پرسوں شام کوئی ضروری کام تھا تو تینوں بیٹوں کو لاہور بھیجنا پڑا۔
تمام تر ٹی اینڈ پی پوری کر کہ خود سے گاڑی کی ہر طرح چیکنگ کی۔ تینوں کے جوتے کپڑے دیکھے۔ بچے رات کو دودھ پینے کے عادی ہیں تو ٹھنڈے دودھ کی بوتل گاڑی میں رکھی اور ساتھ تاکید کی کہ گاڑی اہستہ چلانا اور دودھ راستے میں ہی پی لینا ورنہ خراب ہو جائے گا۔ شام چھ بجے دُعا دے کر سامنے والی سڑک سے لڑکوں کو رُخصت کیا اور دور موڑ مڑنے تک گاڑی کو دیکھتا رہا۔
بیٹے چلے گئے تو میں گھر میں اکیلا رہ گیا۔ حالانکہ دو بیٹے تو جوان ہیں لیکن پہلے کبھی لاہور گئے نہیں تو کافی فکر مند تھا۔ ہر گھنٹہ ڈیڑھ بعد فون کرتا رہا کہ کہاں پہنچے ہو۔
رات دس بجے صاحبزادوں سے باری باری پوچھا کہ بیٹا ، کھانا کھایا یا نہیں۔ مزید پوچھا کہ اگر کھایا تو کیا کھایا، کہاں سے کھایا۔!
صبح پہلے ٹائم پھر فون کیا ، ناشتہ کیا یا نہیں ، دوپہر کو پوچھا ، پھر شام آٹھ بجے پوچھا کہ کھانا کھایا یا نہیں ۔ رات دو بجے تینوں بھائی واپس پہنچے ۔ اُن کے آنے سے پہلے الائچی والا دودھ ٹھنڈا کر کہ رکھ دیا تھا کہ آئیں گے تو اُنہیں پلاؤں گا ۔ چند منٹ اپنے پاس بِٹھا کر تینوں کے چہرے پڑھے کہ ٹھیک ٹھاک اور خوش ہیں ۔ دودھ کا ایک ایک گلاس پلایا ۔ تب جا کر کہیں میری تسلی ہوئی اور میں سو سَکا۔
عمومی طور پر کام والی کھانا پکا دیتی اور بیٹے مُجھے میرے کمرے میں دے دیتے لیکن جب بیٹیوں کو اطلاع ملی کہ بھائی لاہور چلے گئے اور ابو گھر میں اکیلے ہیں تو وہ میرے بارے فِکر مند ہو گئیں۔
شام سوا چھ بجے گاؤں سے بڑی بیٹی کا فون آیا کہ ابو جی، ابھی آپ کھانا کیسے کھائیں گے۔ میں نے بتایا کہ بیٹا کھانے کی ہر ایک چیز گھر میں موجود ہے تو اِس میں فکر کیسا لیکن بچی کی تسلی نا ہوئی۔
پھر رات نو بجے بیٹی کا فون آیا کہ بتائیں ابو جی کیا کھایا۔ میں نے کہا کہ بیٹا چکن، بیف، روٹی، ڈبل روٹی، انڈے، فروٹ، بسکٹ، دودھ ملائی، سب کچھ وافر مقدار میں گھر موحود ہے لیکن بیٹی کی تسلی نا ہوئی۔ بولی کہ ابو مُجھے پتا سب کُچھ ہوتے ہوئے بھی آپ نے کُچھ نہیں کھانا، آپ کو خود کھانے کی عادت ہی نہیں۔ صُبح جب آپ ناشتہ کرنے لگیں تو وڈیو کال کر کہ مجھے اپنا ناشتہ دکھائیں گے ۔
صبح کام والی آئی، پراٹھا اور ایک کپ چائے بنوائی اور اُسے واپس بھیج دیا۔ چند منٹ بعد بیٹی کا فون آیا، بولی کہ ابو جی اپنا ناشتہ دکھائیں، کیا کھایا۔؟
دوپہر پھر دونوں بیٹیوں کی وڈیو کال آئی کہ ابو جی آپ نے کیا کھایا۔ سامنے چھ سات آم اور دودھ کا کپ پڑا تھا میں نے وہ دکھا دئیے، لیکن بچیوں کو اعتراض تھا کہ فروٹ یا دودھ سے پیٹ تو نہیں بھرتا۔ آپ نے سالن روٹی کیوں نہیں کھایا۔ دونوں بہنوں کے بس میں نہیں تھا ورنہ وہ فوراً ہی کھانے کا ایک ٹرک لا کر میرے مُونہہ میں ٹھونس دیتیں ۔ شام کو دودھ سویاں بنا کر میں نے خود ہی بیٹیوں کو کال کر کہ سویاں دکھائیں، کھاتا بھی رہا اور گپ شپ بھی کی۔ تب جا کر بیٹیوں کی قدرے تسلی ہوئی کہ ابو نے کُچھ نا کُچھ کھا لیا ہے۔
بیٹیوں کا آخری فون رات دو بجے آیا جب اُن کے بھائی واپس گھر پہنچ چکے تھے۔ دونوں بہنوں نے میرا چارج بھائیوں کے حوالے کیا اور تب جا کر سکون سے سوئیں۔
میں بتیس گھنٹے گھر میں اکیلا رہا اور بیٹیوں نے اس بتیس گھنٹے میں بتیس بار فون کر کہ پوچھا کہ ابو جی کھانا کھایا کہ نہیں۔ ؟