عبد الرحمان بجنوری 1885 میں بجنور کے ایک چھوٹے قصبے سیورا میں پیدا ھوئے۔ 7 نومبر 1918 میں 33 سال کی عمر میں انفلوئزا میں مبتلا ھو کر انتقال کرگئے۔ وہ اردو کے نکتہ رس نقاد، محقق،، مضمون نگار، مفکر، قانوں دان، ماہر تعلیم اور ایجاز پسند تھے۔ ابتدائی تعلیم اور میٹرک کا امتحان کوئٹہ، بلوچستان سے پاس کیا۔ 1903 میں انھوں نے محمڈن اورینٹل کالج ، علی گڑھ میں شریک ھوئے۔ 1906 میں بی۔ اے اور 1909 میں ایل۔ایل بی کی اسناد حاصل کیں۔ انگلستان کی لنکن ان سے باریٹ لا اور فری برگ یونیورسٹی، جرمنی سے
بجنوری نے جرمنی میں’اسلامی قانون کے ماخذات اور تعزیرات ‘ پرتحقیقی مقالہ پیش کیا تھا اُنھیں 1913 میں اس پر ڈی.جے کی ڈگری تفویض کی گئی تھی۔ جرمنی زبان میں لکھے گئے اس مقالے کو جولائی 1914 میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیاتھا۔
بجنوری نے اعلیٰ تعلیم کے دوران انگلستان اور جرمنی اورفرانس کے مختلف مقامات کی سیاحت کے مواقع بھی نکالے انھوں نے جنوبی یوروپ اور جنوب مشرقی ممالک کی سیاحت میں خاص دلچسپی لی اور وہاں کے رہنماؤں اوردانشوروں سے ملاقاتیں کیں انھوں نے ترکی کی سیاحت میں خاصا وقت گزارا اورمسلم دانشوروں سے مل کروہاں کے سیاسی وسماجی وتہذیبی معاملات ومسائل سے واقفیت حاصل کی۔ ’باقیات بجنوری‘ میں شامل ان کے خطوط اورمضامین ’خواب‘ اور ’بلغاریہ میں اسلام‘ وغیرہ سے اس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
1914 میں ہندوستان واپسی کے بعد کچھ دن مراد آباد میں وکالت کی اور وہ مجوزہ مسلم یونورسٹی کے دستور بنانے بھی مصروف رھے۔ 1916 مین بھوپال میں مشیر تعلیم رھے۔ 1917 میں سلطانیہ کالج کے نام سے ایک تعلیمی منصوبہ پیش کیا۔ 1921 میں بابا اردو مولوی عبد الحق نے انھیں کلام غالب پر مسبوط مقالہ لکھنے کی زمہ داری ڈالی تھی جو بعد میں " محاسن کلام غالب" کے نام سے مشہور ھوا۔ بجنوری کا یہ مقولہ کہ ، ۔۔۔" ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں۔ مقدس وید اور دیوان غالب " ۔۔۔۔ اس کتاب نے غالب کی شعری جمالیات کی وساطت سے اردو کی تاثراتی تنقید اور تبصروں کو نیا رنگ دیا۔۔۔۔۔۔ " بجنوری نے کلام غالب کے الہام کو جذباتی انداز میں پرکھتے ھوئے تاثراتی تبصرہ نگاری کو قوت بخشی"۔۔۔۔۔ ( احمد سھیل،" بجنوری، محاسن کلام غالب اور اس کے نقاد"، مشمولہ "تنقیدی تحریریں"،قلم پبلی کیشنز، ممبئی، صفحہ 117) ۔۔۔۔۔۔
* ڈاکڑ سید عبد لطیف نے بجنوری پر تنقید کرتے ھوئے بجنوری کے طریق کار کو ناقص اور غیر حقیقت پسندانہ بتاتے ہیں۔ بجنوری نے غالب کا تقابل انگریزی ، فرانسیسی اور جر من شعراسے کر تے ہو ئے غالب کو ان سبھوں سے بہت اعلا وبالا ثابت کر نے کی کو شش کی ہے ۔حالا نکہ اس عمل میں بنیادی طور سے بجنوری کی ’’ غالب پر ستی ‘‘کا دخل ہے ۔’’محاسنِ کلامِ غالب ‘‘کی سب سے بڑی خامی یہ کہ غالب کی تنقید کے بجائے پرستش کی حد تک مداحی نظر آتی ہے ۔ بجنوری پر یہ اعتراض مجنوں گو رکھپوری نے اپنی کتاب ’’غالب شخص اور شاعر ‘‘ میں ، ڈاکٹر سید عبدا لطیف نے ’’ غالب ‘‘ میں، یاس یگانہ چنگیزی نے ’’ غالب شکن ‘‘ میں، اختر اورینوی نے’نقدِغالب ‘‘ میں ،ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے’’ غالب اور آہنگِ غالب‘‘ میں ،راہی معصوم رضانے’’یاس یگانہ چنگیزی ‘‘ میں اور گیان چند جین نے ’’رموزِ غالب‘‘ میں اپنے اپنے پیرائے میں کیا ہے ۔اصلیت غالباًیہ ہے کہ عبد الرحمان بجنوری ، غالب کے وہ مدّاح ہیں جنھیں متعدد علوم وفنون پر دسترس ہے اور وہ بے جا طور پر اہنے تبحرِ علمی کا انطباق غالب کی شاعری پر کر نے کی کو شش کر تے ہیں ۔حالا نکہ یہ رویّہ بھی غالب کی شاعرانہ حیثیت کے ساتھ یک گونہ زیادتی کے مترادف ہے ۔ ’’محاسن کلامِ غالب ‘‘ کے ایک ، ایک لفظ میں غالب پر ستی اپنے شباب پر نظر آتی ہے ۔آغاز ہی اِس جملے سے ہو تا ہے ۔’’ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ۔مقدس وید اور دیوانِ غالب " ، خالد مبشر نے اپنے ایم مضمون " غالب شناسی میں مقدمات کی معنویت واہمیت " میں لکھا ہے۔ "عبد الرحمان بجنوری نے لکھا ہے کہ غالب نے صنائع وبدائع سے پر ہیز کیا ہے ۔ اس دعوے کی تردید بلاغت کی صرف ایک ہی کتاب سے بخوبی ہو جاتی ہے ۔ وہاب اشرفی نے اپنی تالیف ’’ تفہیم البلا غت ‘‘ میں 29صنعتوں کی مثال غالب کے 33 اشعار سے دی ہے ۔یہ تو بلاغت کی صرف ایک کتاب کا حوالہ ہے اور نہ جانے کتنی صنعتیں ہو ں گی جن کی مثال سے وہاب اشرفی نے صرفِ نظر کیا ہوگا ۔ مذکورہ کتاب میں کلامِ غالب کے پیشِ نظر جن صنائع کی نشاندہی کی گئی ہے ،ان کی بس یہ فہر ست ملاحظہ ہو:
(1)طرفینِ تشبیہ (2)طرفینِ تشبیہ حسّی سمعی(3)طرف تشبیہ عقلی (4)مشبہ حسی
اور مشبہ بہ عقلی (5)مشبہ عقلی اور مشبہ بہ حسی اور وجہِ شبہ واحد عقلی (6)تشبیہ مر سل ؍
تشبیہ تشریح(7)استعارہ حسی متعلق بباصرہ (8)کنایہ بعید (9)تعریض (10)
ادماج (11)حشوِ ملیح (12)ایہام یاتو ریہ (13)تا کیدالمدحبما شبہ الذم (14)
تجاہلِ عارفانہ (15)تلمیح (16)تشابہ الاطراف(17)متحمل الضدین (18)
جمع(19)ترجمتہ اللفظ (20)ترصیع(21)رد العجز علی الحشومع شبہ الاشتقاق(22)
مقابلہ (23)اشتقاق(24)جمع وتفریق (25)طباق سلبی (26)قول بالموجب
(27)لف و نشرمرتب (28)مراعات النظیر(29)ضلع جگت۔
علاوہ ازیں اگر صرف ’’ صنعتِ تلمیح ‘‘کے پیشِ نظر دیکھا جا ئے تو کلامِ غالب میں اس کی بھی بے شمار مثالیں مو جود ہیں ۔ اسی بنا پر محمود نیازی نے ’’تلمیحاتِ غالب ‘‘ کے نام سے جو کتاب تر تیب دی ہے ۔(غالب اکیڈمی ،نئی دہلی سے جو ن 1972 ء میں شائع ہو ئی )۔ خورشید الاسلام نے لکھا ہے :
’’بجنوری اپنے اوضاع و آداب میں مشرقی تھے۔ اپنی ادبی روایت کے ذی ہوش پرستار تھے اور پرانے علوم پر نگاہ رکھتے تھے اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ وہ اپنے تمام معاصرین سے کہیں زیادہ مغرب اور اس کی معاشرت اور اس کی ترقی کے اسباب کو جانتے تھے۔ وہ جدید علوم سے غیر معمولی شغف اور ان میں سے چند میں غیر معمولی دستگاہ رکھتے تھے۔ عربی و فارسی کے علاوہ وہ ترکی زبان و ادب سے بھی آشنا تھے۔ انگریزی پر زبردست قدرت رکھتے تھے اور فرانسیسی، اطالوی اور جرمن جانتے تھے۔ فلسفہ ان کا خاص مضمون تھا۔ اسلامی فقہ پر انھیں عبور حاصل تھا۔اس میں شک نہیں کہ ناقدینِ غالبؔ میں بجنوری پہلے شخص ہیں جو کئی زبانیں جانتے تھے۔ لیکن اس علم سے بجنوری نے جو کام لیا، وہ بہت اطمینان بخش نہیں۔ تنقید میں اہمیت اس بات کی نہیں کہ ناقد کتنا علم رکھتا ہے یا کتنی زبانیں جانتا ہے بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ اس علم سے اس نے کیا کام لیا۔ اور اس سطح پر بجنوری کا مطالعہ ہمیں مایوس کرتا ہے۔
