(پہلا حصہ)
میں پہلے ہی اس موضوع پر لکھنے کا سوچ رہا تھا اب “بزمِ شاذ” میں بھی ایک دوست نے یہی سوال پوچھا ہے اس لیے مضمون کو جلدی مکمل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ دیکھیں عمدہ مطلع عمدہ شاعر ہونے کی علامت ہے۔ اچھا مطلع کہنا مشکل امر ہوتا ہے خاص طور پر نئے شاعر کے لیے۔ عام طور پر نئے شعرا سے ایک قافیہ اچھے طریقے سے نہیں نبھایا جاتا اور اگر ردیف کا انتخاب بھی کیا گیا ہے تو ردیف کے تقاضے نہ وہ اچھے طریقے سے سمجھتے ہیں نہ نبھا سکتے ہیں بعض اوقات وہ شعر کا مضمون صرف قافیے کو سامنے رکھ کر لاتے ہیں کہ ردیف کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا، ظاہر ہے ایسا بندہ اچھا مطلع کیسے کہہ سکتا ہے جس میں دو دو قافیہ ردیف ایک مضمون کے ساتھ نبھانے ہوتے ہیں۔
نئی نئی مشق کرنے والے احباب کو تو نیا ہونے کی وجہ سے گنجائش دی جا سکتی ہے لیکن وہ احباب جو عرصے سے مشق کر رہے ہیں اور خود کو باقاعدہ اچھا شاعر تصور کرتے ہیں ان کا کلام بھی ایک ڈھیلے ڈھالے مطلعے سے شروع ہو رہا ہو تو کیا کہا جائے؟ بعض شعرا تو مطلعے کے بعد ایک جاندار شعر شامل کر کے مطلعے کی کمزوری کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس سے بہتر ہے کہ مطلع کہنے پر زیادہ جان لگائی جائے۔ سوشل میڈیا پر ممکن ہے کوئی مطلعے ہی سے آپ کی شاعری کا اندازہ لگا کے آگے بڑھ جائے باقی اشعار پڑھنے کی تکلیف ہی نہ کرے، ہاں مشاعرے میں یہ ترکیب کام آ جاتی ہے کئی مشاعروں میں دیکھا ہے کہ جب شاعر مطلع پڑھتا ہے تو سامنے ماحول پر خاموشی طاری رہتی ہے جونہی اگلا شعر پڑھتا ہے تو سامعین واہ واہ کر اٹھتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر سے صرف یہی شعر ہوا تھا مطلع تو اس نے یہ شعر سنانے کے لیے خواہ مخواہ گھڑ لیا مطلب مطلعے پر بالکل محنت نہیں کی گئی یا محنت کے باوجود اس سے ہو نہیں پایا۔
مطلع کہنا مشکل اس لیے ہے کہ ایک طرف شاعر کے لیے پابندیاں بڑھتی ہیں اور دوسری طرف گنجائش کم ہوتی جاتی ہے۔ ایک ہی مضمون میں دو قافیوں کو نبھانا ہے اگر ردیف کا انتخاب کیا ہے تو ردیف کے الفاظ دو بار آئیں گے جنہیں ایک ہی مضمون سے متعلق رکھنا ہے۔
گنجائش اس طرح کم ہو جاتی ہے کہ دونوں مصرعوں میں قافیہ اور ردیف آئیں گے تو مضمون پورا کرنے کے لیے باقی لفظوں کی گنجائش کم ہو جائے گی۔ ایک طرف تو قافیہ اور ردیف دو بار آ کر جگہ گھیر کر بیٹھے ہیں دوسری طرف طرح طرح کے تقاضے کر رہے ہیں ان کا تقاضہ ہے کہ باقی الفاظ اس طریقے سے آئیں کہ قافیہ اور ردیف ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے اچھے لگیں یعنی اردو بول چال اور محاورے کے مطابق ہوں پھر قافیہ اور ردیف میں کوئی خاص لفظ ہے تو اس کے مناسبات اور متعلقات بھی چاہییں جب کہ بحر میں زیادہ لفظوں کی جگہ تو ہے نہیں، تو بن گئی مشکل۔ اوپر سے کئی لوگوں نے آدھے آدھے مصرعے کے قافیہ ردیف منتخب کیے ہوتے ہیں تو دونوں مصرعوں کا آخری آخری آدھا حصہ تو قافیہ ردیف لے گئے دونوں کے پہلے پہلے آدھے حصے میں ایسے الفاظ لانے ہیں جو مضمون بھی پورا کریں قافیہ ردیف سے بھی متعلق ہوں اور مصرعوں میں ربط بھی ہو وغیرہ وغیرہ۔
