عبرانی افسانہ
دَستک ( Suddenly, A Knock on the Door )
ایٹگر کریٹ ( Etgar Keret )
" مجھے کہانی سنائو " ، میرے لیونگ روم میں پڑے صوفے پر بیٹھے باریش بندے نے حکم دیا ۔ مجھے یہ بتانا ہے کہ صورتحال کسی بھی طرح خوشگوار نہیں ہے ۔ میں وہ تو ہوں جو کہانیاں لکھتا ہے ، لیکن وہ نہیں جو کہانیاں سناتا ہے ۔ اور پھر ایسا بھی ہے کہ کوئی مجھے حکم دے اور کہانی لکھوا لے یا مجھ سے سُن لے ۔
آخری بار جب مجھے کسی نے کہا تھا کہ میں اسے کہانی سنائوں تو وہ میرا بیٹا تھا ۔ یہ سال پرانی بات ہے ۔ ۔ ۔ میں نے اسے پری اور نیولے کی کہانی سنائی تھی ۔ یہ کیا تھی ۔ ۔ ۔ اب مجھے یاد نہیں ۔ ۔ ۔ اور وہ دو منٹ میں ہی گہری نیند سو گیا تھا ۔ لیکن موجودہ صورتحال بنیادی طور پر بہت مختلف ہے کیونکہ میرے بیٹے کے داڑھی نہیں اور نہ اس کے پاس کوئی پستول تھا اور ایسا بھی تھا کہ اس نے نرم اور نفیس لہجے میں مجھ سے درخواست کی تھی لیکن یہ شخص تو ، سیدھے سادے لفظوں میں مجھ سے ایک کہانی چھیننے کی کوشش کر رہا ہے ۔
میں نے اس داڑھی والے شخص پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ اگر وہ اپنا پستول پرے کر دے تو اس کے لیے صورتحال بہتر ہو سکتی ہے بلکہ یہ ہم دونوں کے لیے ہی بہتر ہے ۔ ایسے عالم میں ، جب ایک بھری پستول کی نال آپ کے سر کی طرف اٹھی ہو ، کہانی گھڑنا اور کہنا ایک مشکل کام ہے ۔ مگر وہ شخص مُصر ہے ۔
" اِس ملک میں "، وہ کھل کر کہتا ہے ، " اگر آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو آپ کو طاقت کا استعمال کرنا پڑتا ہے ۔"
وہ چند روز قبل ہی سویڈن سے یہاں آیا ہے ۔
" وہاں سویڈن میں تو صورت حال ہی بہت مختلف ہے۔ آپ نرمی سے کسی چیز کا مطالبہ کرو تو اکثر اوقات وہ آپ کو مل جاتی ہے ۔ مگر اس سخت کوش اور گرم مرطوب مشرق وسطیٰ میں ایسا ہونا ممکن نہیں ۔ یہاں ایک ہفتہ یا کچھ اتنا ہی وقت لگتا ہے اور آپ یہ جان لیتے ہیں کہ یہاں چیزیں کیسے کام کرتی ہیں ۔ فلسطینی خوش روی اور اخلاق سے ایک ریاست کا مطالبہ کرتے رہے ۔ کیا یہ انہیں ملی ہے ؟ انہوں نے کیا کچھ کرکے نہیں دیکھ لیا ۔ پھر انہوں نے بسوں میں بیٹھے بچوں کو دھماکوں سے اڑانا شروع کر دیا اور لوگوں نے ان کی باتوں پر کان دھرنا شروع کر دئیے ۔ پناہ گزین مکالمہ کرنا چاہتے تھے ، کیا کسی نے اس پر دھیان دیا ؟ بالکل نہیں ۔ اس لیے وہ جسمانی لڑائی پر اتر آئے اور باڑوں پر گشت کرنے والوں پر اُبلتا تیل پھینکنے لگے جس نے انہیں اچانک سامعین مہیا کر دئیے ۔ اس خطہ ِزمین پر جس کی لاٹھی ، اسی کی بھینس ہے ۔ ۔ ۔ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس بات کا تعلق سیاست سے ہے ، معاشیات سے یا صرف گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ سے ہے ۔ یہاں فقط بہیمانہ طاقت کی زبان ہی سمجھی جاتی ہے ۔
