عبداللہ حسین مرحوم صفِ اول کے ایک اہم ناول نگار تھے۔ ان کی پہلی اردو ناول’’ اداس نسلیں ‘‘ اردو کے چند اچھے ناولوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی دو ناولیں ’’ باگھ ‘‘ اور ’’ نادار لوگ ‘‘ ہیں۔ ان کے چند افسانے بھی مقبول ہوئے۔ ۱۹۳۱ میں پیدا ہوئے اور ۴ جولائی ۲۰۱۵ میں وفات پائی۔ مندرجہ ذیل تحریر ساٹھ کی دہائی میں شائع ہوئی تھی۔( عبداللہ جاوید)
٭٭٭
عبداللہ حسین کی ناول ’’ اداس نسلیں‘‘ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ ’’ برٹش انڈیا ‘‘ سے متعلق ہے دوسرا ہندوستان کے عنوان کے تحت لکھا گیا ہے۔ اس حصہ کی ابتدا میر کے ایک نشتر سے ہوتی ہے
افسردگیٔ سوختہ جانا ہے قہر میرؔ
دامن کو ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے پیاس
تیسرا حصہ ’’ قرآنِ مجید کی ایک آیت سے شروع ہو تا ہے جس کا ترجمہ ہے۔ ’’ جب ان سے کہا گیا کہ زمین پر فساد مت پھیلاؤ تو وہ کہنے لگے کہ ہم ایمان والوں میں سے ہیں۔ ‘‘ ناول کی اس تقسیم کے بارے میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ در حقیقت یہ تقسیم غیر ضروری اور مصنوعی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مصنف نے اس تقسیم کے ذریعہ ناول کو اور خاص طور پر ناول کے پلاٹ کو قاری کے لئے زیادہ سے زیادہ قابلِ فہم بنانے کی کوشش کی ہے۔ در حقیقت ناول ابتدا سے آ خر تک ایک اکائی ہے گو اس کا اختتام قدرتی نہیں بلکہ ایک قسم کی فنی ضرورت کے طور پر ہوتا ہے۔جب اس کے اختتام پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس ناول کا موضوع ہندوستان ہے۔ ہندوستان جو برطانوی حکومت کے زیرِ نگیں تھا۔ ہندوستان جو آزادی کی جانب قدم بہ قدم رواں تھا اور ہندوستان جو آزادی کی بیش بہا دولت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہر طرح سے تاخت و تاراج ہو کر رہ گیا ۔
بادیٔ النظر میں یوں لگتا ہے کہ مصنف ہندوستان کی تاریخ لکھ رہا ہے لیکن تاریخ کو ناول میں تبدیل کر دینا یا ناول کو تاریخ بنا دینا، مصنف کی صلاحیتوں سے خارج ہے۔ در حقیقت موجودہ دور میں اردو زبان میں جو کچھ بھی ناول کے بہانے لکھا جا رہا ہے قرۃالعین حیدر کی عظیم تخلیق ’’آگ کا دریا‘‘ کے اثرات سے باہر نہیں ہو سکتا۔’’ اداس نسلیں ‘‘ ہو یا ’’ تلاشِ بہاراں‘‘ ’’ آگ کادریا ‘‘کا عکس قریب قریب ہر ناول میں جھلکنے لگتا ہے۔ ایک لحاظ سے ’’ تلاشِ بہاراں ‘‘ کو ہم آگ کا دریا کے اثر سے گریز کرنے کی کامیاب کوشش قرار دے سکتے ہیں۔’’ اداس نسلیں ‘‘ تو کسی بھی صورت میں ’’ آگ کا دریا ‘‘کی فنی خوشہ چینی کے الزام سے بری قرار نہیں دی جا سکتی۔ یہی اس ناول کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ناول کا پلاٹ ’’ آگ کا دریا ‘‘ کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اسلوب اور بیان کے اعتبار سے عبداللہ حسین ، قراۃالعین حیدر سے بہت کم متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ تاہم اس ناول کے چند ابواب ایسے بھی ہیں جن کو پڑھنے سے مس حیدر کی تحریروں کی یاد تازہ ہونے لگتی ہے۔’’ روشن محل ‘‘ در اصل مس حیدر کے فنی حدود میں واقع معلوم ہوتا ہے۔’’ روشن محل ‘‘ کے درو دیوار اور سارا ماحول یہاں تک کہ اس کے رہنے والے قرۃ العین حیدر کی تصنیف سے قریبی طور پر منسلک معلوم ہوتے ہیں۔ یہ کہنا تو غلط ہو گا کہ مصنف نے اس ناول کی تصنیف میں مختلف النوع فنی تجربات کئے ہیں۔ کیونکہ اس قسم کے تجربات ہر کسی کے بس کی بات نہیں البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مصنف نے انواع و اقسام کے اسالیب فن کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس ناول کی فنی بو قلمونی در اصل ایک طرح کی خوشہ چینی کے علاوہ کچھ نہیں اور یہ خوشہ چینی کسی مخصوص غرض سے نہیں کی گئی۔ بلکہ یوں لگتا ہے جیسے مصنف نے فن کے بے شمار لہلہاتے کھیتوں اور طرح طرح کے پھولوں اور پھلوں سے بھرے ہوئے باغوں پر چھاپا مارا ہے۔ یہ ناول ایک آئینہ خانہ ہے جس میں بے شمار عظیم مصنفوں کی تحریروں کا عکس اتر آیا ہے۔ یہاں پریم چند سے لے کر قرہ العین حیدر تک اردو کے گنے چنے مشہور ناول نگار جلوہ فرما نظر آتے ہیں۔ اردو کے علاوہ مشہور انگریزی اور امریکی ادیب بھی کہیں نہ کہیں اپنی جھلک دکھاتے اور پھر چھپ جاتے ہیں، خاص طور پر ’’ ہمینگوے ‘‘ تو بار بار اپنے وجود کا احساس دلاتا جاتا ہے۔ بے شمار مقامات ایسے ہیں جہاں ہمینگوے کی چھاپ واضح طور پر محسوس ہونے لگتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عبداللہ حسین ایجاز و اختصار کے معاملے میں ہمینگوے کی تقلید کو شائد نا ممکن سمجھ کر اس سے گریز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ عبداللہ حسین غیر ضروری تفاصیل اور جزئیات میں الجھ کر رہ جاتے ہیں کیونکہ اصل احساس اور بنیادی جذبہ کا ابلاغ نہیں ہوتا۔ اس ناول کے عنوان سے لے کر جزئیات تک جگہ جگہ ہمینگوے اور دوسرے گمشدہ نسل کے امریکی ادیبوں کا اثر صاف طور پر نمایاں معلوم ہوتا ہے۔ اس ناول کو جس جس طرح بعض مقتدر اہلِ قلم نے سراہا ہے وہ کچھ نا قابلِ فہم معلوم ہوتا ہے، کیونکہ یہ ناول در حقیقت سوائے طوالت اور غیر ضروری جزئیات نگاری کے کسی اور صفت کی حامل نہیں ہے۔ اس ناول کے بارے میں کہنا درست ہو گا کہ خارو خذف کے ایک عظیم انبار میں کہیں کہیں چند موتی چھپے ہوئے ملتے ہیں اور یہ موتی بھی ایسے موتی ہیں جو مانگے کی آب و تاب سے مزین ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ناول علی پور کا ’ ایلی ‘ کی مانند قطعی ناکام کوشش ہے۔ کیونکہ بہر حال اس کا موضوع ایک بہت بڑا موضوع ہے اور موضوع نے کسی نہ کسی طرح اس ناول کو تھوڑی بہت عظمت ضرور بخشی ہے۔ اردو کے ناولوں میں بہر نوع اس ناول کا ایک مقام ہو سکتا ہے لیکن یہ بھی ایک الم ناک حقیقت ہے کہ آگ کا دریا کے بعد اس ناول کا شائع ہونا یوں لگتا ہے جیسے ہم آگے کی جانب قدم اٹھانے کے بجائے پیچھے کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ خواہ پلاٹ اور کہانی کے اعتبار سے خواہ زبان و بیان اور فن کے لحاظ سے ہم ناول کا موازنہ ’’ آگ کا دریا ‘‘ سے کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے مصنف نے ایک غیر ضروری کام انجام دیا ہو۔ تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ’’ اداس نسلیں‘‘ اپنی تمام تر اداسیوں کے باوجود ایک طرح سے مثبت انداز میں ختم ہوتی ہے یوں لگتا ہے کہ مصنف کو تھوڑا بہت احساس ضرور ہے کہ
