اب عباس ٹاون کے جانب جاتی ہوئی ابوالحسن اصفانی شاہراہ پر سخت چیکنگ ہو رہی ہے۔اور جب وہاں کے مکینوں تلاشی لی جاتی ہے تو بہت سارے افراد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ روح کا زخم بن کر ابھر آتی ہے۔ گویا ان کی مسکراہٹ کہتی ہے کہ ’’تم اس وقت کہاں تھے جب وہ بارود سے بھری گاڑی ریت اور سیمنٹ سے بنی ہوئی اس بستی میں داخل ہو رہی تھی جو اس وقت درد کی چبھتی بو لیے کھنڈر بنی کھڑی ہے‘‘ اب جہاں نوحے بج رہے ہیں وہاں بچوں کی ہنسی کے معصوم ساز گونجا کرتے تھے۔ مگر اب وہاں کچھ نہیں۔ اور بہت کچھ باقی بھی ہے۔ وہ گیلریاں نہیں جہاں پر بچے ایک دوسرے سے بلند آواز باتیں کیا کرتے تھے۔ہمیں نہیں معلوم کہ عباس ٹاؤن کے سامنے والے سڑک پر پھول بیچنے والا مذدور زندہ بھی ہے یا نہیں۔ حالانکہ اس کے پھولوں کی دوکان عباس ٹاؤن سے کچھ فاصلے پر ہے مگر کیا معلوم وہ کوئی چیز لینے گیا ہو اور ابھی تک نہ لوٹا ہو۔ اور دھماکے کے بعد مردہ پھولوں کی سیمفنی کے سروں تلے دب گیا ہو؟
ہمیں کیا پتہ؟ ہم تو قاتلوں کو نہیں جانتے ہم مقتولوں کو کیا جان پائیں گے؟
کوئی سنی تھا۔ کوئی شیعہ تھا۔ کوئی سندھی تھا کوئی پنجابی اور کوئی وہ جس کے آگے ’’اردو بولنے والا ‘‘ لکھا جاتا ہے۔ وہ اس جگہ سب اردو بولا کرتے تھے۔مانا کہ وہ ثقیل اردو نہیں تھی۔ وہ عوامی اردو تھی۔ کراچی کی شہری زبان۔ نت نئے محاوروں سے آراستہ مختلف لہجوں کی لگاوٹ سے پھلتی پھولتی عوامی اردو۔ مگر اب وہاں نوحوں کی صورت صرف درد کی زباں بول رہی ہے اور وہ سب لوگ چپ ہیں جو کبھی بہت زیادہ بولا کرتے تھے۔وہ آنکھیں کہاں ہیں جو کہا کرتی تھیں کہ ’’مجھے بولنے سے مت روکو۔ کبھی ایسا خاموش ہوجاؤں گا کہ چیختے رہ جاؤ گے‘‘ اب وہ چیخ رہے ہیں بچوں کے شور پر نہیں مگر ان کی اس خاموشی پر جو ناقابل برداشت ہے۔
مائیں ہمیشہ کہتی رہتی ہیں کہ بچے کو سلانا بہت مشکل ہوا کرتا ہے۔ مگر عباس ٹاؤن کی ماؤں سے پوچھو وہ کہیں گی کہ ’’بچے کو اٹھانا نامکن ہے‘‘اس بچے کو جو ماں کی آغوش سے اچھل کر موت کی آغوش میں سوگیا۔
ہر ماں اپنے بچے کو سلانے کی لیے لوری گاتی ہے۔ مگر عباس ٹاؤن کے مقتول بچوں کی مائیں بچوں کو اٹھانے کے لیے لوریاں گا رہی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ انسان بیج نہیں کہ مٹی سے پھوٹے۔ مگر وہ پھر بھی گائے جا رہی ہیں کہ:
’’اٹھو اب ماٹی سے اٹھو
