معاشرے ہر دور میں اپنی روش کی سمتیں طے کرتے رہے ہیں اور انکی پابندی اپنا شعار بناتے تھے وقت نے ترقی کا سہارا لیا اور اقدار کر روندنا شروع کیا اب یہ اقدار کا ہی تقازہ تھا کہ ماتھوں پر شکن نا آئے اور لب جنبش سے محروم رہیں، وہ ہوتا چلا گیا جس کا ڈر تھا۔ سمتوں کی روش نے ایک ایسی سمت چن ل لی جہاں سوائے خسارے کہ اور کچھ بھی نہیں تھا نا ہی طبعی فائدہ تھا اور نا ہی روح کو کوئی تقویت پہنچنی تھی۔ یعنی ہم پر مغرب غالب آگیا اور بقول شاعر کے اپنی تو زندگی شروع ہوتی ہے شام (مغرب کے بعد) سے۔ اس طرز ِ حیات کی بھینٹ ہم نے اپنا مستقبل خود چڑھایا، کیا ہمیں اعلی تعلیم یافتہ نسل نہیں چ چاہئے تھی یا ہم اپنی اولاد کو فلانے کی اولاد سے پیچھے کیسے رکھ سکتے تھے۔ آج بڑے بڑے بین الاقوامی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل یا تو انہی ممالک کو اپنا ملک بنا بیٹھے ہیں اور چند ایک جو وطن واپس پلٹ آئے ہیں وہ پاک سر زمین پر قدم رکھنے کیلئے پہلے قالین کا تکازہ کرتے ہیں، ہاں ایسے بھی چند ایک ایک سر پھرے ہیں کہ جنکے خون سے آج تک اپنے پیارے محبوب ﷺ کی محبت اور انکے نظام کی ترویج کی جستجو نہیں نکل رہی ہے۔نقصان اور گھاٹے کے سودے تو ہم نے خود ہی کئے ہیں۔ سرکاری اداروں کو ہم نے صرف مال ودولت بنانے کے کارخانے بنا لئے اور کام صرف نجی اداروں میں ہوتے ہیں جبکہ یہ نجی ادارے سرکاری اداروں سے وابسطہ لوگوں کے ہوتے ہیں۔ سرکاری اسکول کے استاد کا اپنا بچہ کسی نجی اسکول میں پڑھ رہاہے تو بھلا ایسا استاد اسکول میں کیا کر رہاہوگا۔ یہ سب باتیں ہم سب جانتے ہیں اور دن میں ایک دفعہ تو اس قسم کی گفتگو ہو ہی جاتی ہے لیکن ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہم انفراادی طور پر تضاد کا شکار ہیں، کوئی اپنا کہے تو ہاں میں ہاں ملاتے چلے جاتے ہیں اور وہی بات کومخالف یا غیر کہے تو بغیر سنے ہی مسترد کردیتے ہیں۔
علم کے حصول کا بنیادی مقصد مستقبل کیلئے بہترین معاشی انتظام کرنے کیلئے رہا ہے، ممکن ہے کہ یہ حقیقت قارئین کو ناگوار گزرے لیکن حقیقت تو حقیقت ہے اور یقین نہیں آتا تو آپ اپنے آپ سے پوچھ لیں۔ جس کامنہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی سید احمد خان، محمد علی جناح، ڈاکٹر محمد ا اقبال، خان لیاقت علی خان، ڈاکٹر سلیم الزماں، ڈاکٹر عبد السلام، ڈاکٹر رضی الدین، فیض احمد فیض، حبیب جالب، مولانا مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد نہیں ب بن سکا ہے۔
