عبدالماجد دریا بادی ، دریا بُرد ہوا
جعفر بلوچ ایک ذہین ، بذلہ سنج اور پُرگو شاعر تھے۔ تحسین فراقی نے پی ایچ ڈی کیلئے مولانا عبدالماجد دریا بادی کا موضوع لیا تو جعفر بلوچ نے کہا
جب سے اے تحسین فراقی، تیرے سپرد ہوا
عبدالماجد دریا بادی ، دریا بُرد ہوا
یہ تو دو دوستوں کا آپس میں مذاق تھا ورنہ فراقی صاحب محنتی آدمی ہیں، بہت عمدہ مقالہ لکھہ کر ڈاکٹر بنے (ورنہ ایسے مقالوں پر بھی ڈگریاں ملیں جنہیں ڈاکٹر صاحبان باقی عمر چھپاتے رہے ) یہ بات یاد اس لئے آئی کہ کل مولانا عبد الماجد دریابادی کی برسی ہے ۔ میرے بچپن / لڑکپن میں ان کا اخبار گھر میں آتا تھا۔ ان کی سادہ زبان خاص طور پر ان کا روزنامچہ ان دنوں بہت اچھا لگتا تھا۔
عبد الماجد دریابادی 16 مارچ 1892 کو دریاباد،ضلع بارہ بنکی، بھارت میں ایک قدوائی خاندان میں پیدا ہوئے۔ اُن کے دادا مفتی مظہر کریم کو انگریز سرکار کے خلاف ایک فتویٰ پر دستخط کرنے کے جرم میں جزائر انڈومان میں بطور سزا کے بھیج دیا گیاتھا۔ عبد الماجد دریا بادی بہت سی تنظیموں سے منسلک رہے۔ اِن میں تحریک خلافت، رائل ایشیاٹک سوسائٹی،لندن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، ندوۃ العلماء، لکھنؤ، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ شامل تھیں۔ عبدالماجد دریاآبادی نے انگریزی کے ساتھہ ساتھہ اردو میں بھی ایک جامع تفسیر قرآن لکھی ہے۔ اُن کی اردو اور انگریزی تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ تفاسیر اسلام پر عیسائیت کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات کو سامنے رکھتے ہوئے لکھی اور اعتراضات رد کرتے ہوئے بائبل اور مغربی مستشرقین کی کتابوں سے دلائل دئیے ۔ انہوں نے 6 جنوری 1977 کو وفات پائی۔ انہوں نے تفسیر ماجدی میں سورۃ یوسف کے آخر میں لکھا کہ اٹھاونویں پشت پر جا کر ان کا شجرہ نسب لاوی بن یعقوب سے جا ملتا ہے۔
مولانا عبدالماجد دریا بادی کی کتابیں
فلسفہ اجتماع یعنی جماعت کی دماغی زندگی کی تمثیل و تشریح
فلسفہ جذبات
فی ما فی ملفوظات محمد جلال الدین رومی و تبصرہ
مردوں کی سیمائی
مضامین عبدالماجد دریابادی
محمد علی کی ذاتی ڈائری
تفسیر قرآن، تفسیر ماجدی، جلد 1، 2، 3 (چوتھی جلد بھی آچکی ہے، لیکن مولانا کے قلم سے نہیں ہے۔)
وفیات ماجدی یا ناشری مرثیائی
تفسیر القرآن، انگریزی
بشریت انبیاء علیہ السلام
حکیم الامت
آپ بیتی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“