؎ ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے۔
چونکہ کسی چیز کا کہیں اختتام نہیں زندگی ایک رواں دواں حقیقت ہے۔ انت کہیں نہ کہیں، اس لئے
’’ اداس نسلیں ‘‘ ہمیشہ اداس نہیں رہتیں، بلکہ اپنے اندر کچھ ایسی قوتیں چھپائے رکھتی ہیں جو بالآ خر مثبت اقدار کو آگے بڑھانے میں مدد دینے لگتی ہیں۔
نعیم احمد خان اس ناول کا مرکزی کردار ہے یہ ایک مخصوص فرد ہے اور انفردیت کا ایسا ہی مالک ہے جیسا کہ خاص آدمی ہوتا ہے۔ اپنی تمام تر انفرادیت کے باوجود وہ ایک نمائندہ کردار بھی ہے ایک سمبل ہے، ایک اشارہ ہے، ایک ایسا انسان ہے جو زندگی میں مرجاتا ہے اور مر کر زندہ ہو جاتا ہے۔ جب تک وہ زندگی میں موت سے ہم کنار رہتا ہے اس کا بھائی علی اس سے منحرف اور برگشتہ رہتا ہے۔ لیکن اس کی موت کے بعد علی، نعیم کی اولاد معنوی کے روپ میں زندہ رہتا ہے اور بٹوارہ کے بعد قافلہ کے ساتھ پاکستان آتے ہوئے وہ نعیم سے وہ سب کچھ حاصل کر لیتا ہے جو نعیم کی زندگی کے سارے تجربات کا نچوڑ ہے۔ پاکستان میں علی ایک نئی زندگی کی تعمیر شروع کرتا ہے اور اس سلسلہ میں وہ جس عورت کو اپنی رفیقِ حیات منتخب کرتا ہے وہ شیلا ہوتی ہے۔ اس طرح گویا نعیم حیات کی تجدیدی قوتوں کا نشان بن کر علی کے روپ میں منفی اقدار سے مثبت اقدار کی طرف رجعت کرتا ہے۔ نعیم کا کردار ایک ققنس کی مانند زندہ و جاوید کردار ہے۔ ققنس در حقیقت کبھی نہیں مرتا جب وہ بوڑھا ہو جاتا ہے تو دیپک راگ چھیڑ دیتا ہے اور اس کی منقار سے چنگاریاں برستی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ جل کر ایک مشت خاک میں بدل جاتا ہے، لیکن اس مشت خاک سے دوسرا ققنس جنم لیتا ہے۔ اس طرح حیات کا تسلسل نہ صرف قائم رہتا ہے بلکہ زندہ قوتوں کا نمود ہونے لگتا ہے اور تجدید حیات ہوتی ہے۔ نعیم اور علی کا کردار وںکاتضاد اور مشابہت در حقیقت مصنف کی تخلیقی قوتوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اس مقام پر مصنف نے در اصل زبر دست کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ اس ناول کی عظمت کا دارو مدار نعیم اور علی کے کرداروں پر ہے۔ گو اس حقیقت سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ ہمینگوے کی مشہور تخلیق ’’ بوڑھا اور سمندر‘‘ میں سائٹیا گو (Santiago ) اور Mavalin کا کردار نعیم اور علی سے ایک عجیب مشابہت پیش کرتے ہیں۔ یہ کہنا شاید مناسب نہیں کہ عبداللہ حسین نے یہاں بھی خوشہ چینی کی ہے پھر بھی فکر کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔ یوں تو اس ناول کے تمام کردار Passive حقیقت رکھتے ہیں۔ یعنی ان پر طرح طرح کے واقعات گزرتے رہتے ہیں، وقت کا تموج ان کے خدوخال میں نمایاں تغیرات پیدا کرتا ہے۔ نعیم کا کردار بھی اس مفعولیت سے مستثنیٰ نہیں ہے بلکہ نعیم کے والد کے کردار میں بھی یہی ایک خصوصیت سب سے زیادہ واضح دکھائی دیتی ہے۔ اگر دیہات کے باشندوں کی خصوصیت پیش کی جاتی کہ وہ زندگی کے مختلف النوع عوامل سے صلح کر لیتے ہیں اور جو کچھ ان پر گزرتی ہے اس کو قبول کر تے ہیں تو کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہوتی، کیونکہ دیہاتیوں کی زندگی ایک طرح سے فطرت کے بالکل قریب تر ہے۔ دیہاتی ابھی تک ماقبل تاریخ کے انسان سے بہت زیادہ مشابہ ہے۔ کیونکہ اس کا واسطہ زمین سے ہے، مٹی جو سونا اگلتی ہے جس کی زرخیزی کا دارو مدار نہ صرف انسان کی مساعی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آسمان کی کر م فرمائی سے بھی ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دیہات میں انسان ابھی تک عوامل اور حالات کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہیں۔
ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں انسان غیر شعوری طور پر حقیقت پسندانہ رجحانات پیدا کر لیتا ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ شہر کے رہنے والے دیہاتی زندگی کے بارے میں انتہائی رومانی انداز میں سوچتے ہیں جب کہ دیہاتی انسان خالص غیر رومانی اور حقیقت پسندانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس ناول میں دیہاتی کرداروں میں بعض ناگزیر عوامل کو قبول کرنے کا رجحان عام تھا۔اور یہ بات قابلِ اعتراض نہیں لیکن عذرا کے کردار میں اس قسم کے عناصر کا وجود نا قابل فہم ہے۔ در اصل عذرا کے کردار کی تشکیل اور اس کی نمو میں مصنف بری طرح ناکام ہوا ہے، خاص طور پر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ عذرا جو اس ناول کے ابتدا میں روشن محل کے ایک مخصوص پیڑ کی شاخ پر بیٹھ کر قہوہ پیتی ہے، اس عذرا سے مختلف ہوتی ہے جو نعیم کی بیوی کے طور پر ناظرین کے سامنے آتی ہے۔ عذرا کے بارے میں یہ احساس تو ضرور ہوتا ہے کہ وہ نعیم پر کسی نہ کسی طرح قابو حاصل کر لیتی ہے، یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ وہ نعیم کو بربادی کے راستے پر بھی لے جانے کی ذمہ دار ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ عذرا پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا کیونکہ نعیم در حقیقت عذرا کے سامنے ایک عظیم اور تباہ کن احساس کمتری میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نعیم اس جھینپ کو کبھی دور نہ کر پایا جو اس نے اپنی ٹوپی کے پھندنے میں محسوس کی تھی، جو بار بار اس کی پیشانی پر گرجاتا اور جس کے بارے میں عذرا نے ہلکا سا اشارہ کر کے اس کو لال لال کر دیا تھا۔ نعیم روشن محل کے ہجوم ( Crowd ) میں اپنے آپ کو شامل نہیں کر سکا اور یہی اس کی بربادی کا سبب ہے۔ روشن محل کے لڑکے لڑکیوں کا گروپ قرۃالعین حیدر کی تحریر کی یاد دلاتا ہے لیکن اگر آپ چاہیں تو ہمینگوے کے ناول The Sun Also Risesکی جانب بھی اشارہ کر سکتے ہیں۔ ناول کے آخری حصے میں یعنی ( بٹوارہ کے بعد) مصنف نے قارئین پر یہ احساس مسلط کرنے کی کوشش کی ہے کہ عذرا ایک عظیم عورت ہے، لیکن یہ بات کم از کم ناول کے واقعات سے ظاہر نہیں ہوتی۔عذرا کے کردار میں ایک طرح کی رومانیت ہے۔ رومانیت کے بارے میں ایک ناقد کا قول ہے کہ رومانیت ایک جھوٹ ہے اور اس کا علاج صرف یہ ہے کہ اس کا تجزیہ کیا جائے۔ عذرا کا کردار کسی قسم کے تجزیہ کا متحمل نہیں ہو سکتا ، تاہم عذرا کے کردار میں کچھ باتیں ایسی ضرور ہیں جو اس کو دلکش بنا دیتی ہیں۔ اس طرح وہ مخصوص نسوانی فطرت کی نمائندہ بن جاتی ہے۔ لیکن یہ نسوانیت شہری لڑکیوں کی بنیادی رومانیت پسندی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ جس طرح ہنری جیمس کے مشہور ناول ’’A Potrail of a lady ‘‘ کی ہیروئین اہم موقعوں پر کوئی فیصلہ نہ کر کے قارئین کو جھلاہٹ کا احساس دلاتی ہے۔ اسی طرح عذرا نے اکثر موقعوں پر قوت فیصلہ کی کمی کا ثبوت دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس کے پاس قوتِ ارادی کی افراط ہے اور قوت فیصلہ کا فقدان۔ نعیم اور عذراا کی جنسی زندگی غیر فطری ہے۔ کبھی کبھی تو ملکہ وکٹوریہ کے عہد کی انگریزی ناولوں کا انداز جھلکتا ہے۔ شاید نعیم کے احساس کمتری کے علاوہ یہ خصوصیت بھی ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا رکھنے کی ذمہ دار ہے۔عذرا کے مقابلہ میں شیلا کا کردار کسی قسم کی جھوٹی عظمت سے خالی ہونے کے باوجود جیتا جاگتا کردار ہے۔ نعیم ’’ لکڑ بند‘‘ ہونے کے باوجود شیلا کے سامنے کسی قسم کا احساس کمتری نہیں محسوس کرتا گو عذرا کو حاصل کرنے میں( شادی کرنے کے باوجود) تا عمر کامیاب نہیں ہوتا لیکن شیلا کو وہ بغیر شادی بیاہ، پلک جھپکنے میں فتح کر لیتا ہے۔ شیلا کے مقابلہ میں وہ ایک مکمل مرد دکھائی دیتا ہے۔ وہ مرد جو ابھی تک ما قبل تاریخ کے انواع کی خصوصیات کا حامل ہے ۔ اگرچہ ناول میں وہ شیلا سے فراراختیار کر کے عذرا کی رومانیت میں پناہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن حقیقت میں اس کا جسم، اس کی روح اور اس کے وجود کا رواں رواں شیلا کا طلبگار رہتا ہے۔ عبداللہ حسین نے پلاٹ کی تشکیل میں جس فنکاری سے کام لیا ہے وہ اس سلسلے میں قابلِ تعریف ہے کہ شہلا سے گریز کرنے کے باوجود نعیم ،علی کی شکل میں دوبارہ اس کو حاصل کر لیتا ہے اور علی اور شیلا ایک بار پھر ایک نئے خاندان کی بنیاد ڈالنے کی کوشش شروع کرتے ہیں گویا شیلا جو نعیم کو اپنا سب کچھ لٹانے کے باوجود بھی حاصل نہیں کرتی بالآخر علی کی شکل میں حاصل کر لیتی ہے۔ اس طرح ناول کا پلاٹ حیران کن انداز میں ایک مکمل اکائی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
کرداروں کے ضمن میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نعیم کے والد نیاز بیگ کا کردار بھی حقیقت پسندانہ انداز میں نہایت کامیابی کے ساتھ تشکیل دیا گیا ہے۔ قاری کے ذہن میں نیاز بیگ ایک حقیقی اور زندہ انسان کا روپ دھار لیتا ہے تاہم اس کی دو بیویوں کا مسئلہ غیر ضروری سا لگتا ہے۔ اور اس پر مصنف نے اپنی تخلیقی قوتیں ضائع کر ڈالی ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نیاز بیگ کے کردار میں’’ دو جورو والا‘‘ ہونے کے سبب مزاح کا عنصر شامل ہو جاتا ہے۔ چونکہ اس کے کردار میں بنیادی طور پر ایک طرح کی عظمت کا احساس ہوتا ہے اس لئے یہ مزاحیہ عنصر کچھ ناگوار سا لگتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عبداللہ حسین، نیاز بیگ میں MOCK HEROIC عناصر کو پیش کرنا چاہتے ہوں۔ نیاز بیگ کے علاوہ دوسرے چھوٹے بڑے اہم اور غیر اہم کردار اپنی جگہ خاصے اچھے ہیں۔ کہیں کہیں پر بے جان او رکھوکھلے کردار کا وجود ناول کی فنی خامی کے بجائے خوبی کا کردار اختیار کر لیتا ہے، کیونکہ ایسے کرداروں کے بغیر زندگی کا ابلاغ نا ممکن ہے۔ روشن آغا کی تصویر کشی ناول کی ابتدا میں بہت عمدہ ہے لیکن بعد میں ان کی جھلکیاں بہت مدھم معلوم ہوتی ہیں۔ بٹوارہ کے دوران میں ان کا پیدل سفر قابلِ تعریف ہے۔ کیونکہ اس طرح ان کا کردار جامد ہونے سے بچ جاتا ہے۔ ناول کے آخر میں ان کے بیٹے کا ان سے مصلحت آمیز برتاؤ ایک تلخ حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس تلخی کا سبب وہ عظیم تغیر ہے جو تقسیم ہند کے بعد فسادات کے ڈرامہ کا آخری ایکٹ بن کر نمودار ہوتا ہے۔ بیشتر کردار ایسے بھی ہیں جن کی اہمیت کا دارو مدار ناول کے پلاٹ پر ہے یعنی ان کا تعلق کسی اہم یا غیر اہم واقعہ سے ہوتا ہے اور اس واقعہ کے ساتھ ہی ابھرتے اور ڈوب جاتے ہیں۔ یہ بھی فنی خامی نہیں ہے کیونکہ اس سے واقعات کا تسلسل اور بہاؤ کا احساس قوی تر ہو جاتا ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جہاں تک جنگ کی تصویر کشی یا فسادات کے دوران میں مصیبت زدہ انسانوں کا ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہجرت کی تفاصیل کا تعلق ہے عبداللہ حسین نے ایک فنکار کی حیثیت کا لوہا منوا لیا ہے۔ دوسری زبانوں میں جنگ کی حقیقت پسندانہ تصویرکشی کی کامیاب مثالیں ملتی ہیں خاص طور پر ہیمنگوے نے تو انسان اور معاشرے پر جنگ کے اثرات کو نہایت کامیابی کے ساتھ بلکہ خلاقانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ اگر ہم اس بات سے چشم پوشی کریں کہ عبداللہ حسین نے ایک کامیاب چربہ اتارنے کی کوشش کی ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اردو زبان میں انہوں نے جنگ کو ایک تلخ حقیقت کے طور پر قاری کے ذہن پر نقش کر دیا ہے۔ ناول کے اس حصہ میں ہمیں زندگی میں موت اور موت میں زندگی کا احساس ملتا ہے خاص طور پر مہندر سنگھ اور نعیم کی ملاقات اس احساس کو مرتب کرنے میں کافی حد تک کامیابی کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔
جہاں تک جنگ سے متعلق ابواب کا تعلق ہے، نعیم کے بعض ردِ عمل ناقابلِ فہم اور غیر منطقی معلوم ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ان کی اپنی رفیقِ خاص سے نفرت قطعی غیر حقیقی محسوس ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ناول نگار نے مصنوعی طور پر اس نفرت کے جذبہ کو نعیم کی شخصیت پر مسلط کر دیا ہے۔ گو کسی نہ کسی طرح اس نفرت کی وضاحت بھی کی گئی ہے، لیکن یہ سب کچھ محض نفسیاتی کتابوں سے ماخوذ احمقانہ توجیحات معلوم ہوتی ہیں۔ نعیم کا اپنے اس رفیق کو مروا دینا تو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ نعیم کے کردار کے سلسلے میں یہ واقعہ بے حد اہم ہونے کے باوجود ایک فنی کمزوری کے سوا کچھ بھی نہیں۔
جہاں تک ہندوستان کی نیم معاشرتی، نیم سیاسی تصویر کشی کا تعلق ہے عبداللہ حسین زیادہ کامیاب نہیں رہے ہیں۔ انہوں نے اسی سلسلہ میں جھلکیاں سی دکھانے کا انداز اختیار کیا ہے۔ جہاں تک جذباتی تاثرات کے اظہار کا تعلق ہے کہیں کہیں مصنف کو زبردست فنی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ خاص طور پر (Quit India ) ہندوستان چھوڑ دو کی تحریک کے سلسلہ میں بھی عبداللہ حسین نے چند کامیاب جھلکیاں پیش کی ہیں، لیکن جہاں تک مسلم لیگ اور کانگریس کی کشا کش، تقسیم ہند اور اس کے اسباب کا تعلق ہے مصنف کوئی خاص مجموعی تاثر پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہو ئے ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کا تاریخ کا مطالعہ ناقص ہے گو اس ناول میں مصنف نے اپنے کسی کردار سے یہ کہلوایا ہے کہ تاریخ در حقیقت علم ہے۔
ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے لے کر تقسیم ہند تک در اصل واقعات کڑی در کڑی ایک زنجیر کی شکل میں پیش آئے ہیں جب تک ہم ان واقعات کو ایک مکمل اور مربوط اکائی کی شکل میں نہیں دیکھ پاتے ہمارا شعور خاص طور پر سیاسی اور تاریخی شعور پختہ کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا اسی سلسلہ میں عبداللہ حسین بُری طرح ناکام ہوئے ہیں۔اور ان کی تصاو یرنہ صرف مدھم ہیں بلکہ ناول ایک ایسے سیاسی البم کی شکل اختیار کئے ہوئے ہے جس میں سے اہم ترین تصاویر غائب ہیں۔ یوں بھی اس قسم کی تصویر نگاری در حقیقت ابلاغ کے فن میں کامیاب نہیں قرار دی جا سکتی۔ جہاں تک جذباتیت کا تعلق ہے عبداللہ حسین کی یہ سیاسی جھلکیاں یا تصاویرایک حد تک کامیاب کہلائی جا سکتی ہیں۔ اسی سلسلہ میں پھر وہی سوال ابھرنے لگتا ہے کہ ناول میں طرح طرح کے اسلوب اور فنی پیرایہ استعمال کئے گئے ہیں، مثال کے طور پر واقعاتی اور ٹھیٹ حقیقت پسندانہ اظہار کے پہلو بہ پہلو خالص رومانوی اور جذباتی انداز بیان بھی ملتا ہے۔ کہانی، پلاٹ، کردار اور موضوع ان تمام عناصر میں یہی بوقلموئی پائی جاتی ہے۔ اس کو فنی خامی بھی کہا جا سکتا ہے اور تضاد کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مصنف نے ابھی تک اپنی مخصوص راہ کا تعین نہیں کیا ہے، ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد کی تحریروں میں یا تو جذباتیت پوری طرح غلبہ پائے یا رومانیت۔
اس ناول کی سب سے بڑی کمزوری کا تعلق زبان سے ہے یوں لگتا ہے جیسے ناول طبع زاد نہیں بلکہ ترجمہ ہے اور ترجمہ بھی گھٹیا درجہ کا کیونکہ ہم اگر زبان کے اعتبار سے اس کا موازنہ قرۃ العین حیدر کی کتاب ’’ ہمیں چراغ ہمیں پروانے ‘‘ سے کرتے ہیں تو یہ تلخ احساس ہوتا ہے کہ جہاں مس حیدر نے ترجمے کو طبع زاد تخلیق کا روپ دیا ہے وہاں عبداللہ حسین نے اپنی ناول کو معمولی ترجمہ بنا کر چھوڑا۔ جملوں کے تسلسل کے سلسلہ میں عبداللہ حسین کو ابھی بہت زیادہ مشق کی ضرورت ہے یوں تو ہنری جیمس جیسا عظیم فنکار بھی بات کو گھما پھرا کر کہتا ہے لیکن عبداللہ حسین کی زبان سے صرف خام کاری کا احساس ہوتا ہے۔ زبان کی کمزوریوں کی نشان دہی کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ کتاب کا کوئی صفحہ الٹ لیا جائے اور کوئی سا جملہ منتخب کر لیا جائے۔
یوں تو جمیلہ ہاشمی کی ’تلاش بہاراں‘ زبان کی اغلاط سے بھری پڑی ہے لیکن شاید ’ اداس نسلیں ‘ کو ایک کامیاب کوشش قرار دے سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں ناول نگاری کا ایک جنون پھیل گیا ہے اور عجیب عجیب انداز کی ناولیں شائع ہو رہی ہیں۔ ناولوں کے اس ہجوم میں عبداللہ حسین کی یہ ناول کچھ نہ کچھ امتیاز ضرور رکھتی ہے۔
٭٭٭٭