جاگو میرے لال‘‘
وہ لال جو اپنے لہو کی چادر تانے سو رہے ہیں اور اماں اکیلی جاگ رہی ہے۔
وہ اماں کیسے سوئے جس کا لال وادی حسین کی ویران تنہائی میں سو رہا ہے؟ وہ لال جس نے ابھی بولنا نہ سیکھا تھا مگر اماں اس کی ہر بات سمجھا کرتی تھی اور اس ملک کے ہر کونے میں موجود وادی حسین میں ایسے لال بھی سوئے ہیں جو کمسن نہ تھے۔ جو ابھی ابھی بڑے ہوئے تھے مگراپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنے لگے تھے۔ وہ آزاد نوجوان جن کے پیروں میں ابھی پیار کی بیڑیاں نہیں پڑیں تھیں۔ جو کہا کرتے تھے کہ ’’ہم شادی نہیں کرینگے‘‘جو بہت بولتے تھے اور اماں کو ان کا ایک لفظ بھی پلے نہ پڑتا تھا۔ ان کی خاموشی بہت تکلیف دے رہی ہے؛ ان ماؤں کو جنہوں نے بچوں کو اپنی کوکھ سے اس لیے جنم نہیں دے تھا کہ وہ ایک آگ کا شعلہ بن کر ہمیشہ کے لیے بجھ جائیں!!
اتوار کی شام کے بعد اب کے ای سی عباس ٹاؤن کی بجلی بند نہیں کرتی۔مگر اب کیا فاعدہ؟ جب بچے گرمی کی وجہ سے سو نہیں سکتے تھے۔ تب تو بجلی آتی نہیں تھی اور اب جب بچے منوں مٹی کے تلے سوئے ہیں تب بجلی چوبیس گھنٹے چل رہی ہے۔کیوں؟ کیا وہ ٹوٹی ہوئی بالکنیاں دکھانے کے لیے جہاں پھولوں کے پاس پھولوں سے زیادہ حسین اور نازک بچیاں اپنی کلاس فیلوز کے ساتھ دیر تک باتیں کیا کرتیں تھیں۔اب وہاں پر صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ کہاں ہیں وہ دروازے جن کے کھلنے اور نہ کھلنے پر جھگڑے ہوا کرتے تھے۔کہاں ہیں وہ کھڑکیاں جو اکثر بند رہے کرتی تھیں۔ اب وہاں پر کچھ نہیں ہے۔ اب زندگی کے اجڑے ہوئے وجود پر لہو سے چپکنے والا وہ پیرہن پڑا ہوا ہے جس کی جیب کو رفو کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
عباس ٹاؤن کے مکین اتنے امیر نہیں تھے۔ اگر امیر ہوتے تو سہراب گوٹھ کے قریب سکونت پزیر نہ ہوتے۔ وہ تلاش کرتے کلفٹن کا ایک ایسا فلیٹ جس میں سمندر کی ہوا ترقی کے ساحل کا پتہ دیتی ہے۔مگر وہ لوگ غریب تھے۔ جو بچپن سے ’’شام غریباں‘‘ سن کر آنکھوں کو بصارت کی آخری بوند تک نچوڑا کرتے تھے۔اور ان غریبوں پر ایک قاتل شام ایسی بھی آئی کہ کراچی کے ساری سڑکیں نہر فرات بن گئیں اور اس کے کنارے پڑی رہیں ان کی لاشیں جو اپنی زندگی میں ’’لکھ لٹ‘‘ لوگ تھے ۔ جو وفادار تھے۔ سراپا محبت و ایثار تھے۔ جنہیں دیکھ کر زندگی سے پیار سا ہوجاتا تھا۔اب وہ لوگ وہاں نہیں۔ وہ سب وادی حسین کے اس مٹی میں مدفون ہیں جو فقیر کے کشکول کی طرح بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
