::: برصغیر کے انقلابی ، ماوسٹ اور محنت کش رہنما : عبد الحمید بھاشانی ۔۔۔۔۔ { کچھ یادیں} :::
============================================
::: مولانا عبدالحمید بھاشانی (12 دسمبر 1880-17 نومبر 1976} محنت کش ،،ماوسٹ یسساریت اور مزاحمت پسند، کھرے سیاسی رہنما۔ سراج گنج ضلع پٹنہ ’’بہار، بھارت‘‘ میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام شرافت علی خان تھا۔ 12 سال کی عمر میں مشرقی بنگال کے علاوہ تانگیل میں سکونت اختیار کی۔ کچھ عرصہ بعد آسام منتقل ہوگئے ۔ 1907 اور 1909 کے درمیان انہوںنے مکتبہ دیوبند سے مذہبی تعلیم حاصل کی۔ محمودالحسن (شیخ الہند) اور دوسرے ترقی پسند مسلمان مفکروں سے وہ بڑے متاثر ہوئے اور انہی کی وجہ سے وہ برطانوی استعمار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ 1909 میں انہوں نے ایک پرائمری سکول میں پڑھانا شروع کیا۔ اور جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینا شروع کیا۔ 1919ء میں محمد علی جوہر سے متاثر ہوکرتحریک خلافت میں شامل ہوگئے اور 18 ماہ قید و بند میں گزارے۔
1948 میں، مولانا بھاشانی نے طلباء کی زبان کی تحریک کے رہنما کی صورت میں ابھرے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ پاکستان میں بنگلہ اور اردو زبان کو یکساں طور پر تسلیم کیا جائے مگر پاکستان کی حکومت اکثریتی بنگلہ زبان کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دینے پر آمادہ نہیں ہوئی ۔ تو مولانا مسلم لیگ سے ناطعہ توڈ کر " قوم پرست {بنگالی} عوامی لیگ کے نام سے نئی سیاسی تشکیل دی۔ مگر اس سے 1949 میں علیحدہ ہوگئے۔ جس کے پہلے صدر وہ خود بنے اور اس کے جرنل سکریٹری شمس الحق بنے۔ اس جماعت کو پاکستاں کی پہیلی منظم حزب اختلاف کہا گیا۔ وہ بنیادی طور پرسوشلسٹ عوامی لیڈر تھے۔ آسام سے ان کی سیاست کا آغاز بھی کسانوں کی تحریک سے ہوا۔ شروع میں وہ کسانوں کی تحریک کو اسلامی طریقے سے چلانے کی کوشش کرتے رہے البتہ تجربے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ سیاست تو سیکولر ہی ہو سکتی ہے کیونکہ آسام اور بنگال صوبے میں ہندؤں کی بھی بڑی تعداد تھی۔ 1952ء کی ’’زبان تحریک‘‘ کے دوران مسلم لیگ کی حکومت خاصی حد تک اپنی مقبولیت کھو چکی تھی۔ 1954ء میں جگتو فرنٹ نے مسلم لیگ کو انتخابات میں شکست دے دی اور اس کے رہنما نورالامین بھی ہار گئے۔ا س کے بعد مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ نے حکومت قائم کر لی۔ تاہم اس حکومت کو بعد میں برطرف کر دیا گیا۔ مولانا بھاشانی کا کیرئیر مختلف تنازعات کا شکار رہے اور ان سے اختلاف کرنے والے آج بھی موجود ہیں۔ مگر وہ اپنی بات بڑی سچائی اور بھید بھاو کے بغیر کہتے تھے۔
19اپریل 1954کو جب امریکہ سے دفاعی معاہدہ ہوا تو مولانا بھاشانی نے اس کی سخت مخالفت کی
جب 1956 میں نیشنل عوامی پارٹی کا قیام عمل میں آیا تو وہ قوم پرست رہنما جو سامراج دشمن تھے نیشنل عوامی پارٹی میں شریک ہوگئے اس موقعے پر زیر زمین کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رہنماؤں نے نیشنل عوامی پارٹی کو عوام سے رابطے کا ذریعہ بنایا کیونکہ نیشنل عوامی پارٹی ایک ایسا محاذ تھا جس میں تمام ترقی پسند فکر کے لوگ بھی شریک تھے اور حقیقی معنوں میں ملک کی بہت بڑی سیاسی قوت بھی تھی۔ عبدالولی خان سرخ پوش رہنما عبدالغفار خان کے صاحب زادے نیشنل عوامی پارٹی مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان کے صدر بنے جب کہ مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش کے مولانا عبدالحمید خان بھاشانی صدر بنے۔
