اچھا ہوا محمود بھائی، ۔ ۔ ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جدہ سے میں ایک آفشور آئی ٹی کمپنی پاکستان میں چلاتا تھا۔ اسکے مینیجر کا نام عبدالصمد تھا۔ جس کو میں نے ہی اپنے دوستوں کے ریفرنس سے ہائر کیا تھا۔ ٹیکنیکلی اچھا بندہ تھا، البتہ ڈسپلن باقی پاکستانیوں کی طرح تھا۔ کچھ ماہ بعد اسکو معذرت کے ساتھ رخصت کرنا پڑا۔ آخری ماہ ، جو کہ نوٹس پیریڈ ہوتا ہے، اس میں اسکی حاضری برائے نام تھی۔ میں نے اسکی تنخواہ روک دی کہ تنخواہ تو صرف کام کی ہوتی ہے۔ اور اگر کام بھی نہیں تو کم از کم اتنا وقت دینے کے پابند تو تھے۔ اسکا موقف تھا کہ میں نوٹس پیریڈ پر تھا، جو جاب ڈھونڈنے کے لیے ہوتا ہے۔ (میں تب تک پاکستان کے ورک کلچر سے نا آشنا تھا، برسوں باہر رہنے کے باعث)۔
دو ماہ بعد میں پاکستان آیا تو ایک دوست نے پاکستان کے "بادشاہی ورکنگ کلچر" کے بارے میں بتایا کہ نوٹس پیریڈ میں کون کام کرتا ہے۔ بہرحال عبد الصمد کو بلایا، اور اسکی تنخواہ کا معاملہ نمٹا دیا۔ درمیان جو تلخی در آئی تھی، وہ بھی ختم ہو گئی اور ہم اچھے نوٹ پر رخصت ہوئے۔
تقریباً چار سال بعد، میں عمر بٹ (ایک جی دار مشترکہ دوست) کے آفس میں بیٹھا تھا کہ اس نے بتایا کہ عبد الصمد یہیں آفس میں کام کرتا تھا۔ "تھا" میں نے پوچھا- "ارے آپ کو نہیں پتہ، اسکی ڈیتھ ہو گئی" ، جملہ تھا یا ایٹم بامب کی گونج۔ باقی کی تفصیل میں خالی نظروں سے سنتا رہا کہ کیسے اچانک چند ہفتوں میں ایک ہنستا کھیلتا صحتمند انسان کینسر کے خلیوں نے گھلا کر مٹی میں ملا دیا۔ میں نے عمر بٹ کو اس سے آخری ملاقات کا بتایا تو عمر بٹ کا جملہ تھا، "اچھا ہوا محمود بھائی، آپ نے حساب اسی دنیا میں کردیا"۔
چند روز پہلے ایک دوست کی وال پر میں کوئی کمنٹ کر کے ہٹا ہی تھا کہ عمران حیدر نامی کسی شخص نے مجھے ٹوک دیا، کہ آپ کو ایسے نہیں کہنا چاہیے تھا۔ مجھے غصہ آیا کہ خواہ مخواہ کی ٹانگ اڑانے کا مقصد؟ خیر معاملہ بڑھنے سے پہلے میں نے اسکو انفرینڈ کردیا کہ آجکل انتخابی حدت مسلسل سر پھٹول کی اجازت نہیں دیتی۔ بندہ حساس تھا ، جذباتی بھی اور نوجوان بھی۔ اور شائد (خوش گمانی میری) میری تحریروں کی وجہ سے مجھے کوئی توپ چیز بھی سمجھتا تھا۔ اس لیے اسکو دکھ ہونا فطری تھا۔ اس نے اس دکھ کے اظہار میں اپنی وال پر میرے کارٹون کے ساتھ ایک پوسٹ لگائی اور ساتھ ویسے ہی کچھ جذبات کا اظہار بھی کیا جو ہم رعائت اللہ فاروقی، قاری حنیف ڈار، یا موسیو سے بلاک ہونے کے بعد کرتے ہیں، کہ نام بڑے اور درشن چھوٹے۔