ہم تکنیکی دور میں رہ رہے ہیں جہاں سماجی ابلاغ معلومات کا اہم ترین ذریعہ بنا ہوا ہے، سماجی ابلاغ کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ بغیر کسی روک ٹوک کہ خبریں ارباب اختیار تک پہنچنے کیساتھ ساتھ ساری دنیا میں انتہائی مختصر وقت میں پہنچ رہی ہیں۔جس سے ہوتا یہ ہے کہ عوامی رائے خبر کی سمت کا تعین کرتی ہے اور ارباب اختیار کو اس خبر پر عمل درآمد کرنے پر مجبور کرتی ہے۔جب کسی خبر کوجو کہ عملی صورت میں رونما ہوا ہوتا ہے کو منطقی انجام تک پہنچاننے کی بات کی جاتی ہے تو قانون، شواہد کی عدم دستیابی کی کالی عینک لگا کر معاملے کو وہیں فیصلہ چھوڑ دیتا ہے،گویا ابھی نہیں تو کبھی نہیں والے کلیے کی نظر کر دیا جاتا ہے۔ معلوم بھی ہے دیکھائی بھی دے رہاہے کہ وہی ہے کہ جس نے ایک انسانی جان جو کہ تمام انسانیت کے قتل کے مترادف ہے لی ہے شک کا سہارا لے کر (اور معلوم نہیں کیا کچھ لے کر) باعزت بری کردیا جاتاہے۔ رونے والے جو سال ہا سال سے رو رہے تھے اپنی قسمت میں رونا لکھا سمجھ کر نکل جاتے ہیں۔
یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا ابلاغ کی ذمہ داری کسی بھی معاملے کو اجاگر کرنے تک محدود ہے یا پھر معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا بھی ابلاغ کی ذمہ داری ہے۔ دورِ حاضر کا تکازہ ہے کہ ذرائع ابلاغ اس بات کو یقینی بنائیں کہ معاملہ کہاں تک پہنچا۔ اب یہ بھی سماجی ابلاغ کی مرہون منت ممکن ہوسکا ہے ہے کہ بچوں کیساتھ ہونے والی زیاتیوں کو منظر عام پر لایا جانے لگا۔ لیکن افسوس سوائے قصور کی زینب کے مجرم کو کیفر کردار کو پہنچانے کے سوا کسی اور بچبچے یا بچی کیساتھ ہونے والی زیادتی کے مجرم سزا وار ٹہرے ہیں۔ عرصہ دراز سے تواتر سے بچوں کے اغواء اور زیادتی کے بعد قتل کرنے کے واقعات رونما ہوتے ہی جارہے ہیں۔ پہلے ایک واقع ہوا جس میں پولیس نے ایک کار پر فائرنگ کی جس میں ایک ہی خاندان کے افراد موجود تھے جن میں شوہر، بیوی اور انکے بچے تھے، ماں باپ کو بچوں کے سامنے گولیا ں مار کر قتل کردیا گیا اب اسی طرح سے گزشتہ شب گوجرپورہ روڈ لاہور پر ایک انتہائی اندوہناک واقع نے دل پرپھر خراشیں ڈال دیں جب ایک خاتون کیساتھ انکے بچوں کے سامنے بد سلوکی کی گئی۔ ہم سب کی یاد دہانی کیلئے لکھ رہا ہوں کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں۔موجودہ حکومت نے اسلامی جمہوریہ سے بہت آگے کا خواب دیکھایا ہوا ہے یعنی ریاست مدینہ بنانے کا ارادہ بھی ہے۔
کس کی کیا کوتاہی تھی یا ہے اس پر لازمی تحقیقات ہونی چائییں لیکن سب سے پہلے مجرموں کی گرفتاری اور تیزی سے سنوائی کیساتھ ہی سر عام لکشمی چوک لاہور میں پھانسی کی سزا نہیں دے سکتے تو شرعیت کیمطابق طے کی گئی سو کوڑوں کی سزا دی جائے۔سماجی ابلاغ پر ایک شور مچا ہو اہے کہ مجرم کو سر عام پھانسی دی جائے اور یہ ہو کر ہی رہنا چاہئے کیونکہ اگر پھر یہ معاملہ موم بتی مافیہ کی نظر ہ ہوگیا تو موم بتی مافیہ کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ان کیساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اب یہ سر عام کا فیصلہ نہیں ہوا تو کبھی نہیں ہوگا اور ہماری ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت کیساتھ ایسا ہوتا رہے گا، خخاکم بدہن۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...