" سویڈن " ، دڑھیل نے ہاتھ سے رفعتی اشارہ کرتے ہوئے کہا ، " ترقی یافتہ ہے ۔ اور کچھ میدانوں میں تو یہ بہت آگے ہے ۔ یہ ایبا (ABBA ) , ایکیا (IKEA ) یا نوبل انعام کا ہی نام نہیں ہے ۔ سویڈن خود میں ایک الگ اور مختلف دنیا ہے ، اور وہاں کے لوگوں کے پاس جو کچھ ہے وہ انہوں نے پُرامن ذرائع سے حاصل کیا ہے ۔ سویڈن میں ، اگر میں '' ایس آف بیس " ( Ace of Base ) بینڈ کی کسی ایک فنکارہ کا دروازہ کھٹکھٹائوں اور اس سے کہوں کہ وہ میرے لیے گائے تو وہ مجھے خوش آمدید کہے گی ، چائے کا کپ پیش کرے گی ، پلنگ کے نیچے سے اپنا گٹار اٹھا کرمیرے لیے گائے گی ۔ اور وہ یہ سب مسکراتے ہوئے کرے گی ! لیکن یہاں ؟ میرا مطلب ہے کہ اگر میں تمہیں پستول کا لَشکارہ نہ دکھائوں تو تم نے مجھے فوراً ہی اٹھا کر باہر پھینک دینا تھا ۔
" دیکھو ! " ، میں اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔
"تم اپنے آپ کو دیکھو " داڑھی والا دانت پیس کر بُڑبُڑاتا ہے اور اپنے پستول کی نال میں گولی چڑھاتا ہے ۔ " یا تو تم مجھے کہانی سنائو گے یا ایک گولی تمہارے سر میں آنکھوں کے بیچ سے پار ہو گی ۔ "
میں جان لیتا ہوں کہ میرے پاس انتخاب کے امکانات ہیں ہی نہیں ۔ بندہ اپنی بات پر اَڑا ہوا ہے ۔
میں کہانی شروع کرتا ہوں ۔
'' دو آدمی ایک کمرے میں بیٹھے ہیں ۔''
اچانک دروازے پر دستک ہوتی ہے ۔ داڑھی والا بندہ فوراً تن جاتا ہے ۔ میں پہلے تو یہ سمجھتا ہوں کہ وہ کہانی پر توجہ دے رہا ہے مگر ایسا نہیں ، وہ کچھ اور سن رہا ہے ۔
"دروازے پر دستک ہو رہی ہے ۔ " وہ بیزاری سے کہتا ہے ، "دروازہ کھولو ۔ اور وہ جو کوئی بھی ہے ، اس سے جان چھڑائو اور یہ سب جلدی کرو ۔ اور ، ہاں دیکھنا ، کوئی ایسی ویسی حرکت مت کرنا ورنہ انجام بُرا ہو گا ۔ "
دروازے پر موجود نوجوان ، ایک سروے کرنے والا ہے ۔ اس نے کچھ مختصر سوالات کرنے ہیں کہ یہاں گرمیوں کے موسم میں نمی کی زیادتی مجھ پر کس طرح سے اثر انداز ہوتی ہے ۔ میں اسے بتاتا ہوں کہ مجھے اس کے سوال نامے میں کوئی دلچسپی نہیں مگر وہ مجھے دھکیلتا ہے اور اندر گھس آتا ہے ۔
"یہ کون ہے ؟"
وہ داڑھی والے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے پوچھتا ہے ۔
" یہ ، میرا بھتیجا ہے ۔ سویڈن سے آیا ہے ۔ میں جھوٹ بولتا ہوں ، " اس کا باپ برف کے تودے تلے دب کر جاں بحق ہو گیا اور یہ اسے دفنانے یہاں آیا ہے ۔ ہم ابھی اس کی وصیت کو دیکھ رہے ہیں ۔ کیا تم ہمارے نجی معاملات کا احترام کرتے ہوئے ہمیں تخلیہ فراہم نہیں کرو گے ؟ "
"ایسے نہ کرو ، مان جائو ! " ، آراء لینے والا کہتا ہے اور میرا کندھے پر تھپکی دیتا ہے ۔ '' میرے صرف چند سوالات ہیں ۔ ایک غریب بندے کو کچھ رقم کمانے دو ۔ وہ مجھے ، فی جواب کنندہ ، ادائیگی کر تے ہیں ۔ "
وہ اپنے ہاتھ میں پکڑی پلاسٹک کے فولڈر کو مضبوطی سے پکڑے صوفے میں جا دھنستا ہے ۔ سویڈش بھی جا کر اس کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے ۔ میں ابھی تک کھڑا ہوں تا کہ اسے یہ یقین دلا سکوں کہ میں جو اسے کہہ رہا ہوں اس سے میرا مطلب بھی وہی کچھ ہے ۔
