“۲۰۲۲ء کی نوبیل انعام یافتہ ادیبہ کا نئے ادیبوں کو مشورہ ؛ اچھا لکھنے سے زیادہ دیانت داری سے لکھیں”
آنی ایغنو (Annie Ernaux)، جنھیں اس برس ادب کا نوبیل انعام ملا ہے، اپنے پہلے انٹرویومیں نئے لکھنے والوں کو دو مشورے دیتی ہیں۔ مطالعہ بہت کرو اور جب لکھنے بیٹھو تو اچھا لکھنے سے زیادہ دیانت داری سے لکھنے کی کوشش کرو۔
پہلا مشورہ نیا نہیں ہے۔ اسے شاید اس لیے باربار دہرانا پڑتا ہے کہ نئے لکھنےو الے ، اپنے لکھنے اور پڑھنے میں توازن برقرار نہیں رکھ سکتے ۔ وہ لکھنے کی مسرت اور اس سے حاصل ہونے والی پذیرائی کے سبب، پڑھنے کی خوشی ہی نہیں، اس کی لازمی ضرورت بھی بھولنے لگتے ہیں۔ مطالعہ نہ صرف زیادہ کیا جانا چاہیے، بلکہ اسے متنوع بھی ہونا چاہیے۔ ایک ہی طرح کی کتابوں کا مطالعہ، ایک طرح کے قید خانے کو جنم دیتا ہے۔چند دنوں کے لیے اگر آ پ کتابوں کا مطالعہ ترک کردیتے ہیں تو پھر سب سے بری صحبت میں ہوتے ہیں، یعنی اپنے آپ کے ساتھ! چھوٹوں کا مشورہ دینا آسان ہوتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ مشورہ بڑوں کے لیے بھی کہیں زیادہ اہم ہے۔
آنی ایغنو کا دوسرا مشورہ کم سننے کو ملتا ہے۔ ہمارے اکثر سینئر ادیب، نئے لکھنے والوں کو اچھا لکھنے کا مشور ہ ہی دیا کرتے ہیں۔ اچھا لکھنے سے، ہر ایک کی مراد الگ الگ ہوسکتی ہے،مگر عام طور پرا س سے مراد صحت زبان اور حسن بیان ہی ہوتے ہیں۔یہ بھی عام مشاہد ہ ہے کہ نئے لکھنے والوں کی گوشمالی بھی انھی دو اسباب سے ہوتی ہے۔ یہ لفظ درست نہیں، یہ بندش روا نہیں، اس ترکیب کا یہاں محل نہ تھا۔ صاحبزادے روزمرے سے نابلد اور محاورے سے غافل ہیں،وغیرہ وغیرہ۔
سوال یہ ہے کہ بیاسی سالہ فرانسیسی مصنفہ ، ٹیلی فون پر نوبیل انعام کمیٹی کی نمائندہ سے ، انعام کے اعلان کے بعد پہلی بار بات کرتے ہوئے، اچھا لکھنے پر دیانت دارانہ لکھنےکو ترجیح کیوں دے رہی ہیں؟ اگرچہ وہ پروفیسر رہی ہیں، مگر ان کا یہ مشورہ، دراصل ایک سینئر مصنف کا مشورہ ہے ، جس نے اپنی شخصی زندگی کے ہر ہر واقعے کو دیانت داری اور جرأت سے لکھا ہے۔
فرانس میں ، جہاں سارتر نے یہی انعام ۱۹۶۴ء میں ٹھکرانے کی جرأت کی تھی، سیموں دی بو ا نے “دی سیکنڈ سیکس ” لکھی اور مارسل پراؤست نے “ریممیبرنس آف تھنگس پاسٹ ” ناول لکھا، اور آخری دو کا کچھ نہ کچھ اثر ا آنی ایغنو پر پڑ اہے، وہاں جرأ ت سے کام لینا مشکل نہیں ۔ لیکن جس ذہنی دیانت داری کی وہ بات کرتی ہیں، اسے خود اس کی اپنی تحریروں کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے۔