"بجنوری نے نثرنگاری کے علاوہ نظم گوئی کے میدان میں بھی اپنے جوہر دکھائے۔ بجنوری کی نظم گوئی کاآغاز اگرچہ طالب علمی کے زمانے سے ہی ہوگیاتھا ان کی نظم ’قانون فنا‘ مخزن مارچ 1907 میں شائع ہوئی تھی لیکن ان کی شاعرانہ حیثیت ان کی وفات کے بعدسامنے آئی جب مولوی عبدالحق اورآصف علی نے اس سلسلہ میں پیش رفت کی۔ بیرسٹر آصف علی نے ان کے ایک مضمون ’اوج سخن‘ میں بجنوری کی پانچ نظمیں (1) ناہید (2) ہندوستان(3) موسیقی(4) مجذوب(5) شمع وپروانہ سے بحث کی۔ یہ مضمون ’نقیب‘ بدایوں کے اگست 1920 کے شمارے میں شائع ہواتھا۔ اس کے بعد مولوی عبدالحق رسالہ ’اردو‘ میں ان کی نظمیں شائع کرتے رہے۔ ’نٹ راجا‘ جنوری 1924 کے شمارے میں ’صبح بنارس‘ اپریل 1925 کے شمارے میں ’معلم الملکوت‘ جولائی 1926 کے شمارے میں اور ’اجنبی‘ جولائی 1928 کے شمارے میں شائع ہوئیں۔ ان کے علاوہ ’دعا‘ اگست 1927 ’یادگل‘ عیدنمبر 1927 اور ’داعیِ اجل‘ جوٹیگور کی تخلیق کا ترجمہ ہے۔ عید نمبر 1928کے ’نیرنگ خیال‘ لاہور میں شامل کی گئیں"۔{ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری: ایک نابغۂ روزگار شخصیت مضمون نگار:۔ آفاق حسین صدیقی۔ اردو دنیا، فروری2019 ۔ دہلی }
ان میں سے ناہید، ہندوستان، موسیقی، مجذوب، شمع وپروانہ، صبح بنارس، معلم الملکوت،اجنبی، دعا اور یادگل باقیا ت بجنوری میں شامل کی گئی ہیں۔ اورنٹ راجا باقیات بجنور ی میں شامل ہے۔ ’داعی اجل‘ دونوں مجموعوں میں نہیں ہے۔ ان منظومات کے علاوہ ’باقیات بجنور ی‘ میں4 نظمیں اور تین شعراورشامل ہیں۔ نظموں کے عنوانات ہیں (1) بچے اور بڑے (2) ڈارون (3) بندے ماترم(4) ترکی قومی گیت، باقیات بجنوری میں مذکورہ نظموں کے علاوہ ایک قطعہ ’رنگ مانند بشب‘ ٹیگور کی گیتانجلی کے ترجمہ پرمشتمل چندشعر (جوگیتانجلی کے تبصرے میں شامل کیے گئے ہیں) اوربائیس اشعار اورایک مصرع اور شامل کیاگیاہے۔
بجنوری کے مقالات اورمنظومات کے علاوہ ان کے مکاتیب خصوصاً وہ مکاتیب جوانھوں نے اعلیٰ تعلیم کے دوران میں بیرون ممالک سے ان کے والد محترم اور احباب کوتحریر کیے ادبی اہمیت کے حامل ہیں۔خطوط کے مطالعہ سے بجنوری کی باریک بینی، غیرمعمولی قوت مشاہدہ، وسعت النظری اورگہرے غوروفکر کے علاوہ ان کی مذہبی، تہذیبی،سماجی، سیاسی بصیرت کااندازہ ہوتا ہے اوربیرون ممالک کے سیاسی، تمدنی اورثقافتی معاملات اورحالات سے ان کی غیرمعمولی آگہی کاپتہ چلتا ہے
