ایٹگر کریٹ ( Etgar Keret )
میں شو کے اختتام پر اپنی ٹوپی سے خرگوش نکالتا ہوں ۔ میں ایسا اس لیے کرتا ہوں کیونکہ بچے جانوروں سے محبت کرتے ہیں ۔ کم از کم ، یہ تب تو ایسا ہی تھا جب میں بچہ تھا ۔ اس طریقے سے شو کا اختتام کرتے ہوئے ، میں تب محفل میں اور بھی ولولہ بھر دیتا ہوں جب میں خرگوش کو حاضرین کے ہاتھوں میں دیتا ہوں تاکہ بچے خرگوش کو پالتو جانیں اور اسے کھلائیں پلائیں ۔ کم از کم پہلے تو ایسا ہی ہوتا تھا ۔ لیکن آج کل کے بچوں کے ساتھ ایسا کرنا مشکل ہو گیا ہے : ان میں ولولہ پیدا ہوتا ہی نہیں ہے ۔میں ، لیکن ، خرگوش والا یہ کرتب ابھی بھی آخر میں ہی دکھاتا ہوں ۔ یہ کرتب مجھے بہت پسند ہے ، یا یہ کہہ لیں کہ مجھے اس سے بہت محبت رہی ۔ میری نظریں حاضرین پر جمی رہتیں ، جبکہ میرا ہاتھ ٹوپی میں جاتا ، اس گہرائی تک جب اسے ’ کزام‘ کے کان محسوس نہ ہو جاتے ۔
میں ، تب ، آواز لگاتا ، ”الا کزام ہے ۔ ۔ ۔ الاکزام ہے!“ اور پھر یہ باہر آ جاتا ۔ یہ کبھی بھی انہیں حیران کر دینے میں ناکام نہیں رہتا ۔ یہ صرف انہیں ہی نہیں ، بلکہ مجھے بھی حیران کر دیتا ۔ ہر بار جب میرا ہاتھ ٹوپی کی گہرائی میں اس کے لِجلجےکانوں کو چھوتا ، تو میں خود کو ایک جادوگر سمجھنے لگتا ۔ اور ، گو ، کہ مجھے یہ معلوم ہے کہ یہ سب کیسے ہوتا ہے ، میز میں خالی جگہ اور یہ سب کچھ ، لیکن ، پھر بھی یہ مجھے ایک اصلی جادوگری ہی لگتی ۔
اُس ہفتے بھی میں نے ، مضافات میں ، حسب معمول ، ٹوپی والا کرتب آخر کے لیے بچا رکھا تھا ۔ سالگرہ کی دعوت میں موجود بچے حیرت انگیز طور پر اکتائے ہوئے تھے ۔ اس میں سے کچھ تو میری طرف پیٹھ کیے کیبل پر ’شوارزینگر‘ کی ایک فلم دیکھ رہے تھے ۔ وہ بچہ بھی ، جس کی سالگرہ تھی ، کمرے میں موجود نہ تھا ۔ وہ دوسرے کمرے میں اپنی نئی ویڈیو گیم کھیل رہا تھا ۔ میرے حاضرین بھی محدود ہو گئے اور یہ فقط چار بچے تھے ۔ یہ دن خاص طور پر ایک گرم دن تھا ۔ جادوگر کا لباس مجھے پسینے میں شرابور اور پاگل کر رہا تھا ۔اور میری خواہش تھی کہ میں جلدی سے اپنا تماشا ختم کروں اور گھر جاﺅں ۔ میں نے ، چنانچہ ، تین رسیوں والا کرتب نہ دکھایا اور ٹوپی والا کرتب دکھانے لگا ۔ میرا ہاتھ ٹوپی کی گہرائیوں میں گیا اور میں نے اپنی آنکھیں ، ایک گول مٹول لڑکی کی آنکھوں میں گاڑ دیں جس نے عینک پہن رکھی تھی ۔ کزام کے نرم کانوں کو چھوتے ہی مجھے اسی حیرت نے دبوچا ، جو میں ہمیشہ محسوس کرتا تھا۔ ’’ الاکزام ہے ۔ ۔ ۔ الاکزام ہے! “، بس ایک اور منٹ اور میں اِس والد کے گھر سے ، تین سو شیکل * کا چیک جیب میں لیے ، باہر ہوں گا ۔ میں نے کزام کو کانوں سے پکڑ کرباہر نکالا تو مجھے لگا کہ یہ کچھ عجیب سا اور ہلکا تھا ۔ میرا ہاتھ ہوا میں لہرایا ، جبکہ میری نظریں حاضرین پر ہی جمی تھیں ۔ اور پھر ۔ ۔ ۔ اچانک مجھے اپنی کلائی پر گیلا پن محسوس ہوا اور اس گول مٹول بچی نے چیخنا شروع کر دیا ۔ میں نے اپنے دائیں ہاتھ میں لمبے کانوں والے کزام کا سر تھام رکھا تھا ، جس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں ۔ یہ صرف سر تھا اور بہت سا خون ، اس کا دھڑ نہیں تھا ۔ گول مٹول بچی چیختی رہی ۔ ان بچوں ، جو میری طرف پیٹھ کیے بیٹھے تھے ، نے ٹی وی سے نظریں ہٹائیں اور تالیاں بچانا شروع کر دیں ۔ وہ بچہ بھی ، جس کی سالگرہ تھی اور جو دوسرے کمرے میں اپنی نئی ویڈیو گیم کھیل رہا تھا ، نے جب کٹے ہوئے سر کو دیکھا تو وہ بھی جوشیلے انداز میں سیٹیاں بجانے لگا ۔ مجھے اپنا کھانا منہ کو آتا محسوس ہوا ۔ میں نے اپنی جادوئی ٹوپی میں قے کی ، جو اس میں جا کرغائب ہو گئی ۔ میرے ارد گرد موجود بچے خوشی سے پاگل ہونے لگے ۔
میں ، اس رات ایک لمحے کے لیے بھی نہ سو سکا بلکہ پلک بھی نہ جھپکی ۔ میں نے کرتب دکھانے والے ، اپنے سارے ساز و سامان ،کی بار بار پڑتال کی ۔ میں اس بات کی کوئی وجہ نہ جان سکا کہ جو ہوا تھا ، کیونکر ہوا ۔ مجھے کزام کا باقی دھڑ بھی نہ ملا ۔ اگلے روز میں ان دکانوں پر گیا جہاں کرتب دِکھانے کا سامان بکتا تھا ۔ وہ سب بھی یہ سن کر دنگ رہ گئے ۔ میں نے ایک خرگوش خریدا ۔ سیلز مین نے مجھے قائل کرنا چاہا کہ میں ایک کچھوا خریدوں ۔ ” خرگوش اب پرانے ہو چکے ہیں ۔“ اس نے کہا ، ” آج کا کچھوﺅں کا رواج ہے ۔ آپ انہیں بتاﺅ کہ یہ’ نِن جا ٹرٹل‘ ہے اور ان کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ جائیں گے ۔“
میں نے ، بہرحال ، ایک خرگوش ہی خریدا ۔ میں نے اس کا نام کزام ہی رکھا ۔ میں ، جب ، گھر لوٹا تو میری ’ آنسرنگ مشین‘ * پر پانچ پیغام تھے ۔ یہ سب کے سب وہ بچے تھے جو سالگرہ والے دن وہاں موجود تھے ۔ان میں سے ایک بچہ تو مُصر تھا کہ میں کٹے سر والا وہ کرتب دکھاﺅں جو میں نے اس دعوت پر دکھایا تھا اور میں کٹے سر کو و یسے ہی اس کے پاس چھوڑ جاﺅں جیسا کہ میں نے اس روز کیا تھا ۔مجھے تب احساس ہوا کہ میں نے اس روز واقعی کزام کا سر وہاں سے نہیں لیا تھا ۔
