اعلان ِنبوت کے بعد دسواں سال کا واقعہ ہے ۔ رسولِ خدا اکثر مکہ کے ارد گرد کی چھوٹی بستیوں میں نکل جاتے تھےکہ اُنھیں اسلام کی طرف دعوت دیں ۔ بعض اوقات آپ کو پلٹنے میں دیر ہو جاتی تھی ۔ حضرت ابوطالبؑ ہمیشہ آپ کے ساتھ اپنے دو طاقتور حبشی غلام محافظت کے طور پر مقرر کر دیتے ۔ وہ غلام تلوار اور نیزے کے ماہر اور نہایت جنگ آزما تھے ۔ اُنھیں ہدایت تھی جب آپ کو خطرے میں دیکھیں تو ایک غلام حفاظت کے لیے وہاں ٹھہر جائے اور دوسرا جلد وآپس آ کر ہمیں خبر دے ۔ مکہ کے دس میل کے ارد گرد کا علاقہ حرم کہلاتا تھا ۔ اِس دائرے میں آپ صلعم کی جان کو خطرہ کم تھا کہ یہاں خون بہانے سے قریش عموماً گریز کرتے تھے لیکن اِس سے آگے حِل شروع ہو جاتا تھا جہاں کچھ بھی ممکن تھا ۔ ایک بار جناب ِ ابو طالب کا ایک غلام بیمار ہو گیا ۔ آپ صلعم اُسے آرام کی خاطر ساتھ نہ لے گئے اور تبلیغِ توحید کے واسطے مکہ کی دُور وادیوں میں نکل گئے یہاں تک کہ حِل کی چھوٹی بستیوں میں چلے گئے ۔ چونکہ دُور تک چلے گئے تھے اِس لیے وآپسی میں دیر ہو گئی ۔ اِدھر جنابِ ابوطالب کو خطرہ اندیشہ ہوا کہ قریش نے میرے بھتیجے کو کہیں گزند تو نہیں پہنچا دی ۔ آپ نے رسولِ خدا کی تلاش میں کئی لوگوں کو بھیجا مگر وہ ناکام وآپس آگئے ۔ جنابِ ابوطالب کا گمان پختہ ہو گیا کہ آپ کو شہید کر دیا گیا ہے اور اُس کے ذمہ دار قریش ہیں ۔ کعبہ کے مغربی سمت میں اُن دنوں ایک جگہ تھی جسے دارالندوہ کہتے تھے۔ یہاں شام کے بعد قریش کے تمام سردار بیٹھ کر صلاح مشورے کرتے تھے اور شاعروں اور داستان گووں سے داستانیں سنتے تھے ۔ جناب ِ ابوطالب نے بنی ہاشم کے تمام جوانوں کو اکٹھا کیا اور اُنھیں کہا ، سب اپنی عبائوں میں ننگی تلواریں چھپا لو اور میرے ساتھ دارالندوہ چلو ۔ پھر جب میں تمھیں حکم دوں فوراً تلواریں نکال کر سردارانِ قریش کے سر قلم کر دینا ۔ خدا کی قسم میرے بھتیجے کےخون کا ایک قطرہ پوری کائنات کے خونبہا سے زیادہ قیمت رکھتا ہے ۔ اگر میرا بھتیجا نہیں رہا تو یہاں کوئی زندہ نہیں بچے گا ، پھر چاہے ہم بھی نہ رہیں اور نہ یہ کعبہ رہے اور نہ یہ مکہ کی وادی رہے ۔ بنی ہاشم کے تمام بائیس جوانوں نے اپنی تلواریں لیں اور جنابِ ابوطالب کے پیچھے ہو لیے ۔ آپ جیسے ہی اُن کو لے کر دارالندوہ پہنچے آپ کا غلام بھاگتا ہوا آیا اور پکار کر کہا ،یا شیخِ بطحا محمد رسول اللہ گھر لوٹ آئے ہیں ۔ آج وہ دُور کبسہ کی بستی تک چلے گئے تھے اور وہاں سے ابھی لوٹے ہیں ۔ آپ ایک دم رُک گئےاور اُس غلام سے کہا، ٹھیک ہے تم جاو اور محمد رسول اللہ سے کہو۔ میرے آنے تک گھر ہی میں رہے ۔
اِدھر جب سردارانِ قریش نے جنابِ ابوطالب کو بنی ہاشم کے جوانوں کے ساتھ اپنے سر پر کھڑے دیکھا تو حیران ہوئے کہ معاملہ کیا ہے ؟ جناب ِابوطالب نے اُنھیں کہا اے اہلِ مکہ تمھیں پتا ہے آج کیا ہونے والا تھا ، عتبہ نے کہا یا شیخِ بطحا بتایے ؟۔ آپ نے بنی ہاشم کے جوانوں سے کہا اپنی عباوں کو اٹھا کر اِنھیں اپنی ننگی تلواریں دکھاو۔ سب جوانوں نے اپنی عبائیں اٹھا لیں تب قریش نے دیکھا کہ ننگی تلواریں چمک رہی ہیں ۔ وہ ہونق ہو کر ابوطاب کا منہ دیکھنے لگے ۔ تب آپ نے فرمایا۔ اے اہلِ مکہ آج کچھ دیر پہلے تک میرا بھتیجا گھر نہیں آیا تھا ۔ مَیں نے گمان کیا تم نے اُسے قتل کروا دیا ہے۔ پھر مَیں نے ایک فیصلہ کیا کہ آج تم سب کے سر قلم کردوں اور اِس مکہ کے باشندوں کو برباد کردوں ۔ اُس کے بعد چاہے ہم بنی ہاشم میں سے بھی ایک فرد زندہ نہ بچے ۔ مگر تمھارے تمام قبیلے بھی نہ رہتے ۔ اِس سے پہلے کہ یہ واقعہ ہو جاتا ، ابھی مجھے میرے بھیجیتے محمد رسول اللہ کے گھر لوٹ آنے کی خبر ملی ہے ۔ اب یاد رکھو اگر کسی نے میرے بھتیجے کا ایک قطرہ بھی خون بہایا تو یہ مکہ خون سے بھر جائے گا ۔ کعبہ کی دیواریں سُرخی میں ڈوب جائیں گی ۔اِس کے چاروں طرف کے رستے اور شام اور یمن کی جانب جاتے ہوئے کجاوہ دار اونٹوں کی بجائے تمھاری لاشوں کو کتے کھینچتے پھریں گے ۔ یہ کہہ کر جنابِ ابوطالب نے اپنے جوانوں سے کہا ، چلو اب گھر چلیں ۔ وہاں بیٹھے تمام سردارانِ قریش کانپ کر رہ گئے ۔ اُن کی زبانوں میں کانٹے پڑ گئے اور کسی کے لب تک نہیں ہل سکے ۔ چنانچہ اِس واقعے کے بعد پھر کبھی کسی ملعون کی جرات نہیں ہوئی کہ جنابِ رسالت مآب کی طرف آنکھ اٹٓھا کر دیکھے ۔ ہاں جب ابوطالب فوت ہوئے تو اللہ نے کہا اے میرے حبیب اب تو ہجرت کر جا کہ یہ جگہ اب محفوظ نہیں رہی ۔
اے دوستو یہ تھے علی کے باپ جنابِ ابوطالب علیہ السلام
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...