::: بلوچستان کے اولیں چھاپہ مار ( گوریلا) علم بغاوت بلند کرنے والا عبد الکریم بلوچ :::
بلوچستاں میں قیام پاکستان کے بعد وقفے وقفے سے بلوچستان کی محرومیوں کو اٹھاتے ہوئے چھوٹی بڑی تحریکیں چلیں۔ جن میں چند متشدد بھی تھیں۔ جیسے ایوب خان کے زمانے میں نواب نوروز کی مسلح بغاوت اب بھی لوگوں کو یاد ھو گی۔ ان میں پرنس عبد الکریم بلوچ کا نام سر فہرست ھے۔
شہزادہ عبدالکریم نے مئی، 1950 میں بلوچستاں کےضلح جھالاوان میں پاکستانی افواج کے خلاف مسلح چھاپہ مار کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔ اور عبد الکریم کو پاکستانی فوج کے حکام کی طرف انتقامی کارروائیوں کی دھمکیاں دی گی اور ان کے بھائی کو پاکستان آرمی نے محفوظ طرز عمل اور عام معافی کی یقین دہانیوں کے ساتھ ہتھیار ڈالنے کے لئے آمادہ کرلیا تھا۔. پاکستانی فوجی افسران عبد الکریم نمائندوں کے ساتھ ایک محفوظ یاداشت/ معاہدے پر دستخط کئے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے قرآن پاک پر حلف بھی اٹھایا۔. تاہم، 1950 میں پاکستانی افواج نے عبد الکریم کو قلات کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے ان کے 102 آدمیوں گرفتار کرلیا گیا۔ اس کی دو بڑی وجوہات بلوچ تاریخ میں اہم ہیں۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ ان کی جانب سے معاہدوں سے مکر جانا تھا۔ . کیونکہ بلوچ پاکستان کے ساتھ قلات کے الحاق کو قبول نہیں کرتے تھے۔ اور اس فیصلے کو بلوچستاں کے لیے تباھی کا سبب تصور کرتے تھے۔ . دوسری وجہ یہ تھی کہ پاکستان نے محفوظ کنڈکٹ معاہدے کے باوجود بلوچوں کو دھوکہ دیا تھا اور اس کا نتیجہ بلوچستان میں نئی سیاسی جدوجہد اور مسلح بغاوت کی صورت میں سامنے آیا۔ یوں بلوچیوں اور اسلام آباد کے درمیان بد اعتمادی اور تعلقات میں تلخی پیدا ہوئی۔ اور تمام معاہدے ٹوٹ گئے . پھر پرنس کریم اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کرکے ان سب کوطویل مدت کی قید کی سزا سنائی گئی۔ اس کے بعد 6 اکتوبر 1958 میں قلات کی جانب بلوچی باغیوں نے پیش قدمی کی جسے فوج نے کچل دیا۔ اس مزاحمت کی ناکامی کے بعد اس میں شامل بہت سے لوگوں نے افغانستان میں پناہ لی۔
۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