ڈاکٹر حدیقہ بیگم نے 1984 میں اپنی ڈاکڑیٹ کی تکمیل کے لیے " نقد بجنوری" کے نام سے مقالہ لکھا۔ عبد الرحمان بجنوری پر اسلوب احمد انصاری، اشفاق احمد، آصف علی،عبدالوحید اعظمی،محمد معین انصاری،عطا محمد شعلہ،محمد عبد الغفار،خلیفہ حکیم،حسن عسکری پلکھنوی، امتیاز علی عرشی، جعفر حسن اسیم، خورشید الاسلام، عبد الرحمان چختائی، گیان چند جیں، محمد سلیمانی،سید محمود، سید عبداللہ اور کلیم الدین احمد وغیرہ نے بجنوری پر خاصا صراحت سے لکھا ھے۔ عبد الرحمان بجنوری مشرق اور مغرب کی فکری اور علمی بصیرتوں کو اردو سے متعارف کراویا۔ ان کی فکر دو آتشہ میں نہا کر اردو ادب و نقد میں نیا نکھار پیدا کیا اور بالخصوص غالب کے کلام کو نیا تفھیمی اور تشریحی افق دیا۔ غالب بنیادی طور سے فلسفی ہیں پھر بعد میں شاعر ،تو اِس کی تردید خود ان کے کلام سے ہو جاتی ہے ۔ غالب بنیادی طور پر فلسفی نہیں بلکہ شاعر ہیں ۔ان کے کلام میں جہاں فلسفے کا گمان گذرتا ہے ، وہ دراصل ایک شاعرانہ کفیت ہے ۔ فلسفی ایک منظم فلسفۂ حیات وکائنات رکھتا ہے ۔ غالب کے یہاں یہ معاملہ نہیں ہے ۔ وہ کسی واحد فلسفے یا نظر یے سے مکمل طور پر وابستہ نہیں ہیں بلکہ ان کے یہاں آزادہ روی ہے جو اُن جیسے شاعر کی اہم خصوصیت ہے اور چوں کہ وہ فلسفی نہیں ہیں لہٰذا اِس کے نتیجے میں کسی فلسفہ پرقانع نہیں رہتے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وحدت الوجود کا کبھی اقرار کر تے ہیں تو کبھی انکار ۔مثلاً:
جب کہ تجھ بن نہیں کو ئی مو جود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
راقم الحرف کے دو/2 مضامین بعنوان، " عبد الرحمان بجنوری اور محاسن کلام غالب"، ادبی جریدے " جہات"، سری نگر ، کشمیر شمارہ 2 اور " آئندہ" کراچی کی جنوری تا مارچ 1998 کی اشاعت میں شامل تھے۔
۔ ڈاکڑ سید عبد لطیف نے بجنوری پر تنقید کرتے ھوئے بجنوری کے طریق کار کو ناقص اور غیر حقیقت پسندانہ بتاتے ہیں۔
بجنوری نے ٹیگور کی "گیتا نجلی" کا اردو میں ترجمہ کیا۔ " باقیات بجنوری" میں 14 نظمیں شائع ھوئیں۔ ترکی کی نظموں کو اردو میں منتقل کیا۔ ان کی نظموں میں ، معلم الملوت،ناہید، ہندوستان، دعا، یاد گل، موسیقی، مجذوب، صبح بنارس، بچے اور بڑے ( یونانی گیت کا ترجمہ) ،شمع و پروانہ، نٹ راجہ، شوجی کا رقص اور کوئل قابل ہی نہیں انہوں نے ترکی اور یونانی زبانوں کی مشہور نظموں اور گیتوں کا بھی اردو میں ترجمہ کیاتھا۔ وہ خود منفرد لب و لہجہ کے ممتاز شاعر تھے اور انہوں نے معلم، ہندستان،ناہید،موسیقی ،یادگل ،دعا صبح بنارس کے عنوان سے جو شاہکار نظمیں لکھیں ہیں وہ اردو ادب کا اہم حصہ ہیں۔ زکر ہیں۔ بجنوری نے علامہ اقبال کو فلسفی تسلیم نہیں کیا۔ بجنوری کی طویل نظم "معلم المکوت" جو اقبال کی نظم " جبریل وابلیس" سے دس سال پہلے لکھی گی کہا جاتا ھے کہ یہ نظم اقبال نے "معلم المکوت" متاثر ھوکر لکھی تھی۔ علامہ اقبال نے بجنوری کو اسلامی تہزیب کا دانشور کہ کر انھیں خراج تحسن پیش کیا تھا۔ بجنوری مزاحمت کار تھے۔ 1907 میں ایم او کالج، علی گڑھ کی ایک ہرتال میں حصہ لیتے ھوئے اس کی رہنمائی بھی کی۔
ڈاکٹر عبدالرحمن نے بھوپال میں رہ کر تعلیم،تحقیق کے میدان میں بہت کار نمایان کرار ادا کیا تھا مگر آج اہل بھوپال اور بھوپال کی ادبی انجمنوں نے انہیں فراموش کردیا ہے۔ ڈاکٹر بجنوری کا انتقال سات نومبر انیس سو اٹھارہ کو بھوپال میں ہوا اوروہ بھوپال کے لال گھاٹی شہر خموشان رزق خاک ہوئے۔