آج – ١٥؍جون؍ ١٩٦١
اہم پاکستانی شاعر، مشاعروں کے مقبول شاعر عباس تابشؔ صاحب “ کا یومِ ولادت…
اردو کے مشہور شاعر عباس تابش 15جون 1961ء کو میلسی ضلع وہاڑی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1977ء میں میلسی سے میٹرک کیا‘ اور مختلف مقامی اخبارات کے لیے کام کرنے لگے۔ 1981ء میں پرائیویٹ طور پر ایف اے کیا اور لاہور آ کر روزنامہ جنگ میں ملازمت اختیار کر لی۔ انہوں نے دوران ملازمت 1984ء میں بی اے کیا۔ 1986ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کرنے کے بعد بطور لیکچرار ملازمت کا آغاز کیا۔ آپ مختلف کالجز میں فرائض انجام دیتے رہے اور آج کل گورنمنٹ کالج گلبرگ لاہور کے شعبہ اردو کے سربراہ ہیں۔ ۔ آپ دوران تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور میں رسالہ ’’راوی‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ آپ دوبئی‘ ناروے‘آسٹریلیا،مسقط،شارجہ،برطانیہ،ہندوستان، امریکہ کے متعدد مشاعروں میں شرکت کر چکے ہیں۔
جناب احمد ندیم قاسمی صاحب عباس تابش کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’عباس تابش کے نزدیک شعر ایک ذاتی واردات کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ اسے کوئی نظریہ یا کوئی فلسفہ نہیں سمجھتا‘ اگر اس کے اشعار پڑھتے ہوئے آپ پر بھی وہی کیفیات وارد ہوتی چلی جائیں تو ٹھیک ہے ورنہ دوسری صورت میں عباس تابش آپ کو مجبور تامل نہیں کرے گا کہ یہ اس کا مسلک نہیں۔ وہ تو اپنی بات اپنے انداز میں کرتا چلا جاتا ہے۔ کوئی اس کے تجربے کا حصہ دار ٹھہرتا ہے تو ٹھیک ہے اور اگر کوئی اس کے تجربے کا حصہ دار نہیں بن پاتا تو بھی ٹھیک ہے کہ عباس تابش اپنی طبیعت میں نیاز رکھتے ہوئے بھی ذرا ہٹ دھرم واقع ہوا ہے۔‘‘
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
مقبول شاعر عباس تابشؔ کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
آنکھوں تک آ سکی نہ کبھی آنسوؤں کی لہر
یہ قافلہ بھی نقل مکانی میں کھو گیا
—
ابھی تو گھر میں نہ بیٹھیں کہو بزرگوں سے
ابھی تو شہر کے بچے سلام کرتے ہیں
—
اگر یونہی مجھے رکھا گیا اکیلے میں
بر آمد اور کوئی اس مکان سے ہوگا
—
بیٹھے رہنے سے تو لو دیتے نہیں یہ جسم و جاں
جگنوؤں کی چال چلیے روشنی بن جائیے
—
بس ایک موڑ مری زندگی میں آیا تھا
پھر اس کے بعد الجھتی گئی کہانی میری
—
بولتا ہوں تو مرے ہونٹ جھلس جاتے ہیں
اس کو یہ بات بتانے میں بڑی دیر لگی
—
دے اسے بھی فروغ حسن کی بھیک
دل بھی لگ کر قطار میں آیا
—
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
—
فقط مال و زر دیوار و در اچھا نہیں لگتا
جہاں بچے نہیں ہوتے وہ گھر اچھا نہیں لگتا
—
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
—
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
عباس تابشؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