کشمیر سے تعلق رکھنے والے بزرگ شاعر جناب عبدالرزاق بےکل صاحب واردات قلبی، انسان دوستی، رفعت خیال و ندرت خیال کے حامل اور آزاد کشمیر و مقبوضہ جموں وکشمیر اور فلسطین ہو یا عراق و افغانستان اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں امن عالم کے خواہشمند شاعر ہیں ۔ عبدالرزاق بےکل صاحب 15 دسمبر 1951کو چلندراٹ ضلع باغ کشمیر میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد صاحب کا نام محمد رشید ہے ۔ عبدالرزاق صاحب شاعری میں تخلص بے کل استعمال کرتے ہیں ۔ ۔ ان کی تعلیم ایم اے اردو اور بی ایڈ ہے ۔
عبدالرزاق صاحب کی والدہ کا ان کے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی انتقال ہو گیا تھا چنانچہ ان کی ابتدائی زندگی اذیّت ناک، محرومیوں اور بڑی مشکل صورتِ حال سے دوچار رہی اور ان کو سوتیلے پن کا بھی شکار رہنا پڑا, جِسے وہ اِس روئے زمین پر ہر منافرت کی بنیاد سمجھتے ہیں ۔اوائل عمری کی یہ داستانِ الم ان کے کلام میں آج بھی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔
کبھی ہم خود کو بھی بےکل جو دیکھیں اپنی آنکھوں سے
کہیں گے ہم جِسے دیکھیں اسی کی آنکھ ہوتے ہیں
تخلیقی صلاحیتیں پیدائیشی اور اِس حد تک ودیعت ہُوئیں کہ:
اےروشنیءِطبع تُوبرمن بلاشُدی!
انہوں نے اخبار،رسائل اور ہفت روزوں وغیرہ میں بھی لکھا جِن میں البلاغ ، روز نامہ مشرق اور متعدّد جرائد شامل ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی کے پروگراموں بھی حصّہ لیتے رہے ۔کُچھ نثری کاوشوں پر پزیرائی بھی حاصل ہوتی رہی البتہ موزونیءِ طبع کی بنا پر شعر و سخن پر زیادہ توجّہ مبذول رہی۔ انہوں نے 15سال کی عمر میں شاعری شروع کی جس کا آغاز انہوں نے نعتیہ کلام سے کیا ۔ یوں تو وہ نظمیں اور متعدّد دیگر تخلیقات کی بدولت بھی خاصے سراہے جاتے رہے لیکن غزل گوئی ان کی پسندیدہ صنفِ سخن ہے۔
وسائل کی کمی کی بنا پر پہلے چھوٹے چھوٹے کتابچے شائع کرواتے رہے جنہیں بعد میں ہنگامِ جنوں،راز ونیاز اور یہ ہُوا کیا وغیرہ کی صورت میں شائع کروایا ۔ پیشے کے لحاظ سے وہ اسکول ٹیچر بھرتی ہوئے اور ترقی کرتے کرتے ہیڈ ماسٹر کے عہدے سے رٹائر ہوئے ۔
سب سے پہلے جو شعر ان کی پہچان بنا،وہ یہ ہے
زمیں خُود محوِ گردش ہے الٰہی
جہاں میں مشرق و مغرب کہاں ہیں
اگر چہ ان کی کچھ تحقیقات ریاضی، فزکس دیگر سائینسی دنیا میں بھی ہیں جِن کی افادیت تسلیم شدہ ہے تاہم اِن کا خیال ہے کہ اس وقت ہمیں عالمی امن کے قیام کی اشد ضرورت ہے اور ان کی نظر میں دیگر تمام مضامین کی نسبت ادب میں انسانیت کے فروغ امنِ عالم کے قیام کی زیادہ صلاحیت موجود ہے۔ اس کے پیش نظر ان کی نظمیں روحانی پیام، انسانی ضمیر بنام اقوامِ متّحدہ ، احساسِ زیاں اور سندیسا وغیرہ کے علاوہ رنگِ تغزّل میں ڈوبا ہوا ان کا ان گنت سِلسِلہ کلام۔
ان کا کہنا ہے کہ بینُ الاقوامی سطح سے لے کر ہمارے اپنے سماج تک فروغ ادب کی اشدّ ضرورت ہے بشرطیکہ ادب کے نام پر سوقیانہ احساسات اور سطحی جذبات کے پھیلاو پر قابو پایا جا سکے۔
آج کے قارئین ذہنی آبیاری اور اپنے من کو منّور رکھنے کی آرزو میں ہم لکھنے اور سوچنے والوں کے بڑی بیتابی سے منتظر نظر آتے ہیں۔
بے کل صاحب کُچھ عرصہ اپنے معتبر اورشہید استاد رئیس امروہوی سے فیضیاب بھی ہوتے رہے ۔اسی لیے وہ کہتے ہیں
دیکھ بے کل یہ ہے نگاہِ رئیس
ورنہ اُردو نہ تھی زباں میری
بے کل صاحب کا تعلّق اکیڈمی آف لیٹرز اسلام آباد سے بھی رہا ہے، ادبیات میں ان کا کلام شاملِ اشاعت بھی ہوا لیکن زلزلہ 2005 میں ان کی بیٹی طوبیَ بےکل شہید ہو گئی تھیں جو دُنیائے ادب میں ان کا دست راست رہی! تھیں چنانچہ ان کا عِلم وادب کے حوالے سے تگ و دو جمود کی صورت اختیار کر گئی۔ متقدّمین میں سے انہوں نے مرزا غالب اور داغ دہلوی کے مصرعوں پر کُچھ تزمینیں بھی باندھیں جو بہت مقبول ہوئیں۔
آمد کے تحت کہے گئے ان کے چند اشعار پیش ہیں:
تُجھ سے بِچھڑے ہُوئے ایسے بھی زمانے آئے
چاند ، تارے مِری پلکوں کو سجانے آئے !