عباس ٹاؤن میں سے رشتہ صرف ان لوگوں کا نہیں تھا جو سارے رشتوں کے قید سے آزاد ہوکر ایسے سو رہے رہیں جیسے جانتے نہ ہوں۔ پہچانتے نہ ہوں!! مگر عباس ٹاؤن کو وہ لوگ بھی پہچانتے ہیں جو اب وہاں نہیں رہتے۔ جو کہتے ہیں کہ ’’ہم بدقسمتی سے نکل گئے‘‘ وہ لوگ جو یہاں پیدا ہوئے تھے۔ جن کے لیے عباس ٹاؤن ایک ایسا شہری گاؤں تھا۔ جس میں ایک مخصوص مہک ہوا کرتی تھی۔ جس کے چنے پاپڑی کی لذت الگ ہی ہوا کرتی تھی۔جس کی بریانی بہت لذیذ تھی اور جس کی دوپہر بہت ظالم اور جس کی شام بہت مہرباں ہوا کرتی تھی۔
مگر اب کچھ نہیں ہے۔
اب اگر ہے تو عباس ٹاؤن کے باسیوں کے رخساروں پر اڑتی ہوئی ریت جیسے احساسات کا وہ منظر جسے اگر فیض احمد فیض کی شاعری میں منتقل کریا جائے تو ہماری آنکھوں میں یہی حروف اتریں گے کہ:
’’اب نہ دید ہے نہ سخن
اب نہ حرف ہیں نہ پیام
کوئی بھی حیلہ تسکیں نہیں
اور آس بہت ہے
امید یار؛ نظر کا مزاج اور درد کا رنگ
تم آج کچھ بھی نہ پوچھو
کہ ددل اداس بہت ہے‘‘
آج عباس ٹاؤن کا دل بہت اداس ہے۔ وہ عباس ٹاؤن جو یہ بھی نہیں کہہ سکتا ہے ’’صرف ہم ہی کیوں؟‘‘
اب بھی اگر گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑے تو اب بھی عباس ٹاؤن کے مکین یہی کہیں گے کہ ’’سب سے پہلے ہماری گردن کاٹو‘‘
وہ بہت غیور لوگ تھے۔ شوق شہادت سے شرابور۔ بیحد عجیب لوگ۔ مال کے حوالے سے بہت مسکین مگر حال کے حوالے سے بہت لوگ۔ جو اس ٹوٹے اور بکھرے ہوئے شہر میں جڑ کر جیتے تھے۔ نو روز کے بعد ختم ہونے والی سندھ اسیمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا بھی ماضی میں اس عباس ٹاؤن کی ایک مورت ہوا کرتی تھیں جسے واقعے والے روز ووٹر نہیں بلکہ وہ لوگ یاد آئے جن کے نام وہ کبھی نہیں بھلا سکتی۔
وہ مقام جہاں زندگی مسکراتی تھی۔ وہاں پر آنسوؤں کی بارش برس رہی ہے۔اب اس مقام پر زندگی رو رہی ہے۔ زندگی جس کی حاصلات چند اشک ہی ہوا کرتے ہیں۔
پیر کی شب شام غریباں کے قافلے میں شامل ہونے والے وہ لوگ کچھ دنوں کے بعد ہم سے بسر جائیں گے۔ مگر کس طرح بھول پائیں گے وہ لوگ جو کپڑے کے خیمے جلنے کی باتیں سن کر روتے تھے۔ ان کے تو سیمنٹ کے سے بنے ہوئے خیمے بھی جل گئے۔ اب وہ میدان پر بس رہے ہیں۔ اپنے پیاروں کی یادیں دل میں لیے!