جو کچھ آپ ہیں، اسی کو لکھیں۔ اپنی زندگی کے تجربات کو اپنی زبان میں لکھیں، پوری دیانت داری کے ساتھ ۔یہ شرط آسان نہیں ہے۔اس کاسبب صرف سماج کا خوف (جو بہ ہر حال ہمارے یہاں ایک حقیقت ہے ) بلکہ خود اپنی عائد کردہ بندشیں بھی ہیں اور وہ عفریت بھی جنھیں ہم نے اپنے سلسلے میں کاہلی کا اور غیر تنقیدی رویہ اپنا کر پالا پوسا ہے۔ ہم زیادہ تر اپنے عفریتوں کی زبان میں ، انھی کو لکھتے ہیں ۔ ہماری اصل اور ہمارے اپنے بارے میں قائم کردہ تصور میں ایک خلیج حائل رہتی ہے۔اس سے بڑی خلیج جو سیاست دانوں کے دعووں اور حقائق میں موجود ہوتی ہے۔
اپنی زبان آدمی اسی وقت “پیدا” کرسکتا ہے، جب اس نے زبان کے بے کنار سمندر میں ہچکولے کھائے ہو ں ۔ آنی ایغنو کی زبان زیادہ تر نثری شاعرانہ ہے۔ ایک خاص آہنگ،اس کی افسانوی و غیر افسانوی تحریروں میں ہے۔ لیکن یہ مسلسل بدلتی رہتی ہے۔ جیسے جیسے اس کے تجربات بدلتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ زمانہ بدلے، آپ نئے تجربات کریں مگر آپ کی زبان نہ بدلے۔
اسی فرانس میں ، جب آنی ایغنو ستائس سال کی ہوگی، رولاں بارت نے مصنف کی موت کا اعلان کیا تھا۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ کسی مصنف کی تحریروں کے لیے، اس کے مصنف کی شخصی زندگی کو حکم مت بناؤ۔ اسی فرانس میں ورکنگ کلاس کی ایک خاتون آتی ہےا ور اپنی ذات کے ایک ایک تجربے کو لکھنے بیٹھ جاتی ہے۔وہ ٹی ایس ایلیٹ کی بھی نہیں مانتی ،جس نے شاعری کو شخصیت سے فرار کا نام دیا تھا۔ اپنے ایک ایک تجربے کو لکھنا آسان نہیں ہے۔ خوا ہ وہ فرانس ہی کیوں نہ ہو جہاں جنس پر لکھنا اگرچہ فیشن اور باقاعدہ خبط ہے، لیکن کسی مصنف کے لیے خود اپنے تجربے کو فکشن کی آڑ ہٹا کر لکھنا آسان نہیں۔ یوں بھی ہمارے شخصی تجربے میں کئی بار عریانی، شرم ، مضحکہ خیزی جانے کیا کیا ہوتا ہے۔ ہم اس لیے زیادہ تر یاد پر فراموشی کو اہمیت دیتے ہیں۔ آنی ایغنواس کے لیے دوکا م کرتی ہے:جھجھک کا خاتمہ اور لکھنے کو نجات بخش بنانے کا عمل۔
ایک دل پر گزرنے والی ہر واردات معرض اظہار میں لانے سے صرف پرورش لوح و قلم ہی نہیں ہوتی، وہ ہر دل کی واردات بھی بن سکتی ہے۔ ذہنی دیانت داری ہمیں دوسروں کے قریب لاتی ہے۔
وہ جن تجربات کو بے جھجھک لکھتی ہے، انھیں بیان کرنا بھی آسان نہیں۔وہ لکھتی ہے کہ وہ اپنے کنوار پن (virginity)کو کھونے کے خوف کا شکار کیوں کراور کیسے ہوئی تھی؟ جب اس کا ابارشن ہواتو کیسا تجربہ تھا؟ وہ اس حقیقت کو بھی بیان کرتی ہے کہ کیسے اس کے اپارٹمنٹ میں اس کے کنوارے بیٹے اپنی معشوقوں کو لاتے اور رات اکٹھی گزارتے ہیں ۔وہ اسے بھی بیان کرتی ہے کہ کیسے صارفیت کے عہد میں لوگ احساس ِ ندامت وجرم سے عاری ہوتے جارہے ہیں۔ وہ کیتھولک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئی۔ اسے یہ بیان کرنے میں جھجھک نہیں کہ اس مذہب کی اخلاقیات عالمگیری صارفیت کے ہاتھوں باقی نہیں رہی۔