ادبی مصروفیات کے علاوہ ان کا میدانِ فِکر و عمل حقائق تک پہنچنے کی سعی ءِ مسلسل ہے:
حقائق نے جنسِ گراں بخش دی
مجھی اپنی اپنی زباں بخش دی
بے کل صاحب کے خیال میں انسان نے علم کی تفہیم کو سہل کرنے کی خاطر اِسے مختلف مضامین میں تقسیم تو کر رکّھا ہے لیکن فی الواقع علم کبھی اندھوں کا ہاتھی نہ بن سکا۔
عصرِ حاضر میں ادب پروری کے دعوے داروں میں شاعری کی صِرف ظاہری وضع قطع پر زور آزمائی ہو رہی ہے اور کسی بھی شعر کی داخلی ہیئت کو پرکھنے پر توجّہ نہیں دی جارہی نتیجتہٙٙ شعر کی رُوح یعنی انٹلیکچوئل پراپرٹی کا بھی سہرا کوئی کاریگر اپنے سر باندھ لیتا ہے۔
تاہم انہیں اُمید ہے کہ ان شاءاللہ مستقبل میں اِس حوالے سے بھی کوئی کڑا معیار وضع کر دیا جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ
ادبی تنظیموں اور مشاعروں میں متشاعر، نقّال اور نام نہاد نقّاد دُنیائے ادب کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔
قارئین میں جس کا ذہنی اُفق جس حد تک بلند ہو گا وہ اُسی حد تک بالیدہ نظر اور جِدّت پسند ہو گا۔البتّہ بد قسمتی سے انسان جب ضرورت کے دائرے میں پھنس کر رہ جائے تو عظمت کے گیت گانا اُس کے بس کا روگ نہیں رہتا!
جب تک ہم خود کو عالمی سطح پر منوا نہیں لیتے، تمام تر تنوّع اور چاشنی کے باوجود اُردو زبان سے براہِ راست فیضیاب ہونے سے یہ دُنیا محروم ہی رہے گی، یہ الگ بات ہے کہ ہم جو بھی اچھوتا خیال پیش کریں وہ لمحوں میں دیسی یا بدیسی دیگر زبانوں میں ڈھال کر کسی اور نام سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔
ادب میں انتقادیات کی افادیت اور اہمیت سے اِنکار نہیں کیا جا سکتا لیکن فی الاصل یہ دُنیائے ادب کا ایک بالکل الگ اور غیر جانب دارانہ شعبہ ہے اور اِسے الگ ہی رکھا جائے شعرا تو ایک دوسرے کے کلام پر از راہ ادب پروری و حسبِ استعدا ایک دوسرے کو محض مشاورت بھری آرا سے نواز سکتے ہیں
بے کل صاحب کی شاعری سے ایک نمونہ کلام اور چند منتخب اشعار پیش خدمت ہیں ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غزل
مری ہر سوچ کہ ہے حسن نظر کے تابع
شاخ امید رہی پختہ ثمر کے تابع
میں نے دیکھی ہے تری زلف دوتا بھی لیکن
کٹ چکی رات ادھر وقت سحر کے تابع
سرد مہری کی گھٹاؤں کا نتیجہ افسوس
اپنی منزل بھی رہی راہگزر کے تابع
تم ہوئے دور تو احساس ہوا ہے مجھ کو
دل کی دھڑکن ہے فقط ایک خبر کی تابع
تری الفت نے تماشا بھی تو اک اور جہاں
زندگی ختم ہوئی یونہی سفر کے تابع
جب سے روٹھا ہے ادھر حسن دو عالم بے کل
تب سے دنیا ہوئی جاتی ہے بشر کے تابع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے کاش نظر آئے یہ تصویر مکمل
حاصل ہو اسی خواب کی تعبیر مکمل
نظارہ ء حق ہے یہی آوازہ ء جمہور
خوشحال ہو مولا مرا کشمیر مکمل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاش تو ہی مجھے آ کر یہ بتا دے اک دن
عشق ہوتا ہے تو کس طرح مکمل جاناں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے پتھر وہ تراشے کہ جو مسجود بنے
انگریزوں نے سدا جن کی عبادت کی ہے
عبدالرزاق بے کل