بندر اور ارینہ (The Monkeys' Uncle )
ایٹگر کریٹ( Etgar Keret )
لُوکاز نے اس رات پھر ایک خواب دیکھا جس میں وہ جنگل میں تھا ۔ وہ ایک درخت سے اچھلتا ، دوسرے پر جاتا ، کیلے کھاتا اور مادہ بندروں سے چھیڑ خانیاں اور دوستیاں کرتا پھر رہا تھا ۔ وہ دوسرے بندروں پر طنز کرتا ، ” اوئے بزدلو ، آﺅ ۔“ ، اس کی شاندار بالوں والی کھال ، سورج کی روشنی میں چمکتی ۔ ” آﺅ ، چچا لُوکاز تمہیں ایک قاز پکا کر کھلائے ۔“ لیکن دوسرے سارے نر بندر پیچھے ہٹ جاتے اور دبک جاتے ، کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ لُوکاز کے ساتھ پھڈا لینےکا فائدہ نہ تھا ۔
اور جب لوکاز خواب دیکھنے کے بعد جاگا تو اسے سر میں شدید درد ہو رہی تھی ۔ اس کے جسم کے زخموں میں ایسی جلن تھی جیسے وہ جہنم کی آگ بھگت رہا ہو ۔ ان میں سے کچھ سے تو چپچپی پیپ بھی رِس رہی تھی ۔ اس نے یقیناً نیند میں انہیں پھر سے کُھرچا ہو گا ، اس نے سوچا ۔ وہ اپنے پنجرے سے باہر نکلا ، اس کے دروازے کو تالا لگایا اور سیدھا ’ ٹیسٹ لیب نمبر 3 ( جلدی کینسر کی ریسرچ لیب ) کی طرف بڑھا ۔ اسے اس بات پر فخر تھا کہ وہ وہاں کام کرتا تھا ۔ اس کے برعکس دوسرے جانوروں میں سے زیادہ تر معمولی تجربوں میں لگے ہوئے تھے ، جیسے ایک لیب نمبر 2 ( کازمیٹکس* کی لیب ) میں جبکہ دوسرا نمبر 4 ( مضمحل آنکھ نامی لیب ) میں کام کرتا تھا ۔ لیکن لوکاز ایک ایسی ریسرچ کا حصہ تھا جو واقعی میں اہم تھی ۔ وہ نو بجے والے انجکشن کے لیے بالکل صحیح وقت پر پہنچا تھا ۔ ٹیکہ لگانے والی ارینہ تھی ۔ ” اپنے زخموں کو مت چھیڑو ۔“، ارینہ نے کہا ، ” اس سے چیزیں اور خراب ہوں گی ۔ “ لوکاز نے زخموں سے چھیڑچھاڑ بند کر دی ۔ ارینہ اس کی سب سے پسندیدہ لیب اسسٹنٹ تھی ” فرض کرو ، اگر میں کہوں ۔“ ، جب وہ اسے انجکشن لگا رہی تھی تو اس نے پوچھا ؛
” جب یہ تجربہ مکمل ہو جائے گا اور ہم کینسر کی دوا دریافت کر لیں گے تو کیا وہ لوگ اس سے اتفاق کر لیں گے کہ مجھے کچھ وقت کے لیے چھٹی دے دیں ؟مجھے جنگل اتنا یاد آتا ہے کہ تم اندازہ نہیں لگا سکتیں ۔“
ارینہ نے اس کے بازو سے سوئی کھینچی ۔ وہ یہ دیکھ سکتا تھا کہ وہ اداس تھی ۔
” فکر نہ کرو ، ارینہ ۔“ ، اس نے ارینہ کو خوش کرنے کے لیے کہا ، ” میں زیادہ دیر کے لیے نہیں جاﺅں گا ۔ تم مجھے جانتی ہو ، میں تو کام کا شیدائی ہوں ۔ مہینہ بھی نہیں گزرے گا کہ میں دیواریں پھلانگتا واپس آرہا ہوں گا ۔ اور جیسے ہی میں واپس آﺅں گا تو میں ، الذائیمر*( یادداشت گم ہونے والی بیماری ) کے تجربات کے لیے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کر دوں گا ۔ یوں ہم ایک بار پھر ساتھ ساتھ ہوں گے ۔“
ارینہ نے اسے گلے لگایا اور رونے لگی ۔ لوکاز کو پتہ نہ تھا کہ وہ ایسے میں کیا کرے ۔
” سنو ، سنو ، مجھے ایک خیال سوجھا ہے ۔“ ، اس نے ارینہ کی گردن تھپتھپاتے ہوئے سرگوشی کی ؛
” کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم کچھ دنوں کی چھٹی لو اور پھر ہم دونوں ساتھ ساتھ جنگل میں جائیں گے ۔ اس طرح میں تمہیں وہ جگہ بھی دکھا سکوں گا جہاں میں نے پرورش پائی تھی ۔ میں تمہیں اپنے خاندان سے بھی ملاﺅں گا اور تم وہاں کے حسین مناظر بھی دیکھ سکو گی ۔تم وہاں اچھا وقت گزارو گی ۔ وہاں ہر شے سرسبز ہے ۔“
ارینہ نے کوئی جواب نہ دیا، وہ بس روتی ہی رہی اور پھر اس کا رونا کم ہوتا گیا اور جب اس کی سسکیاں بھی بند ہو گئیں تو اس نے لوکاز کو چھوڑا ، ایک قدم پیچھے ہٹی اور مسکرائی ۔
” یقیناً ، میں تمہارے ساتھ چلوں گی ۔“ ، اس نے لوکاز سے کہا ، ” وہ اس سال مجھے کچھ دن کی چھٹی ضرور دیں گے ۔“
” یہ تو بہت ہی زبردست بات ہے ۔“ ، لوکاز کی آنکھوں میں چمک آئی اور اس نے ارینہ کی آنکھوں میں دیکھا ، جن میں ابھی بھی نمی تھی ۔
” یہ لاجواب رہے گا ۔“، اس نے یقین دلاتے ہوئے کہا ، ” اور تم دیکھنا کہ یہ ایک نیا تجربہ ہو گا ۔ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*کازمیٹکس = Cosmetics
*الذائیمر = Alzheimer
درج بالا افسانچہ ایٹگر کریٹ کی کہانیوں کے دوسرے مجموعے 'Missing Kissinger ' سے لیا گیا ہے ۔ یہ اس مجموعے کی 13 ویں کہانی ہے ۔