور روشن خیالی نہیں ہے اور نہ وہ اسے قبول نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نہیں بڑھنا چاہتا تھا۔، میرا جو مطالعہ۔ تخلیوی فطانت اور فکری وجدان کمزور ہےاصل میں یہ میں اتنا اچھا نہیں تھا۔ جتنا میں اپنے آپ کو سمجھ بیٹھا ا ہوں۔
ایک اچھا لکھاری عاجز ہوتا ہے۔ مہارت سے قطع نظر ، وہ تحریری عمل کو تکمیل تک دیکھنے کے لیے پرعزم ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کتنا بھیانک یا سخت ہے ، وہ لکھے گا۔ اور وہ بہتر ہو جائے گا۔
تو آپ ، کچھ لکھنے کے خواہش مند مصنف کیا کر سکتے ہیں؟
ادیبوں کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔ اورپھر یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس میدان میں اترنا نہیں چاہیے جس کے وہ اہل نہیں۔ فیشن زدگی اورستی اور کھوکھلی شہرت حاصل کرنے کے لیے وہ کام نہیں کرنا چاہے جو ان کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھاتا ہو۔اور وہ بے کی کوشش نہ کریں جو وہ نہیں ہیں۔