میں اصلاح لینے والے دوستوں سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ جب کوئی کلام لکھیں تو کم سے کم پانچ چھے مطلعے لکھیں ہر ہر قافیے کو مطلعے میں آزمانے کی کوشش کریں۔ جب زیادہ قافیوں پر مشق کریں گے تو قافیوں کے حساب سے مضامین بھی مختلف آئیں گے ایسے مضمون کا انتخاب کریں جس میں دو قافیوں کے ساتھ ساتھ دو ردیفیں بھی درست بیٹھ جائیں۔ قافیوں کی تو بس آخری آوازیں ایک جیسی ہوتی ہیں لفظ اور ان کے معانی مختلف ہوتے ہیں لیکن دوسرے مصرعے کی ردیف کے تمام الفاظ وہی ہوں گے جو پہلے مصرعے کی ردیف کے ہیں تو آپ کو یہ دیکھنا ہے کہ مضمون کو یہ الفاظ دو بار درکار ہیں یا نہیں؟ اگر اسے دو بار نہیں چاہییں تو ایک ردیف زائد ہو جائے گی۔ اس لیے بعض اوقات مطلع بادی النظر میں اچھا محسوس ہوتا ہے قافیے بہت عمدگی سے بیٹھ جاتے ہیں لیکن تھوڑا غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ردیف کے الفاظ تو ایک بار ہی کافی تھے دوسری دفعہ ردیف کے الفاظ اس لیے آئے ہیں کہ یہ ردیف ہے مضمون میں ان لفظوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔ زیادہ مطلعے لکھیں گے تو آپ ایسے مضمون کا انتخاب کر سکتے ہیں جس میں ردیف کے الفاظ دو بار کھپ جائیں، ایک ردیف زائد محسوس نہ ہو۔ بطور مثال ایک مطلع دیکھیں:-
صرف ہم ہیں جناب! اٹھاؤ نا
کس سے پردہ؟ حجاب اٹھاؤ نا
مطلع میں اٹھائے جانے کے قابل چیز ایک ہے یعنی “حجاب” لیکن “اٹھاؤ نا” کے الفاظ دو بار آئے ہیں پہلے مصرعے میں یہ الفاظ زائد ہیں۔
لیکن بعض اوقات لفظوں کا تکرار بھی شعر کو عیب دار نہیں کرتا مثلاً
کس سے پردہ؟ حجاب اٹھاؤ نا
صرف ہم ہیں جناب! اٹھاؤ نا
اسی مطلعے کے مصرعوں کی جگہ بدل دی اب “حجاب” کا ذکر پہلے مصرعے میں گزر چکا ہے تو دوسرے مصرعے میں “اٹھاؤ نا” کے الفاظ دہرانا ایسے ہے جیسے ہم اصرار کرتے ہوئے بات دہراتے ہیں اور اصرار کے لیے استعمال ہونے والا لفظ “نا” اس پر دلالت بھی کر رہا ہے۔ بس یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ شاعری کے ضوابط دو جمع دو چار کی طرح نہیں ہوتے ہر شعر کا ہر لحاظ سے جائزہ لینے کے بعد اس میں غلطی کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
اب یہ کہ شعر میں لفظوں کی گنجائش کم ہے تو کم لفظوں میں اپنی بات مکمل کیسے کریں۔ کم لفظوں میں بات مکمل کرنا ہی شاعر کا اصل ہنر ہوتا ہے کیونکہ شاعری سمندر کو کوزے میں بند کر دینے کا نام ہے۔ مطلعے میں لفظوں کی گنجائش عام شعر سے بھی کم ہوتی ہے تو اچھا مطلع کہنے کے لیے پہلی چیز جو آپ کے کام آئے گی وہ ذخیرہ الفاظ ہے۔ آپ کے پاس جتنا وسیع ذخیرہ الفاظ ہو گا اتنی آپ کے لیے آسانی ہو گی۔ جہاں ایک لفظ وزن میں درست نہیں بیٹھ رہا وہاں فورا اس کا ہم معنی دوسرا لفظ آپ کے ذہن میں آ جانا چاہیے جو وہاں وزن میں بھی درست بیٹھتا ہو۔ یا ایسا ہم معنی لفظ جو تھوڑی جگہ گھیرے۔ جیسے لفظ “امید” کو تین ہجوں کی جگہ چاہیے جبکہ “آس” دو ہجوں کی جگہ میں سما جاتا ہے “نا امیدی” میں چار ہجے ہیں جبکہ اس کا ہم معنی لفظ “یاس” دو ہجوں پر مشتمل ہے۔ بعض جگہ پر اردو ترکیب کو فارسی ترکیب سے بدل کر کام چلایا جا سکتا ہے جیسے “دل کا درد” لکھنے کی بجائے “دردِ دل” لکھیں تو ایک ہجا کم ہو جاتا ہے۔