مولانا بھاشانی ایک شعلہ بیان مقرر تھے جو جوش کے باوجود ہوش کا دامن تھامے بھی رکھتے تھے یہ ان کے اندر کی سچائی تھی جوکہ سر چڑھ کر بولتی تھی۔ مولانا بھاشانی یہ خوبی بھی تھی کہ ان کے سامنے ہزاروں کا ہجوم ہو یا کوئی فرد واحد وہ اپنی بات پر سامنے والے کو با آسانی قائل کرلیتے تھے ۔ پاکستان بنتے ہی مولانا بھاشانی نے جو کہ ایک بڑے بنگالی لیڈر تھے پاکستان سے الگ ہونے کی کوششیں شروع کر دیں شیخ مجیب ان ہی کے شاگرد تھے۔ ان کے یہ الفاظ کافی مشہور ہو گئے تھے کہ " پاکستان کو خدا حافظ "
مولانا بھاشانی کی شخصیت بڑی طوفانی تھی۔ اتنی طوفانی کہ وہ اکثر خود ہی اس کی زدمیں آ جایا کرتے تھے۔ کالی رنگت تھی ،وہ آتش زیرپا رہتے تھے،خود کو درویش ظاہر کرنے کے لیے وہ تنکوں کی ٹوپی، کھدر کا کرتہ اور کم قیمت لنگی باندھا کرتے تھے،کھانے پینے کا انہیں کوئی خاص ذوق و شوق نہیں تھا، وہ چٹائی پر سویا کرتے تھے اور خوب پیدل چلا کرتے تھے،پانچوں وقت کے نمازی تھے۔ انہوں نے کبھی بھی کسی انتخاب میں حصہ نہیں لیا اور نہ وہ الیکشن کے قائل تھے، انہیں شادیاں کرنے کا شوق تھا، آخری شادی انہوں نے 1967ء میں اس وقت کی جب وہ نظربند تھے، ان کی حالت بگڑ گئی تو فوری طور پر اعلیٰ ڈاکٹروں کا ایک بورڈ بیٹھا جس نے مولانا میں ایک عجیب و غریب مرض کی علامات دریافت کیں جس کا ایک ہی علاج تھا اور وہ یہ کہ حضرت مولانا ازدواجی زندگی بسر کریں چنانچہ مولانا کی رہائی عمل میں آ ئی اور انہوں نے اپنے کسی عقیدت مند کی بیٹی سے شادی کرکے ازدواجی زندگی کا نیا دور شروع کیا۔ اس سے قبل مولانا نے جو شادیاں کی تھیں اس سے ان کے بیٹوں، پوتوں اور نواسوں کی تعداد پینتالیس کے لگ بھگ تھی،{ بدر منیر، درخشان پاکستاں}۔ مشرقی پاکستان میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔ مغربی پاکستان میں بھی ان کا اثرورسوخ بڑھ رہا تھا۔ تحریک کے عروج پر مولانا بھاشانی کو بیجنگ بلایا گیا جہاں ایوب خان کے دوست اور فوجی آمریت کے حلیف ماؤزے تنگ نے اپنے پیروکار کو تحریک سے دستبردار ہونے کا حکم دیا۔ مشرقی بنگال لوٹ کر بھاشانی اپنی کشتی والی رہائش گاہ میں چلے گئے اور پھر خاصے دنوں منظر عام پر نہ آئے۔ مولانا عبدالحمید بھاشانی نے1969میں اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ"وہ (سی آئی اے )یہاں پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کے فارمولے پر عمل کر رہی ہے۔ہمارا ملک غریب ہے ۔ تھوڑا پیسا مل جائے تو ایجنٹ بن جاتے ہیں۔ہم نے ایشیا افریقہ میں کئی سامراج دیکھا ، مگر امریکہ جیسا مریکہ سامراج آج تک نہیں دیکھا،وہ تو چاہتا ہے کہ ہم سب مقروض رہیں، اس ملک میں رہیں لیکن اس کا غلام بن کر رہیں۔ یہ تو استحصال { exploitation} میں برطانوی سامراج سے بھی آگے بھی بڑھ گیا ہے۔ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ ایسی پالیسیوں اور اعمال سے خود امریکہ میں زلزلہ پیدا ہوگا اور ایسا خوفناک کہ شاید خدا امریکہ میں اپنا حساب کتاب اس دنیا میں ہی ختم کردے۔ سی آئی اے /CIA کے بارے میں ایک بیان میں دے چکا ہوں اور میرے پاس اس کا مسودہ محفوظ ہے جس میں سی آئی کے مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کا منصوبہ درج ہے۔