؎ وہ اردو کا مسافر ہے یہی پہچان ہے اس کی
جہاں سے بھی گزرتا ہے سلیقہ چھوڑ جاتا ہے
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا تھا:
"میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کے پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو، اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں ہو گی۔ دیگر اقوام کی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے، پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ صرف اور صرف اردو ہی ہو گی۔"
(21 مارچ 1948ء ڈھاکہ)
اردو کے ساتھ چھپن چھپائی کا کھیل کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ آپ زیادہ دور نہ بھی جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ 1832ء میں دکن میں اردو کو سرکاری اور دفاتر کی زبان قرار دیا گیا تھا اور 1900ء میں ہندوستان میں ہندی زبان کو رائج کردیا گیا۔ دشمن ہمیشہ اس بات سے خائف رہا کہ اردو زبان، فارسی اور عربی خط سے ملتی جلتی ہے اور اسی طرح لکھی جاتی ہے۔ دو قومی نظریے میں جو سب سے اہم بات یعنی جو اس نظریے کی اساس بنتی ہے وہ اردو زبان ہی تو ہے۔ 1973ء کے آئین کی شق نمبر 251 کے تحت بھی اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ آنے والے 15 سالوں میں یعنی 1988ء تک اردو ہماری قومی، تعلیمی، سرکاری اور دفاتر کی زبان بن جائے گی۔ لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ 15 سال کی مدت کو (As soon as possible) میں تبدیل کر دیا گیا۔ اب اس (As soon as possible) میں مدت کا تعین نظر نہیں آتا ہے۔ پھر 2015ء میں محسن اردو جسٹس جواد ایس خواجہ نے اردو کے نفاذ کا حکم نامہ جاری کیا۔ آپ محض 23 دن عدالت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھے اور آخری ایام میں ایک تاریخ ساز فیصلہ کر گئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کے بقول انہوں نے قانون کی تعلیم انگریزی میں حاصل کی اور وہ ایچی سن سے پڑھے ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ آئین پاکستان کچھ ایسی انگریزی زبان میں لکھا ہوا ہے کہ میں انگریزی میڈیم میں پڑھنے کے باوجود بھی اسے پڑھ اور سمجھ نہیں سکتا، تو ایک عام شہری کیسے آئین پاکستان کو پڑھ سکے گا۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ان کے فیصلے کا احترام تا حال نہیں ہو سکا۔
ایک دفعہ پھر وزیر اعظم پاکستان نے حکم نامہ جاری کیا ہے کہ آئندہ تمام حکومتی عہدے داران ہر جگہ اور ہر پلیٹ فارم پر اردو میں تقریر کریں گے۔ یہ بھی ایک الگ بحث ہے کہ یہ حکم نامہ انگریزی زبان میں جاری کیا گیا۔ ہاں البتہ جواد ایس خواجہ نے فیصلہ بھی اردو میں پڑھ کر سنایا تھا۔
پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ پاکستانیوں کی بمشکل 8 فی صد آبادی ہی مادری زبان اردو رکھتی ہے لیکن تعلیمی سطح پر، ذرائع ابلاغ میں اور تجارتی لین دین میں اردو کا ہی استعمال کیا جاتا ہے، اس طرح اردو بولنے والوں اور سمجھنے والوں کی اکثریت ہے۔
اردو زبان کے نفاذ میں کچھ رکاوٹیں یہ بھی ہیں کہ ہم بذات خود انگریزی بولنے میں فضیلت سمجھتے ہیں۔ یہ نوآبادیاتی نظام کی باقیات ہیں جو آج بھی ذہنی غلام پیدا کر رہی ہیں۔ انگریز ہمارے ملک سے جا چکا۔ ان کا نو آبادیاتی تسلط آج بھی ہماری اشرافیہ کے ذہنوں کو مفلوج کیے ہوئے ہے کہ انگریزی بولنے والوں کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوتا ہے اور اردو بولنے سے شاید بولنے والا اور سننے والا نیچ اور شودر ہو جاتا ہے۔
جب تک ہم نو آبادیاتی نظام اور اس کی باقیات سے نہیں نکلیں گے ہماری زبان کبھی بھی محفوظ نہ رہ سکے گی اور کبھی بھی ترقی نہیں کر پائے گی۔ بتاتا چلوں کے چینی اور انگریزی کے بعد اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ اس کے باوجود ہم اردو بولنے اور سننے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ دنیا میں ہمیشہ وہی قومیں ترقی کر پائی ہیں جنہوں نے اپنی زبان کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اظہار خیال کا وسیلہ بنایا اور تعلیمی نصاب بھی اپنی زبان میں تیار کیا۔
انگریز انگریزی بولتا ہے، چائنہ والے چینی بولتے ہیں، عرب والے عربی بولتے ہیں تو ہم بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اردو کیوں نہیں بول سکتے اور ہمارا نصاب اردو میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ ہمیں دوسرے ممالک سے سیکھنا چاہیے کہ کس طرح انہوں نے اپنی ثقافت اور زبان کی حفاظت کی ہے۔ تمام ملکوں کا ادب ان کی لائبریریوں میں ان کی متعلقہ زبان میں محفوظ ہے۔ ان کا نصاب تعلیم ان کی اپنی زبان میں ہے اور بین الاقوامی ڈائس اور بنچوں پر بھی اپنی ہی زبان کو استعمال کرتے ہیں۔
اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس دفعہ جو ایک بنیاد رکھی گئی ہے اس کو وسیع پیمانے پر رائج کیا جائے۔ آنے والے وقتوں میں اس کے ثمرات آپ خود دیکھ لیجئے گا۔ خراب گاڑی کو بار بار دھکا لگانے سے بہتر ہے کہ گاڑی کی خرابی ڈھونڈی جائے۔ اگر تو نوآبادیاتی نظام سے کچلی ہوئی اشرافیہ اس راستے میں حائل ہے تو اسے دور کیا جائے۔ویسے ہم کتنی عجیب قوم ہیں، ہماری قومی زبان اردو، ہمارا قومی ترانہ فارسی میں ہے، انگریزی ہم فخر سے بولتے ہیں، بچوں کے ساتھ ہم پنجابی بولتے ہیں، گالی بھی پنجابی میں دیتے ہیں، اردو چاروں صوبوں کے مابین رابطے کی زبان ہے اسے جلد از جلد سرکاری سطح پر دفاتر میں رائج کیا جائے۔
؎ ابھی تہذیب کا نوحہ نہ لکھنا
ابھی کچھ لوگ اردو بولتے ہیں