برخوردار عدنان کاکڑ چاہتے ہیں کہ ان کا کہا سارا ہی طنز سمجھ لیا جائے، طنز کے ساتھ مزاح لگانے سے انہیں کچھ کچھ ہوتا ہے پھر اشتہاری نعرے "داغ تو اچھے ہوتے ہیں" کے وزن پر ان کے تازہ تر ( شاید تازہ ترین کوئی اور ہو کیونکہ ان کے ایک کان سے لفظ داخل ہو کر دوسرے کان سے مضمون کی صورت میں برآمد ہوتے رہتے ہیں۔ از راہ کرم کان اور دوسرے کان کو کان ہی سمجھا جائے ) مضمون "کمیونسٹ تو اچھے ہوتے ہیں" میں مزاح کی بجائے تکلیف کا پہلو تھا اس لیے اس مضمون کو "طنز و تکلیف" کی صنف ہیں شمار کیا جا سکتا ہے۔
قبل اس کے کہ کچھ کہنے کی کوشش کروں میں یہ واضح کردوں کہ میں نہ لبرلز میں لبرل ہوں اور نہ کمیونسٹوں میں کمیونسٹ، ویسے بھی میرے خیال میں کمیونسٹ ہونے کے لیے کسی کمیونسٹ پارٹی کا رکن ہونا ضروری ہوتا ہے البتہ لبرل آپ کسی پارٹی میں شامل ہوئے بغیر بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ اس "ازم" سے وابستہ کوئی بھی پارٹی محض اس اصطلاح پر تکیہ کم کرتی ہے کوئی اور پخ اکثر لگا لیتی ہے جیسے لبرل ڈیموکریٹک پارٹی یا لبرل ورکرز پارٹی وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ میں صوفی شعراء کی مانند تلاش کرتے کرتے نہ مومن رہا نہ کافر، نہ موسٰی رہا نہ فرعون البتہ مجھے یہ شک ضرور ہونے لگا ہے کہ میں اتنا لبرل نہیں ہوں جتنا برخوردار کاکڑ۔ کالجوں میں لبرل انہیں کہا جاتا تھا جو نہ تو این ایس ایف یا پی ایس ایف کی حمایت کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی اسلامی جمعیت طلبہ یا ایم ایس ایف کی۔ اب ایسے لگنے لگا ہے جیسے لبرل کمیونسٹوں کا بھی مخالف ہوتا ہے اور سرمایہ داروں کا بھی۔ پھر وہ کہاں کھڑا ہوتا ہے؟
اب آتے ہیں کمیونسٹوں کے اچھا ہونے کی جانب۔ انقلاب اور جنگ میں اگر کوئی فرق ہوتا ہے تو وہ محض اتنا کہ کہ جنگ بیرونی مخالفوں یعنی دشمنوں کے خلاف لڑی جاتی ہے اور انقلاب ملک کے اندر موجود مخالفوں یا دشمنوں کے خلاف لایا جاتا ہے، جن کے خلاف وہی روش اختیار کی جانی پڑتی ہے جو جنگ میں دشمن کے خلاف کیونکہ دشمن کو موقع ملے گا تو وہ آپ کا تیا پانچہ کردے گا۔
انسانی جانوں کا ضیاع کسی بھی طرح مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا، نہ جنگوں میں نہ انقلابات میں مگر کیا کیا جائے کہ ایسا ہونا ان دونوں اعمال کاحصہ ہوتا ہے۔ جنگ میں جانیں نہ جائیں تو وہ جنگ نہیں کہلائے گی اور انقلاب میں خون نہ بہے تو اسے انقلاب نہیں کہا جائے گا بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی سازش پر مبنی "سافٹ ریوولیوشن" کہا جائے گا جس کے بعد کے اثرات میں مسلسل خون بہے جانے کے علاوہ ملکوں کے انفراسٹرکچر کا تباہ ہو جانا بھی شامل ہوتا ہے۔ بہتر تھا کہ برخوردار اپنے مضمون کا عنوان "انقلابات تو اچھے ہوتے ہیں" باندھتے۔
اب ہم پاکستان میں لائے جانے والے ایک فرضی انقلاب کی مثال کو لیتے ہیں، اس انقلاب کو لامحالہ سوشلسٹ یا کمیونسٹ انقلاب ہونا ہوگا کیونکہ اسلامی انقلاب میں بہائے گئے خون کو "مقدس" عمل سمجھ لیا جائے گا جیسے افغانستان میں طالبان کے عہد میں خیال کیا گیا تھا۔ پاکستان میں لایا گیا یہ فرضی انقلاب مزدوروں اور کسانوں کے ایک حصے کی حمایت سے کوئی کمیونسٹ پارٹی لائے گی۔