"میں تمہیں جانے کو کہہ رہا ہوں مسٹر ۔ " ، میں اسے کہتا ہوں ، " تم بہت بے وقت آئے ہو ۔ "
" بے وقت ، اونہہ ؟ "
وہ پلاسٹک کا فولڈر کھولتے ہوئے اس میں سے ایک بڑا ریوالور نکالتا ہے ۔
"میں کیوں اور کیسے بے وقت آیا ہوں ؟ اس لیے کہ میری رنگت کالی ہے ؟ اس لیے کہ میں کم حیثیت رکھتا ہوں ؟ جب بات سویڈش کی ہو تو تمہارے پاس دنیا کا سارا وقت ہے مگر ایک مراکشی کے لیے ، ایک جنگی مجاہد کے لیے جو اپنی تِلی کے ٹکڑے لبنان میں پیچھے چھوڑ آیا ہے ۔ اسے تم ایک منٹ بھی نہیں دے سکتے ۔ "
میں اسے ، دلیل سے ، سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ یہ بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ جیسا وہ سمجھتا ہے ، ویسا نہیں ہے ۔ اور یہ کہ وہ ایسے موقع پر آ کر مخل ہوا جب میں سویڈش کے ساتھ ایک نازک نکتے پر بات کر رہا تھا ۔ میں یہ بھی کوشش کرتا ہوں کہ اس سے بات کر سکوں مگر وہ اپنے ریوالور کی نال اپنے ہونٹوں کے سامنے رکھتے ہوئے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتا ہے ۔
" چلو ، بہانے بنانا بند کرو ، وہاں بیٹھ جائو اور سب بک ڈالو ۔ "
"کیا ؟ کیا بک دوں ؟ " ، میں پوچھتا ہوں ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ میں بری طرح پھنس چکا ہوں ۔ سویڈش کے پاس بھی پستول ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں ۔ مغرب ، مغرب ہے اور مشرق ، مشرق ۔ دو اذہان کے لوگ ہیں یا کچھ اور ، کسی بھی وجہ سے کسی بھی لمحے آگ بھڑک سکتی ہے ۔ صرف اس وجہ سے بھی کہ سویڈش بھڑک اٹھے کہ وہ اکیلے بیٹھ کر کہانی سننا چاہتا ہے اور اس پر مُصر ہو جائے ۔
"مجھے کچھ کرنے پر مجبور مت کرو ۔" ، رائے شمار مجھے دھمکاتا ہے ۔ "میرا پارہ جلدی چڑھ جاتا ہے ، جلدی سے اپنی کہانی کہہ ڈالو ۔ "
"ہاں ۔ " ، سویڈش بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے اور اپنا پستول باہر نکال لیتا ہے ۔
میں اپنا گلا صاف کرتا ہوں اور کہانی دوبارہ سے شروع کرتا ہوں ۔
" تین آدمی ایک کمرے میں بیٹھے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "
" اور ہاں ! دروازے پر کوئی دستک نہیں ہو گی ۔ " ، سویڈش مجھے ٹوک دیتا ہے ۔
رائے شمار ، ہماری بات سمجھ نہیں پاتا مگر اُس کا ساتھ دیتا ہے ۔وہ بھی کہتا ہے ، "بولتے جائو ، لیکن دروازے پر دستک نہیں ہونی چاہیے ۔ ہمیں کچھ اور بتائو ۔ ہمیں حیران کرو ۔ "
میں رُک جاتا ہوں اور ایک لمبا اور گہرا سانس لیتا ہوں ۔ وہ دونوں مجھے گھور رہے ہیں ۔ میں ہمیشہ ایسی صورت حال میں کیسے اور کیونکر پھنس جاتا ہوں ؟ مجھے یقین ہے اموس اوز (Amos Oz) یا ڈیوڈ گروسمین ( David Grossman ) کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا ہو گا ۔
اچانک دروازے پر دستک ہوتی ہے ۔ دونوں کے گھورنے کا انداز اب دھمکی آمیز ہے ۔ میں کندھے اُچکاتا ہوں ۔ " میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں ۔ میری کہانی میں کوئی شے ایسی ہے ہی نہیں جو دروازے پر ہونے والی دستک سے تعلق رکھتی ہو ۔ "
