ہندوستان کے نام !
( محترم حسین الحق کے حکم کی تعمیل میں )
کہانی ختم ہونے جارہی ہے
لوگ کہتے ہیں
کوئی ایوان میں مضراب پر وہ نغمہء افسوں سناتا ہے
جسےسن کرہوائےنیل وسبزوارغوانی کانپ جاتی ہے
ستاروں کی چمک معدوم ہوتی ہے
رخ مہتاب پرگنج شہیداں اشک بھرتا ہے
کوئی دربارمیں شطرنج کےمہرے بچھا کر
آتشیں فنجان میں زہراب دیتاہے
کوئی میدان میں تاشابجاتا ہے
سگان کوچہ وبازار لےپررقص کرتے ہیں
زمیں کی تیرگی سےآسماں میں دھند چھائی ہے
درختوں، پیڑپودوں، باغبانوں پر
نگاہ آمرانہ سےصدائےسنگ آتی ہے
خیال ِآرزو رو رو کی اپنی جان دیتا ہے
لباس ِفاخرہ پرسیمیائی تیرچلتا ہے
جمال شہرکےاعزاز یکتائی کا تمغہ ٹوٹ جاتاہے
کہانی آخری منزل میں آپہونچی ہے
اس میں جھوٹ کتنااورسچ کیاہے
کہ ہر قصےمیں صدق وکذب سےہی داستاں میں رنگ آتاہے
یہاں پر نظم کا انجام ہوتا ہے
مگراب دوسری اک نظم کاآغازہوتاہے
کہانی ختم ہونےسے بہت پہلے
خبر دیتی ہےاپنے ناظرین وسامعیں کو
اور کہتی ہے
ابھی وقفہ ہوا ہے
درمیانی مرحلہ اک ہے
ہزاروں موڑ اور ابواب ہوتے ہیں
کئی قصے ، کئی کردار ہوتے ہیں
جو درد ِعشق کی رودادکی تفسیرکرتے ہیں
فسانے حسن کے ، جور و ستم کے
آہ وزاری ، اشکباری کےسناتے ہیں
سر بازار لیلی ماتمی پوشاک پہنے
ابر آنکھوں میں سجائے،بال کھولے
سرپٹکتی ، پوچھتی ہے
کیا کہیں جاویدکودیکھاکسی نے دشت ہجراں میں
منادی یہ
کہ جیسےسن پچھترمیں ہواہنگامہ ء محشر
کوئی مجنوں تلاش ِحسن میں گرشاہراہ ِعشق میں نکلے
حصار خیمہءآتش میں اس کوزیست کرنا ہے
یہی زندہ اسیری ہے
مگر یہ سچ
اگر ہو حکم ہم کوآگ کی دنیامیں رہنا ہے
کہیں گے ہم
یہ لب خاموش ہیں
دل میں ہزاروں نقش ہائےخواب رکھتے ہیں
لہو میں گردش وگریہ کی بھی تعبیررکھتے ہیں
پس دیوار کردینا، ہمیں آثار کردینا
گھروں پرلشکرِطوفان سےیلغارجب ہوگی
در و دیوار روئیں گے
گھروں سے زخم دل کی تختیاں لکھی ہوئی
سینے سے لٹکائےہوئے عشاق نکلیں گے
گلے سے طوق گمنامی بھی توڑیں گے
کہیں گے
آب و دانہ ہی نہیں کافی
جبیں پرہرطرح کےپھول رکھنےکی اجازت ہو
فراز ِجسم جب سینہ سپرہوگا
رو پہلی دھوپ سورج کی
دھواں بن کر گلی کوچےمیں گھومے گی
مگر کب تک
آسے اک دن
سوال منظرِوحشت زدہ کاسامنا ہوگا
فرنگی کی نیابت کوثبات ِزندگی سمجھا
فریب زندگی کو کیوں عروجِ بندگی سمجھا
کہانی زندگی ہے
زندگی خود اک کہانی ہے
ابھی آغاز ہے ، انجام ہے
یا درمیاں ہے یہ
کہ ہر پل قصہ ء درویش جاری ہے