وطن سے دور دیار غیر میں رہنے والوں کے شب و روز اور خوشی و دکھ بھی عجیب ہوتے ہیں ۔ وہ جس کرب سے گزرتے ہیں یا ان کا جو مشاہدہ ہوتا ہے وہ ان کو ہی پتہ ہوتا ہے اور جب کوئی ادیب یا شاعر ایسے حالات سے گزر رہا ہو تو ان کا انداز بیاں کچھ اور ہی ہوتا ہے ۔ وطن عزیز پاکستان کے لاکھوں کی تعداد میں شہری دیار غیر میں مقیم ہیں ان میں جو ادیب و شاعر اور صحافی ہوتے ہیں ان کی سوچ اور احساسات اور دیگر شہریوں کی سوچ میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے ۔ مسقط اومان میں مقیم لاہور پاکستان کے نوجوان شاعر عبدالعزیز، عزیز صاحب بھی ایسے شعراء میں سے ایک حساس شاعر ہیں ان کو گھر اور گھر سے باہر رہنے کی کیفیت کا ذاتی تجربہ حاصل ہے ۔ اس لیے وہ نہ صرف اپنی ذات کےلئے بلکہ پرندوں، چاند تاروں اور تمام انسانوں کے گھر کے بارے میں سوچتے اور سپنے دیکھتے ہیں ۔
عبدالعزیز صاحب 1988 کو لاہور میں پیدا ہوئے ان کے والد صاحب کا نام محمد ہے ۔ قلمی نام عبدالعزیز عزیز ہے ۔ وہ میٹرک تک تعلیم حاصل کر سکے ہیں ۔ انہوں نے 15 سال کی عمر میں شاعری شروع کی ۔ عبدالحکیم ناسف صاحب اور ارشد عباس ذکی صاحب شاعری میں ان کے استاد ہیں ۔ عزیز صاحب کی شاعری کی پہلی کتاب "ہمارے خواب تمہارے خواب " کے نام سے 2014 میں جاسم پبلیکیشنز لوئر مال اردو بازار لاہور سے شائع ہوئی ہے ۔ عزیز صاحب کی شاعری ہر طرح کے موضوعات کا احاطہ کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ ان کی شاعری میں دکھ درد، یاس و حسرت ،مسائل و مشکلات اور امید، سب کچھ خوب صورت اور متاثر کن انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہاں پر ان کی شاعری سے نمونے کے طور پر 2 کلام پیش کیئے جا رہے ہیں ۔
غزل
پُھول ہر سُو کھلے تھے سپنے میں
پیار سے دل ملے تھے سپنے میں
پیڑ سے اُڑ گئے پرندے بھی
چار تنکے ہلے تھے سپنے میں
بام پر رات کیوں نہیں ٹھہرا
چاند تم سے گِلے تھے سپنے میں
شہر بھر میں پھرے ہے آوارہ
لوگ کہنے لگے تھے سپنے میں
بیٹھ کر اک اُڑن کھٹولے پر
چاند تک ہم چلے تھے سپنے میں
دُور سے لوگ پاس آتے رہے
کیا عجب سلسلے تھے سپنے میں
بات وہ بھی عزیز کر نہ سکی
لب مرے بھی سِلےتھے سپنے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیں دریا کے کنارے گھر
نہ بہہ جائیں یہ سارے گھر
کہاں پر کوگ رہتے ہیں
ہوئے ویراں بچارے گھر
داسی ایک جیسی ہے
ہمارے گھر تمہارے گھر
بہت معصوم بچوں کو
یہ قاتل بھوک مارے گھر
یہ بازی سانس کی بازی
یہ بازی آج ہارے گھر
خدا کو آج دیکھا ہے
خدا کا روپ دھارے گھر
شب غم کاٹ لی ہم نے
چلے ہیں چاند تارے گھر
نہ کاٹو پیڑ رہنے دو
پرندوں کو ہیں پیارے گھر
بچھے ہیں نین راہوں میں
کبھی آو ہمارے گھر
چلو اب لوٹ جاتے ہیں
عزیز اپنا پکارے گھر
عبدالعزیز عزیز