مُجھے ابّا کی گھڑی سے بہت چِڑ تھی اُس کی ٹک ٹک میرے سر پر ہتھوڑوں کی طرح لگتی۔ صبح الارم کی آواز سے تو جیسے سارے شہر میں زلزلہ آجاتا۔ جب تک میں اُٹھ نہ جاتا الارم بجتا ہی رہتا۔ اُس کے بند ہونے کے بعد ابا اُس وقت تک آوازیں دیتے رہتے جب تک میں وضو کر کے نہ آجاتا۔”او پُتر چھیتی آجا نماز کو دیر ہو رہی ہے۔"
الصلاة خير من النوم
گلی سے چاچے کُبےّ کی آواز آتی۔
ابا کی چال میں اور پُھرتی آ جاتی۔مسجد سے واپسی تک نیند ویسے ہی اُڑ جایا کرتی۔ اب اُٹھ گیا ہے تو دو رکوع بھی پڑھ لے۔اتنے میں اماں کے پر اٹھوں کی خوشبو صحن میں بھر جاتی اور میں نیند کا غم بھول جاتا۔ اگلے دن پھر وہی ِٹک ٹِک اور الارم۔ میں نے کئی بار خیالوں میں ابا کی گھڑی نُکڑ والے کباڑیئے کو بیچی۔ رات کو آنکھ کُھلنے پر میں نے ابا کو اکثر جاگتے روتے اور دعائیں کرتے پایا۔ جب اُٹھ ہی جاتے ہیں تو پھر الارم کیوں لگاتے ہیں؟ میں اماں سے لڑتا۔” تُو نماز کہ لیئے اُٹھتا جو نہیں تنگ کرتا ہے نا اسی لیئے“۔ وقت گزرتا رہا آہستہ آہستہ گھڑی کی ٹک ٹک الارم اور نماز میری زندگی کا حصہ بنتے چلے گئے۔ اب میں اکثر الارم بجنے سے پہلے اُٹھ جایا کرتا۔
اُس روز بھی الارم بجنے سے پہلے ہی میری آنکھ کُھل گئی۔ ابا شاید نہیں اُٹھے تھے مسجد سے واپسی پر میں ابا کے کمرے میں گیا۔ ٹک ٹک کی آواز آ رہی تھی اور ساتھ ہی اماں کی سسکیوں کی بھی ابا چُپکے سے چلے گۓ تھے۔ میں پُھوٹ پُھوٹ کر روتا رہا ابا اب کبھی تنگ نہیں کروں گا۔ آپ کی پہلی آواز پر اُٹھ جایا کروں گا بس آپ ایک دفعہ واپس آجائیں۔ ابّا اکثر بابا فرید کا کلام گنگنایا کرتے
"پیلو پَکّیاں وے پکیاں نی وے آ چُنْوُں رَل یار
یار گیا تے وَل نہ آیا پتہ نہ دسیا خط نہ پایا
آ میرا دلدار تانگاں رکھیاں وے تانگاں رکھیاں نی وے آساں رکھیاں وے"
کوئی آس تھی نہ اُمید۔ اللہ کے پاس جانے والے واپس نہیں آیا کرتے میں یہ بات سمجھ گیا تھا۔ ابا کے جانے کہ بعد مسجد کے ُمصلّے سے میری پکّی یاری ہوگئی۔ اور وہیں اللہ سے باتیں بھی ہونے لگیں۔ الارم والی گھڑی جو اماں نے کب کی سٹور میں سنبھال دی تھی ہر روز صبح کے وقت ایک لمحے کے لیئے ضرور دماغ میں بجتی ابا کی آواز آتی۔ " چھیتی کر لے پُتر" اور میں نم آنکھوں کے ساتھ اکیلا ہی مسجد چلا جاتا۔ میرے ساتھ پیلو چُننے والا چلا گیا تھا۔ وقت گزرتا رہا۔ ایک دن امّاں بھی چلی گئیں۔ زمانے کی بھیڑ میں ایک اور ہاتھ چھوٹا۔ میں اکیلا ہو گیا تھا۔ بہت دنوں تک روتا رہا۔ آخربے قرار دِل کو قرار آ گیا۔ میں بہت چھوٹی عمر میں جان گیا تھا کہ سب ساتھ عارضی ہیں۔ بس ایک اللہ ہی ہے جو ہمیشہ بندے کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ میری دعائیں سُنتا وہ میرا سب سے پیارا دوست تھا وہ مُجھ سےکبھی ناراض نہیں ہوتا تھا۔ اگر کبھی کُٹّی ہوئی تو میری طرف سے ہوئی۔ پھر میں رو کر اُسے منا لیتا وہ میرے آنسو پونچھ لیا کرتا۔