میں نے جواب الجواب تو نہ کیا البتہ اسکا ایک جملہ "کہ میں تو انکو ایک استاد کا درجہ دیتا تھا، مگر وہ تو چھوٹا آدمی نکلا" سے کافی اثر لیا۔ نیتوں کا حال تو اللہ جانتا ہے مگر مجھے لگا کہ یہ تنقید ٹھیک ہے، میرے اندر بڑے آدمی والی صفات پیدا نہیں ہو سکیں ابھی تک۔ اسی پر میں نے اپنی ایک پوسٹ بھی لکھی۔ کہ محمودفیاض ایک چھوٹآ آدمی ہے۔ قصہ مختصر کچھ مشترکہ دوستوں نے مجھے عمران حیدر کے بارے میں بتایا اور کچھ نے اسکی دل پشوری کی۔ عمران حیدر سے تعارف نہیں تھا، اسکی وال دیکھی تو ایک جذباتی مگر مخلص نوجوان کی جذبات نظر آئے۔ اسکے غصے پر میں دل میں پہلے ہی پشیمان تھا۔ اسکی شخصیت کا پتہ چلا تو اور افسوس ہوا۔ خیر اسکی وال پر ہی معافی تلافی ہوگئی اور میں نے خود اسکو فرینڈ ریکوئسٹ بھیج کر اس واقعے کا اختتام کردیا۔
چار دن بھی نہ گذرے تھے کہ ثمینہ رشید صاحبہ نے بتایا عمران حیدر کا انتقال ہو گیا ہے۔ باقی تفصیل آپ جانتے ہیں۔ مگر میرے ذہن میں عمر بٹ کا جملہ پھر سے گونجنے لگا، "اچھا ہوا محمود بھائی، آپ نے حساب اسی دنیا میں کردیا"۔
دوستو! میں خوش قسمت ہوں۔ عبد الصمد اور عمران حیدر سے ایک زرا بات بگڑی تو چند دن میں اس کی بھر پائی کر لی۔ دل صاف ہوگئے۔ گلے مل لیا۔ بارش ہوئی، دھند نکل گئی۔ مگر ایسا ہر بار ہونا ضروری تو نہیں۔ جو کدورت، نفرت، اغماض ہم برسوں سینوں میں پالے رکھتے ہیں، اور انتظار کرتے رہتے ہیں کہ دوسرے کو اپنی غلطی کا احساس ہوگا تو وہی میرے پاس آئے گا، تب میں اسکو یہ کہوں گا، وہ کہوں گا۔ اور ایسا کبھی نہیں ہوتا۔
سوچتا ہوں، اگر تب میں "اصول" پر اڑا رہتا کہ نہیں عبدالصمد کو تنخواہ نہیں دینا، کیونکہ اصول کی بات ہے، تو اس وقت میں کتنا دکھی ہوتا اور پچھتا رہا ہوتا۔ اگر عمران حیدر کے ساتھ معاملے میں معذرت و تلافی نہ کر چکا ہوتا تو صرف چند دن بعد میں اسکی وال کبھی نہ دیکھ پاتا اور ایک ملال میری قبر تک ٹھہر جاتا کہ ایک جذباتی مگر شفاف روح میرے لیے دکھ لے کر اس دنیا سے گئی۔
بات لمبی ہوگئی (معذرت) مگر اس دن میں نے تو اس کو اپنے لیے خدائی اشارہ قرار دیا اور تب سے میری کوشش ہے کہ کسی کو اگر مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہے تو اس سے معافی مانگ لوں۔ معذرت کرلوں، منا لوں۔ دوبارہ دوستی نہ سہی، دل صاف کر لیں ایک دوسرے سے۔
جو بات اپنے لیے اچھی سمجھ رہا ہوں، اسی کی صلاح آپ کو دے دہا ہوں کہ اس سے پہلے کہ یہ جملہ آپ کے کان میں گونجے کہ "فلاں کی ڈیتھ ہوگئی" ، اپنے دل اپنے دوستوں ، رشتے داروں، اور باقی لوگوں سے صاف کر لیجیے۔ ورنہ کوئی عمر بٹ آپ کو نہیں کہہ سکے گا، "اچھا ہوا محمود بھائی، آپ نے حساب اسی دنیا میں کردیا"۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“