میرا اگلا کرتب بدھ کے روز تھا ۔ یہ ایک قدیمی علاقے میں ایک دس سالہ بچہ اپنی سالگرہ منا رہا تھا ۔ میں سارے شو میں تناﺅ کا شکار رہا ۔ میں اپنی توجہ مرکوز نہ رکھ سکا ۔ میں تاش کرتب ’ پان کی ملکہ ‘ دکھاتے ہوئے پھسل بھی گیا ۔ میرا سارا دھیان ٹوپی ولے کرتب پر تھا ۔ اور پھر بالآخر ” الاکزام ۔ ۔ ۔ الاکزام ! “ کا وقت ہوگیا ۔ میری نظریںحاضرین پر گڑھی ہوئی تھیں اور میرا ہاتھ ٹوپی میں تھا ۔ مجھے کان نہ ملے لیکن دھڑ اپنے پورے وزن کے ساتھ وہاں موجود تھا ، ملائم لیکن اپنے صحیح وزن کے ساتھ ۔ اور پھر چیخیں ابھریں لیکن ساتھ میں تالیاں کی گونج بھی ۔ یہ خرگوش نہیں تھا جو میں نے تھام رکھا تھا ۔ یہ ایک مردہ بچہ تھا ۔
میں یہ کرتب اب نہیں دِکھا سکتا ۔ مجھے اس کرتب سے پیار تھا ، لیکن اب ، جب بھی میں ، اس کے بارے میں سوچتا ہوں ، میرے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں ۔ مجھے طرح طرح کے بُرے خیال آتے ہیں کہ ٹوپی میں پڑا کیا کچھ ، میرا منتظر ہو گا ، اور جب میں ، بالآخر ، اس میں سے ہاتھ باہر نکالوں گا تو نجانے کیا برآمد ہو ۔ گزشتہ شب میں نے خواب دیکھا کہ جیسے ہی میں نے ٹوپی میں ہاتھ ڈالا تو ایک عفریت نے اِسے اپنے جبڑوں میں دبوچ لیا تھا ۔مجھے یہ جاننے میں دشواری ہو رہی ہے کہ میرے اندر اتنی جرا ؐت کہاں سے پیدا ہوئی کہ میں اس تاریک ٹوپی میں سے اپنا ہاتھ باہر کھینچ سکوں ۔میں نے جرا ؐت کرکے کیسے آنکھیں بندکیں اور میں سو گیا ۔
میں، اب ، کرتب بالکل بھی نہیں دکھاتا ، اور مجھے اس کی پرواہ بھی نہیں ہے ۔ یہ اب میرا روزگار بھی نہیں ہے اور یہ بھی میرے لیے اچھا ہی ہے ۔ لیکن میں کبھی کبھی خود کو خوش کرنے کے لیے گھر پر ہی اپنا جادوگروں والا لباس پہنتا ہوں ، یا ٹوپی کے نیچے میز میں بنی خفیہ جگہ میں ہاتھ ڈالتا ہوں ۔ میں بس اتنا ہی کرتا ہوں اور اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کرتا ۔ میں باقی تمام کرتبوں سے دور رہتا ہوں اور تو اور میں کچھ بھی نہیں کرتا ۔ میں تو بس بستر پر لیٹا ، جاگتا رہتا ہوں اور خرگوش کے سر اور مردہ بچے کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں ۔ جیسے کہ یہ ایک بجھارت کے دو اشارے ہوں ، جیسے کوئی مجھے کسی شے کے بارے میں کچھ بتانے کی کوشش کر رہا ہو ، کہ یہ وقت خرگوشوں یا بچوں کے لیے اچھا نہیں ۔ ۔ ۔ اور یہ کہ شاید یہ وقت شعبدہ بازوں، کرتب دکھانے والوں اور جادوگروں کے لیے بھی ٹھیک نہیں ہے ۔ #
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* شیکل = اسرائیلی کرنسی
* ’ آنسرنگ مشین‘ = Answering Machine
یہ افسانچہ مصنف کی کتاب ’ Ga'agu'ai le-Kissinger ‘ ( کیسنجر یاد آتا ہے ۔) شائع شدہ 1994 ء سے لیا گیا ہے ۔ یہ اس مجموعے کی چھٹی کہانی ہے ۔