تو پھر کیا ہم تھک ہار کر بیٹھ جائیں؟ تو پھر کیا چراگاہ کو بھیڑیوں کے حوالے کر کے پہاڑوں کی طرف نکل جائیں؟
ہم ایک دو نہیں! ایک دو ہزار نہیں! ایک دو لاکھ نہیں! ایک دو کروڑ نہیں! ہم بیس کروڑ ہیں! جن چند سو افراد نے اس ملک پر قبضہ کر رکھا ہے وہ تو چاہتے ہی یہی ہیں! کیا یوسف رضا گیلانی نے نہیں کہا تھا کہ جو جانا چاہتا ہے چلا جائے روکتا کون ہے؟ نفرت کا یہ اظہار اس نے صرف اپنی طرف سے نہیں، اپنے پورے طبقے کی طرف سے کیا تھا۔ یہ تو چاہتے ہی یہی ہیں۔ ان کا بس چلتا تو یہ افریقہ یا عرب کا صحرا خریدتے اور بیس کروڑ لوگوں کو وہاں دھکیل دیتے تاکہ ان کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے والا کوئی نہ رہے!۔
گزشتہ کالم کے ردعمل میں، جس میں عرض کیا تھا کہ کوئی ضرور آئے گا اور سب کچھ بدل دے گا، پڑھنے والوں نے یاس کے مرجھائے ہوئے پھول بھیجے ہیں۔ بے یقینی کے پژ مردہ سندیسے! بیرون ملک سے لوگ پوچھتے ہیں کیا وہ اپنے بچوں کو اس وطن میں واپس بھیج دیں جہاں چند سو افراد کی حکمرانی ہے؟ جہاں سیاسی جماعتوں پر چند خاندانوں کی آمریت چمگادڑوں کی طرح لٹک رہی ہے! کچھ نے کرب کا اور دل برداشتگی کا اظہار یہ کہہ کر کیا ہے کہ کالم نویس اپنے آپ کو بھی فریب دے رہا ہے اور پڑھنے والوں کو بھی! کون آئے گا؛ اب تک کوئی نہیں آیا تو آئندہ ستر سالوں میں بھی یہی کچھ ہو گا!
نہیں ! ہم مایوس نہیں ہوں گے! ابھی افق سلامت ہے جس پر شفق پھولے گی! ابھی اس ملک میں اکل حلال کھانے والے، کم سہی، موجود ہیں! ابھی اس ملک میں، گنتی کے سہی، ایسے مسلمان پائے جاتے ہیں جو اسلام کو مسجد اور خانقاہ کے باہر بھی اپنے اوپر نافذ کرتے ہیں! ہم مایوس نہیں ہوں گے، اگرچہ حالات شرمناک حد تک حوصلہ شکن ہیں۔ ملک میں وہ کام ہو رہے ہیں اور دن دیہاڑے ڈنکے کی چوٹ ہو رہے ہیں جو دنیا کے کسی بھی اور ملک میں ناقابلِ تصور ہیں! پیپلز پارٹی کے مالکوں نے سندھ کے وزیراعلیٰ کو ایک بار پھر دبئی طلب کیا ہے وہ کتنے پھیرے لگا چکے ہیں؟ کیا اس حاضری اور دوسری حاضریوں اور دوسرے ’’رہنمائوں‘‘ کے لاتعداد پھیروں کے سفری اخراجات یہ معززین اپنی جیبوں سے ادا کر رہے ہیں؟ کیا وہ وضاحت کریں گے؟ گمان غالب یہ ہے کہ سندھ کے اصل دارالحکومت دبئی تک کے آنے جانے کے اخراجات قومی خزانہ بھر رہا ہے جو ظلم کی انتہا ہے۔ وژن کی ’’وسعت‘‘ کا یہ عالم ہے کہ اپوزیشن لیڈر یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ وزیراعظم پورے ملک کے وزیراعظم ہیں۔ سندھ کیوں نہیں آتے؟ یہاں یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ وزیراعظم اپنے قافلے کے ساتھ پروٹوکول کی وسیع و عریض نزاکتوں سمیت اب تک کتنی بار لاہور تشریف لے جا چکے ہیں اور اس آمدورفت پر اب تک قومی خزانہ کس قدر خرچ ہو چکا ہے؟ وسائل کے ساتھ اس سنگدلانہ سلوک میں دونوں جماعتیں، یوں لگتا ہے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہیں۔ یوں بھی جوہری اعتبار سے پاکستان پر ایک ہی گروہ حکومت کرتا چلا آ رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا اختلاف اور نام نہاد جمہوری اور غیر جمہوری ادوار کا فرق اصل میں کوئی فرق نہیں! ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کا انتخاب کیا جو مبنی برانصاف بھی نہ تھا۔ جنرل صاحب کی ژرف بیں نگاہوں نے میاں صاحب کو تلاش کیا اور منصب پر بٹھایا۔ میاں صاحب نے جنرل پرویز مشرف کو اٹھایا اور نیچے سے اوپر لے آئے۔ جنرل پرویز مشرف نے این آر او کا ڈول ڈالا اور پیپلز پارٹی کو اقتدار میں واپس لائے۔ یوں دائرہ مکمل ہو گیا۔
کیا تسلسل ہے! غالب کا تصرف شدہ شعر صادق آتا ہے ؎ اصل میں سارے ایک ہیں۔ موت سے پہلے آدمی ’’ان‘‘ سے نجات پائے کیوں؟ ان دوچار بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ دائرے میں باقی بھی حسب توفیق شریک ہیں۔ کیا جے یو آئی! کیا ایم کیو ایم، کیا قاف لیگ، کیا ان سرکاری ملازموں کی باقیات جو اوجڑی کیمپ کے بعد اور ’’جہاد‘‘ کے بعد ارب پتی صنعتکار بن کر ابھریں اور کیا آمروں کے خاندان! ٹیلی ویژن پر سنی ہوئی پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کی وہ تقریر نہیں بھولتی جو انہوں نے ہزارہ کے ایک حلقے میں کی۔ مضحکہ خیز اور بے معنی تقریر تھی۔!
ہم مایوس نہیں‘ ہوں گے اس لیے بھی کہ اس ملک کو دلدل سے نکال کر پکے راستے پر لانے کے لیے بھاری مشینری کی ضرورت نہیں فقط ایک ایسے دھکے کی ضرورت ہے جس کے پیچھے دیانتدار ہاتھ ہوں۔ ہم چاند نہیں مانگ رہے، نہ ہی باغ ارم ہمارا ہدف ہے۔ اگر مچھیروں کے گندے جزیرے کو لی جیسا معمار مل سکتا ہے جس نے اسے سنگاپور بنا دیا اور ملائیشیا کو مہاتیر مل سکتا ہے تو بے لوث لیڈر شپ کا ہمارے ہاں ظہور پذیر ہونا ناممکنات میں سے نہیں! آخر بھارت میں بھی تو ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ واپس آ رہے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق گزشتہ پانچ برس کے دوران تین لاکھ بھارتی واپس وطن آ گئے ہیں۔ ایسی پیشہ ورکمپنیا ںبن گئی ہیں جن کا کام ہی بیرون ملک رہنے والوں کے لیے ان کی خواہش اور معیار کے مطابق بھارت کے اندر ملازمتیں تلاش کرنا ہے۔ اگر ایسا بھارت میں
ہو سکتا ہے تو پاکستان میں بھی ہو سکتا ہے۔ ہمیں ایسی لیڈر شپ کی ضرورت ہے جو کم از کم چار کام کرے اور بغیر ڈنڈی مارے، بغیر کسی استثنا کے، بغیر کسی سے رعایت برتنے کے، پورے ملک میں یکساں طور پر کرے۔ اول: ٹیکس نہ دینے والوں سے ٹیکس وصول کیا جائے خواہ کوئی کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ زراعت کو صنعت کا درجہ دے کر وہ حقوق دیے جائیں جو صنعتوں کو حاصل ہیں اور اس کے بعد زرعی آمدنی پر بھی ٹیکس لگایا جائے۔ دوم: بیورو کریسی کو بشمول پولیس سیاسی آلودگی سے مکمل طور پر پاک کیا جائے اور
Tenure