ذخیرہ الفاظ بڑھانے کے لیے مطالعہ بڑھائیں۔ معمول کے الفاظ استعمال کرنے کی بجائے اپنی شاعری میں مزید الفاظ شامل کرتے رہا کریں۔ اس کے لیے ایک مشق بھی کی جا سکتی ہے وہ اس طرح ہے کہ آپ مطالعے کے دوران کچھ الفاظ لکھ لیا کریں جنہیں آپ عام طور پر شاعری میں استعمال نہیں کرتے پھر بطور مشق انہیں شاعری میں استعمال کریں۔ جیسے آپ نے دوران مطالعہ پندرہ بیس الفاظ لکھ لیے ہیں اب آپ پہلے تین الفاظ کو ایک شعر میں استعمال کریں اگلے تین الفاظ کو ایک شعر میں استعمال کریں اگرچہ ان لفظوں میں کوئی خاص مطابقت نہ ہو۔ اس سے آپ کی شاعری میں نئے الفاظ بھی شامل ہوں گے اور لفظوں کو سامنے رکھتے ہوئے مضمون گھڑنے کی مشق بھی ہو گی۔ پہلے آپ مضمون کو الفاظ کا جامہ پہناتے تھے اب آپ کے پاس الفاظ ہیں اور ان کے مطابق مضمون لانا ہے امید ہے یہ مشق آپ کے لیے دلچسپ بھی ہو گی اور کارآمد بھی۔ لیکن شاعری میں نئے الفاظ شامل کرنے کی مشق کے دوران آپ عربی کے وہ الفاظ جو اردو والوں کے لیے غیر مانوس ہیں یا فارسی کی مشکل مشکل ترکیبیں بنا کر شامل نہ کیجئے گا۔ شعر میں ایسے الفاظ کا استعمال کرنا جن کا معنی ایک درمیانے درجے کا باذوق آدمی بغیر لغت دیکھے نہیں سمجھ سکتا شاعری کا عیب ہے جسے غرابت کہتے ہیں۔
کم لفظوں میں بات مکمل کرنے کے لیے دوسری چیز جو آپ کو چاہیے وہ ہے بات کو مختلف طریقوں سے کہنے کا ڈھنگ۔ ایک بات ایک مفہوم بیان کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں اس سلسلے میں خبریں پڑھنے والوں کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ایک ہی خبر کو مختلف زاویوں سے پانچ سات بار بیان کرتے ہیں۔ اسی کلیے پر آپ شعر کہتے ہوئے عمل کریں مثلا آپ کہتے ہیں “میرا محبوب بے وفا نہیں ہو سکتا” اور دوسری جگہ آپ کہتے ہیں “میرا محبوب اور بے وفائی؟” پہلے جملے میں سیدھا سیدھا جب کہ دوسرے جملے میں آپ نے استفہامِ انکاری کے انداز میں محبوب کے بے وفا ہونے کا انکار کیا ہے ان دونوں جملوں کا مفہوم ایک ہے لیکن لفظوں کی تعداد مختلف ہے۔ اسی طرح آپ کسی کام کے ہونے کو ناممکن بتانا چاہتے ہیں تو آپ اس کے ہونے پر تعجب کا اظہار کریں تو بھی یہی مفہوم نکلتا ہے کہ اس کا ہونا ممکن نہیں ہے؟
آپ بات کو مختصر کرنے کے لیے تشبیہ استعارے کنائے کی مدد لے سکتے ہیں ایک جگہ آپ کہتے ہیں “فلاں بہت سخی ہے سخاوت میں اپنا گھر بار لٹانے کی پرواہ بھی نہیں کرتا” دوسری جگہ آپ کہتے ہیں “فلاں تو حاتم طائی ہے” یہ جملہ صرف پہلے جملے کے مفہوم ہی کو بیان نہیں کر رہا بلکہ اس میں پہلے جملے کی نسبت کہیں زیادہ مفہوم موجود ہے۔ اس جملے کا مکمل مفہوم واضح کرنے کے لیے اتنی بڑی کتاب چاہیے جس میں حاتم طائی کے حالات زندگی آ جائیں۔ “حسنِ یوسف” کے الفاظ کسی کے بے حد حسین ہونے ہی کو بیان نہیں کرتے بلکہ کسی کا اتنا حسین ہونا بیان کرتے ہیں کہ ملکہ فدا ہو جائے، دیکھنے والے انگلیاں کاٹ لیں، لوگ حسد میں مبتلا ہو جائیں۔
اگر آپ اچھا مطلع کہہ رہے ہیں اور اب آپ کو بہت اچھا مطلع کہنا ہے تو پھر آپ کو اور زور لگانا ہو گا۔اس کے لیے کچھ ضروری باتیں ان شاءاللہ اس مضمون کے دوسرے حصے میں آئیں گی۔
شہزاد احمد شاذ