کمیونسٹ انقلاب کی وجہ سے سرمایہ دار طبقہ اور نظام سرمایہ داری کی برکتوں سے مستفید ہونے والے درمیانہ و نچلا درمیانہ طبقہ اور کسی حد تک مزدور اور کسان تو اس کے خلاف ہونگے ہی، کمیونزم کو دہریت کی بنیاد تصور کرتے ہوئے عامۃالناس کی بڑی تعداد اس کی مخالف ہو جائے گی۔ کیا انقلاب لانے والے سبھوں کو گرفتار کر لیا جائے، اتنی جیلیں نہیں ہونگی۔ کیا سبھی کو مار ڈالا جائے، کوئی بھی اتنا احمق نہیں ہوگا کہ جن کی بھلائی کی خاطر انقلاب لایا ہو انہیں کو بلا وجہ ہلاک کرنا شروع کر دے۔
اصل میں کیا ہوگا؟ رد انقلاب کی سرگرمی وسیع پیمانے پر شروع ہو جائے گی۔ اسلحے کے ڈھیر پہلے سے جمع ہونگے جو لوگوں میں بٹنے لگیں گے۔ خانہ جنگی شروع ہو جائے گی جسیے سوویت یونین کے آغاز میں "سرخ فوج" اور "سفید" فوج کے درمیان شروع ہوئی تھی۔ انقلاب کے بعد چونکہ حکومتی طاقت کے ادارے انقلابی قوت کو منتقل ہو جاتے ہیں جن کی کمان انقلابیوں کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے چنانچہ انقلابیوں کا پلہ بھاری رہے گا اسی طرح جس طرح برصغیر کے کروڑوں لوگوں پر چند ہزار مقامی افراد پر مشتمل فوج کے گورے آقاؤں کا پلہ بھاری رہا تھا۔ شدید مخالف لوگوں سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑانے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے یعنی اعدام۔ شدید مخالفین کے خاتمے کے بعد دبی دبی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ مل کر ریشہ دوانیاں کرنے والے لوگوں کو بھی ٹھکانے لگانا پڑے گا یوں دبی دبی مخالفت کرنے والوں کی تعداد کم ہوتی چلی جائے گی۔
سوویت یونین میں گولاک یا لیبر کیمپ اس لیے بنائے گئے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نہ مارا جائے۔ وہ عوام کو درپیش سختیوں جیسی سختیاں سہیں اور ممکن ہے، کان نمک میں جا کر خود کو نمک محسوس کرنے لگیں مگر ایک دوسری بڑی وجہ ملک میں اتنی زیادہ جیلوں کا نہ ہونا تھا جن میں "انقلاب مخالفوں" کو بھرا جا سکتا۔
اگر ہم سٹالن اور بیریا کی، ماؤزے تنگ کی درشت روی کی یا پال پاٹ کے وحشی پن کی بات کرنے لگیں گے تو ہر ایک مظہر کے اسباب و عوامل مختلف ہونگے اور طوالت سے بیان کیے جانے ہونگے۔ ایک بار پھر یہ باور کرا دیں کہ انسانوں کو مارا جانا اچھی بات نہیں لیکن بہت سے انسانوں کی بھلائی کو یقینی بنانے کے لیے بھلائی کے اس عمل میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو روکنا ضروری ہو جاتا ہے۔
عدنان کاکڑ نے ایک سوال کیا ہے کہ چلیں باقی باتیں چھوڑیں یہ بتا دیں کہ لوگ انقلاب زدہ ملکوں سے نکل کر کیوں بھاگتے ہیں اور موقع ملتے ہی کمیونسٹ نان کمیونسٹ کیوں ہو جاتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے اس سوال کو دیکھنا ہوگا کہ انقلاب زدہ ملکوں سے بھاگنے والوں کے اعداد و شمار کیا ہیں؟ کیا وہ ایسے کسی بھی ملک کی آبادی کا ایک فیصد ہیں یا نہیں۔ اگر ایک فیصد سے کم ہیں تو جواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں اور ایک فیصد سے زیادہ ہیں تو لبرل اچھے ہوتے ہونگے اور دیگر داغدار۔ رہی یہ بات کہ موقع ملتے ہی لوگ نان کمیونسٹ کیوں ہو جاتے ہیں۔ اس کا جواب بھی اعداد و شمار میں مضمر ہے۔ اس وقت روس کی کمیونسٹ پارٹی کو بارہ فیصد ووٹ ملتے ہیں۔ ستر بہتر فیصد حکومتی پارٹی کو جس سے یہ بات کسی حد تک ثابت ہو جاتی ہے کہ لوگوں کی زیادہ تعداد ان دبی دبی مخالفت کرنے والوں کی تھی جو دم سادھ کر بیٹھ گئے تھے جیسے فرضی انقلاب سے مستفید شدہ پاکستان میں۔ یوں یہ کہنے میں کوئی برائی نہیں کہ اچھا ہونا محض اضافت ہے۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1651190268240410
“