::: " ابوبکر احمد حلیم ( عرف، ابا حلیم) : ایک ماہر تعلیم اور ایک بہتریں منتظم :::
ابو بکر احمد حلیم ، جہان آباد کے گاؤں "ایرکی"، بہار، بھارت میں 1897 ء میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے پٹنہ یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔اور یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی تھیر اسے لنکن ان باریٹ لا بھی کہا جاتا تھا ۔ حلیم صاحب 1921 ء میں ہندوستان واپس آئے اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں معلم کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا ۔ 1923 ء میں وہ شعبہ تاریخ اور پولیٹیکل سائنس میں علی گڑھ یونیورسٹی میں پروفیسر مقرر ھوئے ۔ اس کے بعد وہ شعبہ کے صدر نشین بن گیے اور 1935 ء سے 1944 ء کو انہوں نے پرو وائس چانسلر اور یونیورسٹی کے چانسلر علی گڑھ کے طور پر خدمات سر انجام دیں ۔ اس مدت کے دوران، انھوں نے نے آل انڈیا مسلم تعلیمی کانفرس 1940 میں پونا میں منعقد اجلاس کی صدارت کی ۔ 1942 میں انھیں متحدہ ہندوستان کے انٹر یونیورسٹی بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا ۔ انہوں نے 1944 میں اسلامی تاریخ اور ثقافت کے سیکشن کی آل انڈیا مسلم تعلیمی کانفرنس ،ناگپور میں منعقد اجلاس،کی صدارت بھی کی۔
1944 میں سیاست میں داخل ھوئے۔ نومبر 1942ء میں جب قائد اعظم محمد علی جناح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دورے پر آئے تو پروفیسر حلیم نے ان کی خدمت میں خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے وہ یادگار جملہ کہا جو تاریخ کا حصہ بن گیا۔ انہوں نے قائد اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "میں آج کل مسلمانوں کی سب سے بڑی درس گاہ میں تاریخ پڑھا رہا ہوں اور آپ مسلمانوں کی تاریخ بنا رہے ہیں"۔
انھوں نے تحریک پاکستان کے لیے کیلئے انتھک کام کیا ہے ۔ 1945-1946 میں نے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر قانون ساز اسمبلی کے رکن بنے ۔ 1947 ء کو مسلم لیگ سے 1944 ء اور سال کی ایک بڑی تعداد کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کا رکن ہے ۔ 1944 ء سے 1945 ء تک انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی منصوبہ بندی کمیٹی کے سیکرٹری کے عہدے پر رھے۔ ۔ حلیم صاحب مسلم لیگ کی تعلیمی کمیٹی کے سیکرٹری بھی تھا ۔ 1945 میں شملہ کانفرنس کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح نے انھیں اپنا آئینی مشیر بھی مقرر کیا۔ قیام پاکستان کے بعد 1947 ء میں انھیں وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی مقرر کیا گیا تھا ۔ اپریل 1947میں جب اس نے سندھ مدرستہ الاسلام کی عمارت کے ایک حصے میں کام شروع کیا تو پروفیسر اے بی اے حلیم اس کے پہلے وائس چانسلر بنے۔ جولائی 1948میں جب کراچی کو وفاقی دارالحکومت قرار دے کر سندھ سے الگ کر دیا گیا اور سندھ کی صوبائی حکومت کوکراچی سے بے دخل کر کے حیدرآباد کا راستہ دکھایا گیا تو حکومت سندھ اور مرکزی حکومت کے درمیان اس یونیورسٹی پر کنٹرول کے معاملے پر رسہ کشی شروع ہو گئی۔ آخرکار 1951 میں سندھ یونیورسٹی کو بھی حیدرآباد کی راہ لینی پڑی۔ اسی سال کراچی یونیورسٹی قائم ہوئی اور پروفیسر حلیم کی خدمات اس نئی یونیورسٹی کو منتقل ہو گئیں۔ اس نئی یونیورسٹی یا جامعہ کا خاکہ تیار کرنے میں اشتیاق حسین قریشی نے کلیدی کردار ادا کیا جو اس وقت مہاجرین و آبادکاری کے وزیرمملکت تھے۔ انہوں نے 1947 ء سے 1951 ءتک اس پوزیشن پر خدمات انجام دیں ۔ پھر یونیورسٹی کو حیدرآباد منتقل کر دیا گیا، انھیں نو تشکیل کردہ جامعہ کراچی، میں چھ سال کے لیے وائس چانسلر مقرر کیا گیا تھا ۔ وائس چانسلر کے طور پر انھوں نے تمام طلبہ کو امتحانات اپنی مادری زبان میں لیے جانے کی سہولت کی اجازت دی اور شام کے سیشن میں تعلیم کی ترویج کی حوصلہ افزائی کی ۔ "یہ یونیورسٹی جس وقت قائم ہوئی تھی اس وقت یہ حال تھا کہ نہ دفتر تھا اور نہ ہی عملہ پورا تھا، لیکن اس ہستی نے اس وقت بھی ایثار محنت اور دیانت سے کام لیتے ہوئے اپنی خدمات جاری رکھیں، کئی ماہ تک اپنے گھر کا برآمدہ دفتر کے طور پر استعمال کرتے رہے ٹائپ رائٹر بھی ماہانہ کرائے پر لیا گیا۔ طباعت وغیرہ کا کام کچھ ادھار اور کچھ نقد چلتا رہا غرض یہ آغاز تھا ملک کی اس یونیورسٹی کا جس کی موجودہ عظمت و وسعت دیکھنے کے بعد اس کے ابتدائی دور کی مشکلات اور مسائل کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس ہستی نے اس وقت بھی ایثار محنت، خلوص اور دیانت سے اس جامعہ کو خوب سے خوب تر بنانے کے لئے کام کیا۔ آپ ہی کے دورِ وائس چانسلری میں برصغیر پاک و ہند اور یورپ و امریکہ کے نامور محقیقین و ماہرین تعلیم کو یونیورسٹی میں پڑھانے کے لئے رکھا گیا۔ ان میں سے چند کے اسم گرامی درج ذیل ہیں۔ ڈاکٹر محمود حسین خان (مرحوم) سربراہ شعبہ تاریخ عمومی، ڈاکٹر امیر حسن صدیقی (مرحوم) سربراہ شعبہ تاریخ اسلام، ڈاکٹر ایم ایم احمد سربراہ شعبہ فلسفہ، ڈاکٹر فلپ سی، نیومین (Dr. Philp C. Newman) سربراہ شعبہ معاشیات و تجارت، ڈاکٹر آسکر شمیڈر (Dr. Oskar Schmieder) سربراہ شعبہ جغرافیہ، سلیمان محمد کیرا والا سربراہ شعبہ ریاضی، ڈاکٹر جارج انٹانوف (Dr. George Antonoff) سربراہ شعبہ کیمیا، ڈاکٹر مجتبیٰ کریم سربراہ شعبہ طبیعات، ڈاکٹر محمد افضال حسین قادری سربراہ شعبہ حیوانیات اور ڈاکٹر ایل، جی، جی، وارن (Dr. L.G.G. Warne) سربراہ شعبہ نباتیات تھے۔
ڈاکٹر مولوی عبدالحق (مرحوم) کو اعزازی پروفیسر کا انتخاب بھی عمل میں آیا۔ اور وہی اردو کے لئے پروفیسروں اور ریڈروں کی انتخابی کمیٹی کے چیئرمین بھی بنے ۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، پروفیسر شریف المجاہد اور بھی بہت سے نامور محقیقین تاریخ داں اس جامعہ میں پروفیسر ابوبکر احمد حلیم کے دور میں داخل ہوئے۔ آپ ہی کے دور میں موجودہ جگہ پر کراچی یونیورسٹی کے لئے اراضی حاصل کی گئی تھی۔ آپ 1951ء سے 1957ء تک جامعہ کراچی کے وائس چانسلر رہے۔ آپ نے دن رات محنت کر کے اس جامعہ کو ممتاز مقام دلوانے کی بھرپور کوشش کی، علاوہ ازیں 1948ء سے 1974ء تک کونسل آف انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیرز کے چیئرمین رہے آپ 1949ء سے مؤتمر عالم اسلامی پاکستان شاخ کے بانی رکن تھے اور آخر وقت تک مختلف حیثیتوں سے خدمت کرتے رہے " {'جامعہ کراچی کے پہلے وائس چانسلر پروفیسر ابوبکر احمد حلیم ': از شاہد احمد}۔ ان کےاس تعلیمی کردار کو سراہاہ گیا۔ ۔ وہ قومی کمیٹی پاکستان کے چیئرمین کے طور پر 1948 ء سے 1957 ء تک کام کرتے رھے ۔ انہوں نے 1962 میں معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لئے کمیشن کا چیئرمین بھی مقرر کیا گیا تھا ۔ 1965 ء میں وہ اسلامی مشاورتی نظریاتی کونسل کے رکن بنے۔ ۔ وہ موتمر الاسلامی کے روح رواں تھے حلیم صاحب کراچی میں اپنے قیام پاکستان کے بعد سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی امور کے ساتھ وابستہ رھے۔ اور اور انھوں نے چیئرمین کے طور پر اور 1961 ء سے 1974 ء تک اور 1949 ء سے 1960 تک منتخب کیا گیا ۔ انہوں نے تحقیق اور خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی امور پر مکالمے کے لئے ایک سرکردہ فورم میں انسٹی ٹیوٹ کو قائم کرنے میں مدد دی ۔ ۔ پاکستان پوسٹ آفس نے 20 اپریل 2003 میں ان کایادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ ان کو لوگ پیارسے "ابا حلیم" بھی کہتے تھے۔ حلیم صاحب کا انتقال 20اپریل 1975ء کو حرکت قلب بند ہونے سے کراچی میں ہو گیا۔ آپ کی نماز جنازہ رحمانیہ مسجد میں ادا کی گئی۔ سوسائٹی کے قبرستان میں آپ کی تدفین کی گئی۔:::
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