"اس سے جان چھڑائو ۔ '' ، رائے شمار مجھے حکم دیتا ہے ، " اس سے فوراً جان چھڑائو ۔ وہ جو کوئی بھی ہے ۔ "
میں تھوڑا سا دروازہ کھول کر دیکھتا ہوں ۔ وہ پزا ( Pizza ) پہنچانے والا لڑکا ہے ۔
"کیا تم کیرٹ ہو ؟ " ، وہ مجھ سے سوال کرتا ہے ۔
"ہاں " ، میں کہتا ہوں ، " مگر میں نے پزا نہیں منگوایا ۔ "
وہ پزا کے ڈبے پر پڑی ڈیلیوری کی پرچی پر زور سے ہاتھ مارتا ہے اور مجھے دکھاتے ہوئے کہتا ہے ۔
"یہ سلپ کہتی ہے کہ یہ 14 زیمن ہوف سٹریٹ ہے ۔" اور وہ ساتھ ہی دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہو جاتا ہے ۔
"تو کیا ہوا ؟ میں نے پزا آرڈر نہیں کیا ۔" ، میں کہتا ہوں ۔
" فیمیلی سائز " ، وہ اصرار کرتا ہے ، " آدھا انناس ، آدھا اینشوی ( Anchovy ) پزا کا آرڈر یہیں سے گیا ہے ۔ جس کی ادائیگی کریڈٹ کارڈ سے پہلے ہی ہو چکی ہے ۔ آپ مجھے بس بخشیش دیں تاکہ میں یہاں سے نکلوں ۔ "
"کیا تم بھی کہانی سننے آئے ہو ؟ " ، سویڈش پوچھتا ہے ۔
"کون سی کہانی؟ "
لڑکا انجان بنتے ہوئے کہتا ہے ۔ مگر صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے ۔ وہ جھوٹ بولنے کا ماہر نہیں ہے ۔
" باہر نکالو ۔ " ، رائے شمار کہتا ہے ۔ " نکالو ، پستول ہے یا پھر ریوالور ؟ "
"میرے پاس اسلحہ نہیں ہے ۔ "
پزے والا لڑکا شرمندہ ہو کر اقرار کرتا ہے اور گتے کی ٹرے کے نیچے سے ایک تیز دھار والا چھرا نکالتا ہے ۔
" لیکن اس نے اگر مجھے سرعت سے کہانی نہ سنائی تو میں اس کے گوشت کے نہایت نفیس قتلے بنائوں گا ۔ "
تینوں اب صوفے پر بیٹھ چکے ہیں ۔ گورا دائیں ہاتھ بیٹھا ہے ، پھر پزے والا لڑکا اور اس کے ساتھ رائے شمار ۔
"میں اس طرح کہانی نہیں سنا سکتا ۔"، میں انہیں بتاتا ہوں ۔ " اس صورت میں جبکہ تم تینوں میرے سر پر ، ہتھیار لیے بیٹھے ہو ، میرے ذہن میں کوئی کہانی نہیں آ سکتی ۔ تم سب جائو اور ایک بلاک کا ایک چکر لگائو اور جب تک تم واپس آئو گے تب تک امید ہے کہ میرے پاس سنانے کے لیے کچھ ہو گا ۔ "
" یہ سالا ! پولیس والوں کو بلانا چاہتا ہے ۔ " ، رائے شمار سویڈش کو بتاتا ہے ، " یہ کیا سمجھ رہا ہے ؟ کہ ہم کل ہی پیدا ہوئے ہیں ؟"
"مان جائو ، ہمیں کہانی سنا دو ۔ ہم سب یہاں سے چلے جائیں گے ۔ " ، پزے والا لڑکا التجا کرتا ہے ۔
" ایک مختصر کہانی ہی سہی ، اتنے بخیل مت بنو ، حالات بہت کڑے ہیں تم جانتے ہو ، بے روزگاری ، خود کش حملے ، ایرانی ۔ ۔ ۔ لوگ کچھ اور سننا چاہتے ہیں ۔ تم کیا سمجھتے ہو؟ ہم جیسے قانون کے تابع لوگوں کو کیا چیز یہاں کھینچ لائی ہے ؟ "
"ہم راندہ درگا لوگ ہیں ، سمجھے ، بری طرح سے مایوس جس نے ہمیں سفاک بھی بنا دیا ہے ۔"
میں اپنا گلا صاف کرتا ہوں اور پھر سے کہانی شروع کرتا ہوں ۔
" چار لوگ ایک کمرے میں بیٹھے ہیں ۔ شدید گرمی ہے ۔ وہ سب اکتاہٹ کا شکار ہیں ۔ ائیر کنڈیشنر کی ٹھنڈک آخری دموں پر ہے ۔ ان میں سے ایک کہانی سنانے کو کہتا ہے ۔ پھر دوسرا اس مطالبے میں شریک ہو جاتا ہے ۔اور پھر تیسرا بھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "
"یہ کہانی نہیں ہے ۔" رائے شمار احتجاج کرتا ہے ، " یہ آنکھوں دیکھا واقعہ ہے ۔ یہ ایک رپورتاژ ہے ۔ یہ سب ، ٹھیک ٹھیک وہی ہے جو ابھی یہاں ہو رہا ہے ۔ وہی سب ، جس سے ہم بھاگنا چاہ رہے ہیں ۔ اس سب کو ، اس حقیقت کو کچرے سے بھرے ٹرک کی طرح ہم پر مت پھینکو ، اپنا تخئیل شامل کرو ۔ کچھ تخلیق کرو ، کچھ ایجاد کرو اور اسے انجام تک لے کر جائو ۔"
میں اثبات میں سر ہلاتا ہوں ۔ اور دوبارہ سے ، شروع سے ہی کہنا ابتداء کرتا ہوں ۔
" ایک آدمی کمرے میں بیٹھا ہے ۔ بالکل اکیلا ، وہ ایک مصنف ہے اور ایک کہانی لکھنا چاہتا ہے ۔ اس نے بہت عرصہ پہلے اپنی آخری کہانی لکھی تھی ۔ اور اب وہ اسے یاد کر رہا ہے ۔ وہ تخلیق کے اس لمحے کو بھی یاد کر رہا ہے جب وہ کسی بھی شے سے کچھ بھی تخلیق کر لیتا تھا ۔ ۔ ۔ "
" اب ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ کسی بھی شے سے کچھ بھی تخلیق ۔ "
" کیونکہ جب نیست سے کچھ نکالا جاتا ہے تو یہ کچھ ایسا ہوتا ہے جیسے بندہ پتلی ہوا سے کچھ برآمد کر رہا ہو اور اس صورت میں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی ۔ ایسا تو کوئی بھی کر سکتا ہے ۔مگر جب ایک چیز سے ، دوسری چیز تخلیق کی جاتی ہے تو اس کی ایک بنیاد ہوتی ہے ۔ اس کا ایک پس منظر ہوتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے سے ہی وہاں ہمیشہ سے موجود تھی ، آپ کے اندر بس ایسا ہے کہ آپ نے بس اسے پہلی بار دیکھا اور دریافت کیا ، کسی نئی شے کے ایک جزو کے طور پر اور ایسا اس سے پہلے نہیں ہوا ہوتا ۔ یہ بندہ ہی ہے جو فیصلہ کرتا ہے کہ وہ ایک صورت حال کے بارے میں کہانی لکھے ۔ یہ اس کے الٹ نہیں ہوتا کہ صورت حال یہ فیصلہ کرے ؛ سیاسی صورت حال اور نہ ہی سماجی صورت حال ۔ بندہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس نے انسانی صورت حال پر لکھنا ہے یا اس کے حالات پر ۔ انسانی حالات ، صورت حال جس کو وہ خود اس وقت اپنے تجربے کی نظر سے دیکھتا ہے لیکن وہ اس کی تصویر کشی نہیں کر پاتا ۔ کوئی کہانی خود کو بیان نہیں کرتی ، خود کو پیش نہیں کرتی اس لیے کہ انسانی حالت کا اسے جو تجربہ اس وقت ہو رہا ہوتا ہے وہ حالت کہانی کے قابل ہی نہیں ہوتی اور وہ اسے لکھنے سے انکاری ہو جاتا ہے کہ اچانک ۔ ۔ ۔ "
"میں نے تمہیں پہلے ہی خبردار کیا تھا ۔ " ، سویڈش مجھے ٹوک دیتا ہے ، " دروازے پر دستک نہ ہو ۔ "
" مجھے یہ کرنا ہے ۔ " ، میں اصرار کرتا ہوں ، "دروازے پر دستک کے بغیر کوئی کہانی نہیں ۔"
" اسے کرنے دو ۔ " ، پزے والا لڑکا نرم دلی سے کہتا ہے ، " اسے تھوڑی سی تو ڈھیل دو ۔ تم دروازے پر دستک چاہتے ہو ؟ ٹھیک ہے ۔ دروازے پر دستک بیچ میں شامل کر لو ، بشرطیکہ اس کی مدد سے ہمیں کہانی سننے کو ملتی رہے ۔ "
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...