اب وہ جہاں بھی جائیں گے شہداء عباس ٹاؤن کی یادیں ان کے ساتھ چپکی رہیں گی۔ اور یہی درد ان کے لیے سرمایہ حیات ہو گا۔ وہ لوگ جو صرف شیعہ نہیں تھے۔ جو سنی تھے۔ مگر ان کا تعلق کسی جماعت سے نہ تھا۔ جن کا مسلک مذدوری تھا۔ جن میں سے بہت ساروں کی پیشانیوں پر نشان نماز نہیں مگر ان کے کندھوں پر نشان محنت موجود تھے۔ وہ محنت کش انسان جنہوں نے دو پشتوں کی جدوجہد کے بعد زمین سے اوپر اور آسمان کے نیچے ایک فلیٹ نما آشیانہ بنایا تھا۔ اس آشیانے کو بارودی بجلی سے جلا کر خاک کردیا گیا۔ بم دھماکے کا نشانہ بننے والے وہ جڑواں اپارٹمنٹ خزاں رسیدہ درختوں کی طرح کھڑے ہیں اور وہ ہمدردی کے ہر بہار سے ناراض ہیں۔ اس بستی کے اجڑنے پر شہر میں افراتفری کے سوا اور کیا ہوا؟ ہم سب اس تلخ حقیقت سے واقف ہیں کہ عباس ٹاؤن غریبوں کا آشیانہ تھا۔ اس لیے بہت کچھ ہونے کے بعد بھی کچھ نہیں ہوا۔ کیوں کہ عباس ٹاؤن نائن زیر و نہ تھا۔ اگر ایسا واقعہ نائن زیرو کے قریب بھی ہوتا تو کراچی میں ایک قیامت آ جاتی۔ مگر عباس ٹاؤن میں قیامت آگئی اور سیاست شہر اپنی دھن میں دھمکیوں سے کام چلاتی رہی۔ عباس ٹاؤن میں زندگی چلاتی رہی مگر شہر چلتا رہا۔ بس یہ ہوا کہ ٹریفک جام کی وجہ سے شہر کی شاہراہوں کی نبض کچھ دھیمی ہوگئی۔ مگر شہر تو چلتا رہا۔ شہر چل رہا ہے۔ شہر چلتا رہے گا۔ لیکن عباس ٹاؤن میں وہ لمحہ رک سا گیا ہے جو درد کے بھیانک بوجھ سے بھرا ہوا لمحہ ہے۔
اب عباس ٹاؤن کے سامنے والے سڑک سے گذرتے ہوئے اس اجڑی ہوئی بستی سے وابستہ بہت ساری یادیں راہ چلتے ہوئے مسافروں کے قدموں سے لپٹتی رہیں گی۔ اوراصرار کرتی رہیں گی وہ صرف نئے تعمیر ہونے والی کوٹھیوں کی طرف مت دیکھو۔ اک نظر اس بستی پر بھی ڈالو جو کبھی خطرناک حالات میں بھی خوش رہا کرتی تھی مگر اب تاابد اداسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ جس بستی کے سارے دروازے جل کر راکھ ہوگئے ہیں اور جس میں داخل ہوتی ہوئی ہوا اپنے ہاتھوں میں جلے ہوئے خوابوں کی خوشبو اٹھائے شہر میں دیوانہ وار پھرتی ہے۔
جس وقت عباس ٹاؤن میں دھماکہ ہوا تھا اس وقت کراچی کے بلند عمارات سے بڑھکتے ہوئے شعلوں کا منظر نظر آ رہا تھا۔ پھر اس آگ کو بجھا دیا گیا۔ مگر عباس ٹاؤن میں لگی ہوئی آگ ہی نہیں وہاں کے مکینوں کے سینوں میں جلتے ہوئے دلوں کے چراغ بھی بجھ گئے ہیں۔اب وہاں پر سورج ڈھلتے ہی سرچ لائٹس جل اٹھتی ہیں۔ مگر پھر بھی اندھیرا وہاں سے جانے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
عباس ٹاؤن کے شکستہ آشیانے سے رشتیداروں کے گھر میں مظلوم مہمان بن کر رہنے والی معصوم بچی اپنے خواب میں کبھی نہ ختم ہونے والی رات میں سفر کر رہی ہے اور بند آنکھوں سے ساتھ جلے ہوئے گلاب کی پتیوں جیسے ہونٹ ہلا کر بار بار کہتی ہے کہ ’’رات کب ختم ہوگی؟ سورج کب نکلے گا؟ روشنی کب ہوگی؟‘‘
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