"اندرو اندری یار اوّلا کلم کَلّا مار پتھلا
توں دِلاں دِیاں یار لٹنا ایں ہٹیاں وے ہٹیاں نی وے“ (طاہر عدیم صاحب)
میں لُٹ گیا تھا جی جان سے لُٹ گیا تھا۔ اور ابّا بھی تو یہی چاہتے تھے نا۔ پھر میری شادی ہو گئی میں ایک بیٹے کا باپ بن گیا۔ دس سال گزر گۓ روزانہ صفیہ میری بیوی بخت آور کو فجر کی نماز کے لیئے جگانے کی کوشش کرتی مگر ناکام رہتی۔ بہت پکّی نیند تھی میرے بیٹے کی۔ مُجھ سے بھی زیادہ پکّی۔ تھک ہار کر میں اکیلا ہی نماز کے لیئے چلا جاتا۔ اُس دِن میں نے رو رو کر بخت آوَر کے لیئے اللہ سے اُس کی محبت مانگی۔ اب میں جان گیا تھا ابّا اللہ سے کیا مانگا کرتے تھے۔ اگلے روز مسجد میں ایک عجیب واقعہ ہوا اچانک دیکھتا ہوں اگلی صف میں بائیں طرف ابا نماز پڑھ رہے تھے۔ شاید میرا وہم تھا میں نے غور سے دیکھا۔ میں اپنے ابا کو کیسے بھول سکتا ہوں بلاشبہ وہ ابا ہی تھے۔ اُن کے چہرے پر بلا کا سکون تھا۔ سلام پھیرنے کے بعد ایک دم میری طرف مُڑے اور کہنے لگے۔ بخت آور کہاں ہے؟ اُسے کیوں نہیں لاۓ؟ میں نے کہا ابّا اُس کے لیئے دعا کریں۔ میں اور بھی بہت کُچھ کہنا چاہتا تھا۔ میں ابّا کو بتانا چاہتا تھا آپ اور امّاں بہت یاد آتے ہیں۔ میں ایک بار اُن کے سینے سے لگ کر بتانا چاہتا تھا کہ اُن کے جانے کہ بعد میں کتنا اکیلا ہو گیا تھا۔ میں انہیں بتانا چاہتا پیلو پک گۓ ابّا۔ مگر بس ایک لمحہ ہی تو تھا اور پھر ابا غائب ہو گئے۔ ابا کے عطر کی خوشبو میرے بہت پاس پھیلی تھی۔خواب تھا یا حقیقت میں سمجھ ہی نہیں پایا۔ شاید ایک لمحے کو میری آنکھ لگ گئی تھی۔
گھر جاتے ہی میں نے سٹور سے ابا کی گھڑی نکالی۔کتنی دیر میں متاعِ حیات کی طرح گھڑی کو سینے سے لگاکر روتا رہا۔اس کی ٹک ٹک میں ابا کی دعائیں بسی تھیں۔ اگلی صبح الارم بجا مگر آج یہ آواز دنیا کی سب سے خوبصورت آواز لگ رہی تھی۔ بخت آور الارم کی آواز سے تنگ آ کر اُٹھ گیا تھا۔میرے دل کی عجیب سی کیفیت تھی آنکھیں پرانے منظروں میں جی رہی تھیں۔ کمرے میں ابّا کے عطر کی خُوشبو پھیلی تھی اور صحن میں امّاں کے پر اٹھوں کی۔ او پُتر چھیتی آجا نماز کو دیر ہو رہی ہے۔ میں نے الارم بند کر کے آواز لگاتے ہوۓ کہا۔ باہر سے چاچے کُبےّ کی آواز آ رہی تھی۔ الصلاة خير من النوم۔
" کچے گھڑے تے آئی آں تر کے سر مو ڈھے مہینوال دے دھر کے
کوئی جگاۓ نہ یار اکھیاں لگیاں وے لگیاں نی وے “ (طاہر عدیم صاحب)
” آچُنوں رَل یار پیلو پَکّیاں وے پَکّیاں نی وے “
پیلو چُننے کا موسم آگیا تھا۔