جہاں بازار کی رونق ختم ہوتی ہے وہیں ایک اندھیری گلی ہے۔ اس گلی میں ہر کچھ ماہ بعد حکومتی کارندے سڑک بنانے کے لیے روڑا پھینک جاتے ہیں لیکن آج تک کبھی وہاں روڈ نہیں بن پایا۔ وہاں سٹریٹ لائٹس بھی نہیں ہیں، کہیں کہیں کسی ہٹی کے باہر کوئی پیلی روشنی والا بلب جھولتا ہوا نظر آ جاتا ہے۔ نکاسی آب کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے، جب بارش ہوتی ہے تو کئی ہفتوں تک پانی کھڑا رہتا ہے۔ وہاں گنتی کی چند دکانیں ہیں۔ ایک قصاب کی دکان ہے، ایک پان والا کھوکھا ہے، ایک ورکشاپ ہے، ایک عطرفروش کی دکان ہے اور ایک چائے کا ڈھابہ ہے۔ آس پاس سارے پرانے گھر ہیں اور ان کے درمیان ایک مسجد ہے جو ہمیشہ زیرِ تعمیر رہتی ہے۔
ورکشاپ پر اکثر ایسی گاڑیاں آتی ہیں جن کا ایکسیڈنٹ ہو چکا ہوتا ہے، لیکن وہاں لوگ گاڑیاں ٹھیک کروانے نہیں آتے بلکہ لگی ہوئی گاڑیاں کھڑی کر کے چلے جاتے ہیں۔ ورکشاپ والا اکثر ایک ٹوٹی چارپائی پر تیل سے بھرا میلا تکیہ سر تلے رکھے لیٹا رہتا ہے کیونکہ اسے گاڑیاں ٹھیک کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ قصاب اور پان والے کی دکان ساتھ ساتھ ہے۔ گوشت کی بدبو اور پان کی خوشبو جب آپس میں ملتی ہے اور گلی میں دور تک پھیل جاتی ہے تو لوگ اس ہوا میں سانس لینے کے لیے گھروں سے باہر نکل آتے ہیں۔
عطرفروش کے پاس صرف تیز خوشبو والے عطر ہیں لیکن انہیں خریدنے کوئی نہیں آتا، لوگ اس کے پاس عطر خریدنے کے بہانے آتے ہیں اور عطر کپڑوں پر لگا کر وہاں سے نکل جاتے ہیں۔ عطرفروش دوپہر کے وقت شدید گرمی میں دکان کھولتا ہے اور صبح کی اذان کے وقت دکان بند کر کے کسی تنگ و تاریک گلی میں غائب ہو جاتا ہے۔ آس پاس جتنے بھی گھر ہیں وہاں بسنے والے لوگ اپنا کوڑا گلی میں پھینکتے ہیں۔ کبھی کبھار وہاں ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی کے لوگ آتے ہیں لیکن وہ کھوکھے سے پان کھا کر وہیں گلی میں تھوکتے ہوئے واپس چلے جاتے ہیں۔ وہاں ساری دکانوں کا کاروبار صرف چائے کے ڈھابے کی وجہ سے چلتا ہے لیکن ڈھابے والے کا اپنا کام کسی روٹین پر نہیں چلتا۔ اس کا ڈھابہ اکثر ویران رہتا ہے لیکن جب شدید بارش ہوتی ہے اور گلی میں پانی کھڑا ہو جاتا ہے تب لوگ پانچے اوپر کو اٹھائے اس کے ڈھابے پر امڈے چلے آتے ہیں۔ یا پھر جب شدید گرمی پڑتی ہے اور بازاروں کی رونق ختم ہو جاتی ہے تب اس ڈھابے پر رش لگ جاتا ہے۔ ڈھابے والا بہت کسیلی چائے بناتا ہے۔ وہ چائے میں تیز پتی اور زیادہ شکر ڈالتا ہے۔ وہ چائے میں ایک قطرہ بھی پانی نہیں ملاتا ہے۔ تیز پتی اور زیادہ شکر والی گاڑھی چائے پینے سے لوگوں کے ہونٹ آپس میں چپکنے لگتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھار چائے بہت پتلی ہوتی ہے، اس کی وجہ ڈھابے والا یہ بتاتا ہے کہ آج کل بھینسیں پانی زیادہ پینے لگی ہیں۔ وہاں کئی ایسے لوگ بھی آتے ہیں جو شہر میں موبائل سنیچنگ کی وارداتوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ لیکن وہ موبائل چھین کر اپنا کوئی فائدہ نہیں کرتے، وہ بس شہریوں کو اذیت دیتے ہیں۔ وہ موبائل چھین کر سڑک پر پھینک دیتے ہیں جہاں کوئی وزنی گاڑی موبائل کی سکرین پیس کر آگے نکل جاتی ہے۔ کبھی کبھار وہ لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں جیسا کہ کسی بوڑھے شخص کو سڑک پار کروانا وغیرہ، لیکن وہ کسی بھی بوڑھے یا معذور کو مکمل سڑک پار نہیں کرواتے، بلکہ سڑک کے درمیان چھوڑ کر وہاں سے بھاگ جاتے ہیں اور دور کھڑے ہو کر تماشا دیکھتے ہیں۔
یہ وارداتیے دلوں میں گناہ کا احساس لیے چائے کے ڈھابے پر آتے ہیں اور ساری ساری رات کڑوی چائے پی پی کر اپنا گناہ بھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈھابے والے کے چہرے کے تاثرات اس کی چائے کی طرح نہایت کسیلے ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں کو شیشے کے گلاسوں میں چائے پیش کرتا ہے۔ اس کے پاس آنے والے لوگ شروع میں بہت خاموش رہتے ہیں اور ڈھابے پر رش کے باوجود صرف چائے کے گلاس ٹکرانے کی آواز آتی ہے اور چائے کی چسکیاں گونجتی ہیں یا پھر ہونٹوں کی چپچپاہٹ سنائی دیتی ہے، پھر اچانک لوگ آپس میں باتیں کرنے لگتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے انکی آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں، وہ اتنا زیادہ بولتے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے کی باتیں سمجھ نہیں آتیں، ہر کوئی بس اپنی بات کرنا چاہتا ہے، لیکن جب ان میں سے کسی شخص کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ اس کی باتوں پر کوئی غور نہیں کر رہا تو وہ غصے میں آ کر سب لوگوں کے آگے رکھے چائے کے گلاس توڑ دیتا ہے۔ ڈھابے پر سب لوگ آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور ڈھابے کا مالک اپنے گلاس ٹوٹتے دیکھ کر خوب محظوظ ہوتا ہے۔
ورکشاپ کا مالک شور سن کر جاگ جاتا ہے اور خوش ہو کر ورکشاپ کی ساری شور کرنے والی مشینوں کے بٹن آن کر دیتا ہے۔ آس پاس کے گھروں میں لوگ شور سن کر اطمینان کا سانس لیتے ہیں اور نیند کی وادی میں اتر جاتے ہیں لیکن وہ ابھی کچی نیند میں ہوتے ہیں کہ زیرِ تعمیر مسجد کا مولوی جاگ جاتا ہے اور پھر اذان کی آواز سے آس پاس کا شور دب جاتا ہے۔ لوگ جلدی جلدی ڈھابے سے نکل کر عطر فروش کی دکان پر جمع ہو جاتے ہیں اور عطر خریدنے کے بہانے ڈھیر سارا عطر کپڑوں پر مل کر مسجد کی طرف نکل جاتے ہیں اور عطرفروش اپنی دکان بند کر کے ایک تنگ اور تاریک گلی میں روپوش ہو جاتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...