جسے وہ مصنف کی دیانت داری کہہ رہی ہے، وہ دراصل دنیامیں خود کو مرکز میں کھڑا کرنا ہے، یہ دیکھنے کے لیےاس کی “ذات ” کی تشکیل کیسے ہورہی ہے اور دنیا اس کے احساس و ادراک سے گزر کر کیا صورتیں اختیار کررہی ہے؟ اس ضمن میں مکمل دیانت داری برتنا، اپنے اور باہر دونوں کے سلسلے میں۔ وہ اگرچہ پکی مارکسسٹ نہیں، مگر یہ خیال کرتی ہے کہ معاشی اور سماجی عوامل ہی ہماری ” ذات ” تشکیل دیتے ہیں۔ یہ روز نئی نئی وجود میں آنےو الی اشیا اورا ن کے اشتہارات ہیں جو ہماری “ذات ” کی تعمیر کررہے ہیں۔ (ہمارے یہاں ان دو عوامل کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے )۔
وہ اپنی افسانوی و غیر افسانوی تحریروں میں “ذات ” کا کوئی پرشکوہ قصہ نہیں لکھتیں۔ ۱۹۶۰ ءکی دہائی کی اس جدیدیت کو نہیں دہراتیں ،جب مصنف اپنی “میں ” کا انتہائی افسردہ قصہ لکھا کرتا تھا یا اپنی ذات کو مرکز کائنات سمجھ کر سب کچھ اس کی نسبت سے بیان کیا کرتا تھا اور داخلی سطح پر تفاخر کا شکار تھا۔ وہ اپنے معمولی تجربات کی مدد سے ، ایک عام فرانسیسی اور شاید دنیا کےانسان کے سچ اور اس کے زمانے کو بیان کرتی ہے۔ اس کے یہاں ذات اور باہر کاحافظہ بہ یک وقت ظاہر ہوتا ہے۔ وہ آپ بیتی اورت فکشن کی حدود کو پگھلا دیتی ہے۔قرة العین حیدر سے بالکل مختلف انداز میں!
وہ اپنے نئے قارئین کو اپنی خودنوشت “The Years”سے آغاز کا مشورہ دیتی ہے۔ اسی میں وہ یہ راز بھی کھولتی ہے کہ یادداشت تشکیل کیسے ہم تک منتقل ہوتی ہے:
” یادداشت کی(مجھ تک )ن منتقلی صرف کہانیوں کے ذریعے نہیں ہوئی تھی، بلکہ چلنے، بیٹھنے، بات کرنے ، ہنسنے ، کھانےب ، کسی کو خوش آمدید کہنے ، اشیا کے پکڑنے کے طریقوں سے بھی ہوئی تھی۔یہ گزرے سالوں میں ایک جسم سے دوسرے جسم کےب ذریعے ، فرانس کے مضافات اور یورپ سےپہنچی ۔ ایک ایسی وراثت ، جسے تصویروں میں نہیں دیکھا جاسکتا۔ جو شخصی اختلافات سے اور دوسرو ں کی اچھائی اور برائی سے ماورا تھی۔یہ خاندان کے افراد، پڑوسیوں ،اور ان سب کو جوڑتی تھی جن کے بارے میں ہم کہا کرتے تھے کہ “وہ ہماری طرح ہیں”۔
لیکن وہ اسی کتاب کے آ غاز میں چھوٹے چھوٹے منظر(جن میں کچھ وہ ہیں ،جنھیں ہم بھول جانے کی کوشش کرتے ہیں،جیسے آ پ نے کسی کو سرراہ رفع حاجت کرتے دیکھاہو)بیان کرتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ سب غائب ہوجائیں گے۔ پھر کچھ لفظوں کے بارے میں کہتی ہے کہ وہ حذف ہوجائیں گے۔
یادداشت کے ساتھ ، چیزوں اور لوگوں گزرجانے کا ایک ہلکا سا المیہ احساس ان کے یہاں موجود ہے،تاہم اس سے کوئی گہری فلاسفی اخذ کرنے کا عمل نہیں ہے! چیزوں کو جیسی وہ ہیں، انھیں اسی طرح بیان کرنا اور ان سے فلسفہ اخذ نہ کرنا ، بھی ایک فلسفیانہ اخلاقی رویہ ہے۔ یہ کہ آپ چیزوں کی اپنی ترتیب و ساخت کو ان کا ایک شخصی راز سمجھ کر اس میں مداخلت سے گریز کرتے ہیں!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...