(ایک جگہ پر تعیناتی کی مدت) پر اس طرح عمل کیا جائے جیسے مسلح افواج میں ہوتا ہے۔ جس طرح ہر چند ماہ کے بعد بیورو کریسی میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کی مچلتی خواہشوں کو تسکین پہنچانے کے لیے تبادلے کیے جاتے ہیں اور جس طرح بیرون ملک تعیناتیاں چشم و ابرو کے اشاروں پر ہوتی رہی ہیں اور مسلسل ہو رہی ہیں، اس طرح تو جانوروں کے باڑے بھی نہیں چل سکتے۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی حیثیت ڈاکخانے کے پوسٹ ماسٹر سے زیادہ نہیں۔ صوبوں میں اندھیر نگری چوپٹ راج سے بھی بدتر حالات ہیں! ہمیں ایسی لیڈر شپ درکار ہے جو اہل حکومت اور اہل سیاست کی مقدس تھوتھنیاں بیورو کریسی کی دیگچی سے باہر نکالے۔ سوم: پروٹوکول، محلات، گاڑیوں، ذاتی عملے کی افراط۔ ان سب کو ختم کرے اور حکمرانوں کے خاندانوں کی سرکاری خرچ پر پرورش و کفالت کا سلسلہ بند کیا جائے۔ عوام کو سڑکوں پر روکنا کہ شاہی سواری گزر رہی ہے، غلامی کی بدترین قسم ہے اور شرق اوسط میں رائج کفیل سسٹم کی طرح ہے۔ گائوں کے غریب میراسی کی ماں حج کر کے آئی تو چودھری کی ماں بھی حج کر کے واپس پہنچ گئی۔ سب لوگ
مبارک باد دینے چودھری کی ماں کے پاس جا رہے تھے۔ میراسی کی ماں کو کسی نے گھاس نہ ڈالی۔ ایک دن آمنا سامنا ہوا تو میراسی نے چودھری صاحب سے پوچھا کہ آپ کی والدہ محترمہ کیا طواف میں اول آئی تھیں؟ تو کیا لوگوں کی نقل و حرکت روک دینے والے حکمران شاہراہوں کے لیے خصوصی ٹیکس دیتے ہیں؟ چار دن پہلے شاہی قافلے کی اجارہ داری میں خلل ڈالنے کے جرم میں ایک ریٹائرڈ ایئر کموڈور صاحب کو پکڑ لیا گیا۔ ظاہر ہے آپ خلق خدا کو شاہراہوں پر چلنے سے روک دیں گے تو اسی قسم کی ’’گستاخیاں‘‘ سرزد ہوں گی۔ چہارم: جہاں جہاں مدارس کی اجارہ داری ہے، وہاں عوام کو جدید تعلیم، کم خرچ پر مہیا کی جائے اور نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اقدامات تو بہت سے اور بھی ضروری ہیں مگر یہ چند اقدامات ایسے ہیں جو ہماری سمت بدل سکتے ہیں!
تاہم لازم ہے کہ عوام کا سیاسی شعور بھی بیدار ہو۔ وہ چپ رہ کر ’’گزارہ کرنے‘‘ والے رویے کو خیرباد کہیں اور اپنے حقوق کو غصب ہوتا دیکھیں تو تشدد کو اپنائے بغیر پوری قوت سے آواز بلند کریں۔ فرانس کی حالیہ مثال سے سبق سیکھنا چاہیے۔ شرق اوسط کے ایک حکمران تعطیلات گزارنے فرانس آئے تو ساحل اور رہائش گاہ کے ارد گرد کے راستے عوام کے لیے بند کر دیے گئے۔ اس پر احتجاج ہوا۔ اس قدر کہ ایک لاکھ فرانسیسی شہریوں نے احتجاجی درخواست پر دستخط کیے۔ بظاہر تو یہ کہا جا رہا ہے کہ حکمران اپنے ایک ہزار مصاحبین کو لے کر خود ہی واپس چلے گئے مگر کیا عجب کہ فرانس کی حکومت نے سفارتی زبان میں عوام کے جذبات پہنچا کر معذرت کی ہو۔ ہمارے شعور کی ’’پختگی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ ہمارے قیمتی اور نادر پرندے سالہاسال سے غیر ملکیوں کے ذوقِ شکار کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں مگر ہم عوام احتجاج کرنے کی ہمت ہی نہیں کرتے ؎
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو، زمانہ چال قیامت کی چل گیا
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“