ابوالعلا مُعَّری ایک عرب فلسفی اور شاعر تھا۔ عام طور پر عرب فلسفی لبرل طبیعت کے مسلمان ہی ہوتے ہیں، لیکن مُعَّری اپنے دور کا کڑاکے دار قسم کا نائیلسٹ (nihilist) تھا۔ آج ہم جانتے ہیں کہ ایک نائیلسٹ پہلے فی الاصل وجودی یعنی ایگزسٹینشلسٹ ہوتا ہے اور بعد میں نائیلسٹ ہوتا ہے۔ ایسے نظریات کے حاملین کو البتہ اُس وقت یہ نام ابھی نہیں دیے گئے تھے۔ مُعَّری گوشت نہ کھاتا تھا، جیسا کہ اقبال نے اپنی نظم ابوالعلا مُعَّری میں ذکر بھی کیا ہے۔ مُعَّری شادی کا قائل نہیں تھا اور نہ ہی اس نے کبھی شادی کی۔ تراسی (83) برس کی عمر میں کنوارا ہی فوت ہوا۔ مُعَّری کے نظریات رجعت پسندانہ بلکہ قنوطی تھے۔ شاید بچپن میں چیچک کی وجہ سے اس کی بینائی چلی گئی تھی اور اس لیے وہ اپنے رویوں میں نا اُمید سا تھا۔ ممکن ہے یہ وجہ نہ بھی ہو۔ بہرحال وہ وحی کی برتری کا قائل نہیں تھا۔ اس کے نزدیک عقل وحی سے برتر ہے۔ اور دنیا کے مسائل کا حل عقل اور منطق سے ہی ممکن ہے۔ اس پر مستزاد وہ سائنسی علوم خصوصاً حسی علوم کی حقانیت کا قائل تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ جب حواس ِ خمسہ ایک اطلاع دے رہے ہیں تو کسی اور تصور کو قائم کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لہذا سائنس کو محض عقلی علوم (فلسفہ وغیرہ) پر بھی فوقفیت حاصل ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو گویا وہ اوّلین منطقی اثباتیت پسند یعنی لاجیکل پازیٹوسٹ تھا۔
مُعَّری جانوروں کا دودھ نکالنا بھی جائز نہیں سمجھتا تھا۔ اس کے نزدیک ماں کے تھنوں سے دودھ نکالنا اس بچے کی حق تلفی ہے، جس کے لیے وہ دودھ فطرت نے اُتارا۔ وہ بچے پیدا کرنے کے سخت خلاف تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اولاد پیدا کرنا حقیقت میں اخلاقی برائی ہے۔ اور پیدا ہونے والے بچے کے ساتھ زیادتی ہے جسے اس کی مرضی کے بغیر اس دنیا کے مصائب جھیلنے کے لیے پیدا کر دیا جاتا ہے۔ اس نے اسلام، مسیحیت، یہودیت اور زرتشتیت، غرض ہر مذہب پر تنقید کی اور ایسے عقائد کی مذمت کی جن کی وجہ سے کائنات میں ظلم روا تھا۔
اس کی مشہور کتابوں میں غفران اور لزومات کا ذکر اقبال کی نظم میں بھی موجود ہے۔ لزومات کا موضوع بڑا دلچسپ ہے۔ اس کے موضوع کو اگر دو لفظوں میں بیان کیا جائے تو ہم کہیں گے، ’’غیر ضروری ضروریات‘‘ یا اَن نیسسری نیسسیٹیز unnecessary necessities۔
وہ بنیادی طور پر شام کا رہنے والا تھا اور باقی عرب دنیا گھومتا رہا لیکن پھر شام میں ہی واپس آ کر رہنے لگ گیا تھا۔ وہیں اس کی وفات ہوئی۔ شام کے گزشتہ سالوں کے حالات میں ایک موقع پر القاعدہ نے اس کے مجسمے کا یہ کہہ کر سر قلم کر دیا کہ وہ ایک ملحد کا مجسمہ ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وجہ نہیں تھی سرقلم کرنے کی بلکہ وہ شاید بشارالاسد کا جد تھا کسی پیڑھی میں اور اس لیے مجسمے کا سر قلم کیا گیا۔ (وللہ اعلم)
اقبال نے مُعَّری پر جو نظم لکھی وہ یہ ہے،
کہتے ہیں کبھی گوشت نہ کھاتا تھا مُعَّری
پھل پھُول پہ کرتا تھا ہمیشہ گزر اوقات
اک دوست نے بھُونا ہوا تِیتر اسے بھیجا
شاید کہ وہ شاطِر اسی ترکیب سے ہو مات
یہ خوانِ تر و تازہ معّری نے جو دیکھا
کہنے لگا وہ صاحبِ عفران* و لزومات*
اے مُرغکِ بیچارہ ! ذرا یہ تو بتا تُو
تیرا وہ گُنہ کیا تھا، یہ ہے جس کی مکافات؟
افسوس، صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تُو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات !
(علامہ اقبال)
مُعَّری کے رسالہ غفران کو البتہ ڈیوائن کامیڈی کا جد مانا جاتا ہے۔ ڈیوائن کامیڈی دانتے کی مشہور تصنیف ہے۔ رسالہ غفران میں ایک شخص کا قصہ منظوم کیا گیا ہے، جو مر گیا اور حساب کتاب کا انتظار کرتا رہا، پھر اسے جہنم میں بھیج دیا گیا، جہاں اس نے اپنا وقت گزارا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت سے معافی مل گئی اور جنت میں چلا گیا۔ جنت سے اس نے پھر ایک بار جہنم کی سیر کرنے کی تمنا ظاہر کی اور جہنم کی سیر کو گیا تو دیکھا کہ سارے عرب شاعر وہیں اکھٹے تھے۔