سی آئی اے نے مختلف سیاسی عناصر اور افسروں کی مدد سے مشرقی پاکستان سے مشرقی پاکستان ، بھوٹان ، آسام کو ملا کر ایک خود مختار ملک بنانے کے لئے یکم اگست 1969ء کی تاریخ مقرر کی تھی۔ اس کے لئے وہ کئی برس سے سرگرم کار تھی لیکن بین لاقوامی معاملات اور کچھ پاکستان کے اندرونی حالات کے باعث اس کا یہ منصوبہ شرمندہ تکمیل نہ ہوسکا۔"مولانا عبدالحمید بھاشانی 1969ء میں جب یہ انٹرویو دے رہے تھے تو شاید انھوں نے بھی مستقبل کا آئینہ دیکھ لیا تھا کہ مشرقی پاکستان کو توڑنے والے خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ 1970ء میں مشرقی پاکستان کے علیحدگی پسندوں کے ساتھ مل گئے اور بنگلہ دیش کی تشکیل میں شیخ مجیب الرحمن کی بھرپور مدد کی۔ مشرقی پاکستان میں باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی کے نتیجے میں باغیوں کا جو پہلا جتھا فرار ہو کر بھارت پہنچا اس میں بھاشانی بھی شامل تھے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد واپس آگئے اور ملکی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔یومِ شوکت اسلام:بنگلہ دیش (سابقہ مشرقی پاکستان)کے اشتراکی رہنما مولانا بھاشانی نے یکم جون 1970ء کو پورے ملک میں اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے لیے اعلان کیا تب سید مودودی نے اسلام کی عظمت و شوکت کا جھنڈا بلند کرنے کے لیے پورے ملک میں “یومِ شوکتِ اسلام” منانے کا اعلان کیا۔ اور 31 مئی 1970ء کو ملک بھر میں بڑے پیمانے پر شوکتِ اسلام مظاہرہ ہوا اور سینکڑوں جلوس نکالے گئے۔یومِ شوکت اسلام:بنگلہ دیش (سابقہ مشرقی پاکستان)کے اشتراکی رہنما مولانا بھاشانی نے یکم جون 1970ء کو پورے ملک میں اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے لیے اعلان کیا تب سید مودودی نے اسلام کی عظمت و شوکت کا جھنڈا بلند کرنے کے لیے پورے ملک میں “یومِ شوکتِ اسلام” منانے کا اعلان کیا۔ اور 31 مئی 1970ء کو ملک بھر میں بڑے پیمانے پر شوکتِ اسلام مظاہرہ ہوا اور سینکڑوں جلوس نکالے گئے۔ اکتوبر 1976ء میں پیرانہ سالی کے سبب عملی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ شعلہ نفس اور سیماب طبع بزرگ تھے۔ میں نے 1968 مین کراچی میں مولانا بھاشانی کے ساتھ کراچی کی غوثیہ مسجد میں نماز پڑھی اور ان کی انقلابی باتیں بھی سنی۔ جس میں پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے خلاف زہر بھرا ہوا تھا۔ اور لانڈھی میں انقلابی مزدور رہنما اقبال پیارے بھائی کے گھر میں ان کے ساتھ ایک نشت بھی ہوئی تھی۔ جیاں مولانا بھاشانی ٹھرے ہوئے تھے۔ مولانا بھاشانی کی وفات ڈھاکہ میں 95 سال کی عمر میں ہوئی ہوئی۔ اور وہ سنتوش، بنگلہ دیش، تنگیل، بنگلہ دیش میں آسودہ خاک ہوئے۔۔۔۔
……….
** پس نوشت**
===========
مارچ 1969 میں مولانا بھاشانی ڈی ایم سی کی عوامی میٹنگ میں شرکت کرنے کے لیے کراچی تشریف لائے تھے۔ یہ میٹنگ کراچی کے ڈو میڈیکل کالج میں ہوئی تھی۔ تصویر میں مولانا بھاشانی کے ساتھ نیشنل اسٹوڈنس فیڈریشن { این ایس ایف} کے صدر ڈاکٹر رشید حسن خان مرحوم نظر آرہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس تقریب میں معراج محمد خان، محمود خان مودی، مہناج برنا، علی مختار رضوی اور بائین بازوں کے سیاسی کارکناں کے علاوہ صحافی اور یسساریت پند دانشور بھی موجود تھے۔ یہاں میری مولانا بھاشانی سے آخری ملاقات ہوئی تھِی :::***
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