11 ستمبر 1999 کو 14عباسیہ فیلڈ رجمنٹ آرٹلری میں کرنل آف دی رجمنٹ کی تقریب منعقد ہوئی۔ ریاست ہائے متحدہ اگوکی میں جشن کا سا سماں تھا کہ گوجرانوالہ اور سیالکوٹ چھاؤنیوں سے سرخ فیتہ بردار کمانڈروں نے اجلاس فرمایا تھا۔
فارمیشن کے افسروں اور یونٹ کے جوانوں سے کھچا کھچ بھرے پنڈال میں ایک اونچے سٹیج پر جس کا خوبصورت پس منظر میجر نقوی کا ڈیزائن کردہ تھا، کورکمانڈرگوجرانوالہ اور بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمد اقبال ملک نے بریگیڈیئر جاوید اقبال ملک کے کندھوں پر نئے کرنل آف دی رجمنٹ کے رینک لگائے۔
بعد ازاں ہر تین اور یونٹ کے سی او لیفٹیننٹ کرنل گوندل نے تقریب کے شرکاء سے خطاب کیا۔
اس مبارک موقعے کی مناسبت سے یونٹ کےافسروں اور جوانوں سے دونوں بریگیڈیئر صاحبان اور یونٹ کے کمانڈنگ آفیسر کے خطاب کی تقاریر کا متن لکھنے کی ذمہ داری یونٹ ایڈجوٹنٹ کیپٹن بخاری کی تھی
ہم اردومیں کسی حدتک درک رکھنےکےسبب انکی راست امدادمیں تھے۔ اپنےمولاناحسرت موہانی اسیری کےدنوں کی یاد میں کہہ گئے تھے
ہے مشق سخن جاری، چکی کی مشقت بھی
صاحبو، ڈرافٹ در ڈرافٹ، اوپر نیچےتین عدد فوجی تقریروں کی کانٹ چھانٹ، تلفظ کی درست ادائیگی کےلیےدرست اعراب کا باریک بینی سے اندراج اورنظرِثانی وثلاثہ وچہارم کےدوران ان کی درستگی۔ سچ بتائیں تویہ خامہ فرسائی کسی چکی کی مشقت سےکم نہ تھی
اگوکی میں سجےپنڈال میں اپنی چکی کی مشقت کاپھل سُنتے دیگر شرکاء تقریب کےساتھ ہم بھی بیٹھےہیں۔ سب سےبائیں سرالیاس سیتاپوری ہیں اوران کےساتھ بغل والی نشست پرراقم الحروف متمکن ہے
بعدازاں یونٹ کوارٹر گارڈ نے نئے کرنل آف دی رجمنٹ کو سلامی دی۔ کرنل آف دی رجمنٹ کی اعزازی پوسٹ بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمد اقبال ملک سے انہی کے سپوت بریگیڈیئر جاوید اقبال ملک کو منتقل ہورہی تھی۔ ایک لمبے چوڑے قدکاٹھ والے بریگیڈیئر جاوید اقبال کیریئر افسر تو تھے ہی،
اسوقت ملٹری سیکرٹری ٹوپرائم منسٹربھی تھے۔ وزیرِاعظم نواز شریف کاقرب اپنی جگہ، عباسیہ ان میں آنےوالےدنوں میں یونٹ کا پہلاجرنیل دیکھ رہی تھی۔
کسےمعلوم تھاکہ حالات اچانک پلٹاکھاجائیں گےاوراہلِ وطن 12 اکتوبرکی اندھیری رات ’میرے عزیز ہم وطنو!‘ والا آموختہ ایک بار پھر سُن رہے ہوں گے۔
بیک وقت چیف ایگزیکٹواسلامی جمہوریہ پاکستان، چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی اورچیف آف آرمی سٹاف کےتگنےعہدوں پرفائز جنرل پرویزمشرف کاکہناتھا کہ اول تو فوج کو اقتدار کی کوئی خواہش نہیں ہے، دوم یہ کہ آئین عارضی طورپر التوامیں ہےاور مزید یہ کہ جو انہوں نےلگایا ہےوہ مارشل لانہیں ہے
بلکہ جمہوریت کی جانب ایک قدم ہے۔ فرمودات تو اور بہت سے تھے مگر اب وہ قصۂ پارینہ ہیں اور دیکھیے انہیں کھنگالنے میں ہم بھی موضوع سے ہٹے جاتے ہیں۔
صاحبو 12 اکتوبر رات گئے کمانڈو وردی والی اس تقریر سے پہلے جس میں مسلح افواج کےقوم کو کبھی مایوس نہ کرنے کا عہد تھا ،
ابھی شام ہی تھی جب شہرِ اقتدارکے پڑوس سے ٹرپل ون بریگیڈ کے اربابِ اختیار وزیرِ اعظم اور ٹیلیویژن سٹیشن کو تحویل میں لینے پہنچے تو کچھ یوں ہوا کہ ایم ایس ٹو پرائم منسٹر بریگیڈیئر جاوید اقبال ملک کا ریوالور آئینِ پاکستان کی حفاظت کی خاطر بلند ہوگیا۔
اٹک جیل کی کال کوٹھڑیوں کےباسیوں میں ایک حاضر سروس فوجی کا اضافہ ہوگیا اور جب کچھ نہ بن پڑا تو ایک پریشانی کے عالم میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ اقبال اگوکی میں اسی عباسیہ کے دفتروں میں آئے جہاں کچھ دن پہلے ایک اعزازی تقریب منعقد ہوئی تھی۔
یونٹ کے کمانڈنگ آفیسر کے پاس تسلی کے چند الفاظ کے علاوہ بریگیڈیئر صاحب کے لیے کچھ نہیں تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ یونٹ کے افسروں کا مین حیث البٹالین اس پر اتفاق تھا کہ بریگیڈیئر جاوید نے بے وقوفانہ حد تک صورتحال کا غلط تخمینہ لگایا اور اب اس کا ٹھیک خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
آپ سے جھوٹ کیوں بولیں ہمارا اپنا بھی یہی نکتۂ نظر تھا۔ دنیا کی ریت ہے جو لوگ وقت پڑنے پر تاریخ کی درست سمت کھڑے ہوں وہ اس کی بھاری قیمت ادا کرتے ہیں۔ بریگیڈیئر جاوید اقبال اسی رینک میں جبری ریٹائر کردیئے گئے۔ صاحبو بارہ اکتوبر کی رات میرے عزیز ہم وطنو والی تقریر ہم نے بھی لکیر کے اِس طرف ہی کھڑے ہو کر سُنی تھی اور جب چیف نے کہا
Your armed forces have never and shall never let you down
تو ہم نے بھی ہاتھ میں پکڑی ملٹری اسٹک اپنی خاکی پتلون کی کلف زدہ کریز پر مارتے ہوئے باآوازِبلند انشاء اللہ کہا تھا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...