ائرپورٹ کی پارکنگ میں جیسے ہی داخل ہوئے دو آدمیوں نے روک لیا۔میرے دوستوں کا خیال تھا کہ انہوں نے بندوقیں تانی ہوئی ہیں جب کہ میرا خیال یہ تھا کہ انہوں نے کلہاڑیاں اٹھا رکھی ہیں۔
’’جہاز پر کتنے افراد سوار ہوں گے‘‘
’’دو‘‘ ہم نے جواب دیا۔
’’تو یہ باقی تین افراد رخصت کرنے آئے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں‘‘ …’’بس ساٹھ روپے ادا کریں‘‘
ہم میں سے ایک نے مطلوبہ رقم کی ادائیگی کر دی۔ اس ’’شریفانہ‘‘ ٹکیس کی وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ حکومت کو فنڈ درکار ہیں۔ میں نے ترس کھاتے ہوئے کپڑے بھی اتار ٹیکس دئیے۔ بنیان اور جانگیہ رہ گئے چلنے لگے تو کلہاڑی بردار اہلکار نے پیچھے سے آواز دی۔ ’’بنیان بھی دیتے جاؤ۔ ایک اہم شخصیت کے بیرون ملک دوروں کیلئے تیس لاکھ روپے روزانہ کی ضرورت ہے۔‘‘
کپڑے اتار کر دینے والی بات مبالغہ سہی، تیس لاکھ روپے روزانہ والی بات حقیقت ہے۔ اب وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے کہ پیدل چلنے والوں کو بھی رکاوٹیں پار کرنے کیلئے سڑکوں پر، کچے راستوں پر، تنگ پگڈنڈیوں پر اور ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جانے پر ٹیکس ادا کرنا ہو گا خواہ سفر اپنے گدھے پر بیٹھ کر کیا جا رہا ہو۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم پاکستانی کنوؤں میں بند ہیں ہمیں کوئی اندازہ ہی نہیں کہ کنوئوں کی منڈیر سے باہر ایک دنیا ہے اور وہ دنیا ہمارے کنوئوں کی کائنات سے مختلف ہے۔ پاکستان سے باہر تین قسم کی دنیائیں ہیں۔ ایک عالم اسلام ہے۔ دوسری دنیا غیر مسلم ممالک کی ہے۔ تیسری دنیا پاکستانی تارکین وطن ہیں جو ترقی یافتہ ملکوں میں جا کر بس گئے ہیں۔
عالم اسلام سے ہماری ’’واقفیت‘‘ کا یہ عالم ہے کہ ہمارا اسلام، دوسرے مسلمان ملکوں کے اسلام سے یکسر مختلف ہے، ہم نے ان چیزوں کو اسلام کی اساس بنایا ہوا ہے جودوسرے مسلمان ملکوں میں نظر ہی نہیں آتیں ہمارے سوا کوئی اسلامی ملک ایسا نہیں جہاں ازبکستان، چیچنیا، بوسنیا، عراق، افغانستان، سوڈان، الجزائر، مصر اور سعودی عرب کے ’’مجاہدین‘‘ آکر اسی ملک کی حکومت سے برسرِپیکار ہوں۔ ہمارے علاوہ کوئی ایک اسلامی ملک ایسا نہیں جہاں ڈنمارک کے گستاخانہ خاکوں کے خلاف جلوس نکلا ہو اور اپنی ہی املاک تباہ کی گئی ہوں۔ جو اسلامی ملک عقل مند تھے انہوں نے ڈنمارک کی مصنوعات کا بائی کاٹ کیا ۔ ہمارے اسلام کی رُو سے دنیا بھر کے مسلمان گردن زدنی ہیں جسے یقین نہ آئے اس واقعے کی تصدیق کرا لے کہ یہ دارالحکومت میں پیش آیا کسی ایک مقتدی نے آمین بلند آواز سے کہی۔ سلام پھیرنے کے بعد امامت کرنے والے بزرگ نے پیچھے پلٹ کر دیکھا اور جو تبصرہ فرمایا وہ احاطئہ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا اور یہ تو چند دن پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک بزرگ نے، جو حافظ قرآن ہیں اور دین کا علم رکھتے ہیں جوتے پہن کر نماز جنازہ پڑھی ان کا ناک میں دم کر دیا گیا ان سے ’’سند‘‘ پوچھی گئی۔ یہ ایک حقیقت ہے اگرچہ تلخ ہے کہ پاکستان اور اسکے ہمسایہ ملک افغانستان میں جو اسلام رائج ہے وہ پچاس سے زائد اسلامی ملکوں میںکہیں نظر نہیں آتا! رہیں غیر مسلم ممالک اور تارکین وطن کی دنیائیں تو ہمیں انکے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں۔ ان عجیب و غریب دنیاؤں میں شہریوں کے حقوق ہیں عزت نفس ہے، انکی جانیں مال اور عزتیں محفوظ ہیں۔ وہاں کے سرکاری اہلکار اور پولیس کے ارکان عوام کے سامنے سراپا عجز ہوتے ہیں۔ ان دنیاؤں میں شاہراہیں سلامت ہیں سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی نہیں کی جاتیں۔ سی این جی ہر روز ہر وقت میسر ہے وزیروں اور ارکان اسمبلی کا معیار زندگی وہی ہے جو عام لوگوں کا ہے۔ کوئی قانون سے ماورا نہیں کسی کو عقیدے کی بنیاد پر پتھر نہیں مارے جاتے، کوئی ملک دعویٰ نہیں کرتا کہ وہ نصرانیت کا یا یہودیت کا قلعہ ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان کے علاوہ کسی اور اسلامی ملک نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ اسلام کا قلعہ ہے۔ اسلام کا قلعہ ہونا اس بات پر منحصر نہیں کہ دعویٰ کتنا بلند بانگ ہے یہ تو عمل کا مسئلہ ہے۔ اسلام کا قلعہ وہ ہو گا جہاں ملاوٹ ہوگی نہ ذخیرہ اندوزی، صفائی کو عملاً نصف ایمان ثابت کیا جائیگا۔ چینی سیمنٹ، آٹے، گیس اور بجلی کی قلت پیدا کرنیوالوں کو سرعام سزائیں دی جائیں گی۔ کوئی کاظمی ہو یا گیلانی یا قریشی عظیم الجثہ مذہبی ’’رہنما‘‘ ہو یا بڑے سے بڑا مسٹر، جرم کرنے کے بعد بچ نہیں سکے گا اگر یہ سب کچھ نہیں ہے تو شاہراہوں پر ٹریفک روک کر ایک ہزار سال تک نعرے لگانے سے بھی ملک اسلام کا قلعہ نہیں بن سکتا۔
جو گروہ برملا اعلان کرتے ہیں کہ وہ مذہبی بنیادوں پر کام نہیں کر رہے، ان کا معاملہ دوسرا ہے جب وہ برائی کا ارتکاب کرتے ہیں تو ایک عام شہری صدمے سے دوچار نہیں ہوتا انکے بارے میں کوئی خوش فہمی ہے نہ ان سے امیدیں وابستہ ہیں لیکن وہ جو عبا اوڑھ کر قبا زیب تن کر کے، عمامہ باندھ کر، عصا دردست، چہروں پر سنت رسولؐ آراستہ کر کے چھینا جھپٹی کرتے ہیں تو عوام کے دلوں کو زخم زخم کر دیتے ہیں۔ صرف ایک مثال دیکھئے اس ملک میں ہر صاحب اقتدار نے اپنے نورِنظر کو فوج سے نکالا اور سول سروس میں ’’داخل‘‘ کیا۔ ایسا کرتے ہوئے کوئی قاعدہ قانون کوئی کلیہ کوئی ضابطہ ملحوظ نہ رکھا گیا حالانکہ ضابطہ یہ کہتا ہے کہ سول سروس میں دس فیصد افرادی قوت مسلح افواج سے آئیگی تو اس کا ایک طریق کار ہو گا۔ یہ طریق کار کبھی نہ اپنایا گیا۔ اس بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے‘ کاش ایک ہی مثال قائم ہو جاتی احتیاط کا اور پاکیزگی کا ایک ریکارڈ قائم ہو جاتا لیکن افسوس ایسا نہ ہوا۔ فیکٹری میں لاؤڈ سپیکر پر بلند آواز سے تلاوت لگانے کے بجائے یہ احتیاط، تقویٰ کا یہ مظاہرہ بدرجہا بلند مرتبہ ہوتا …؎
یہ لا اِلہٰ خوانیاں جائے نماز پر
سُولی پہ چڑھ کے نغمہ یہ گاتے تو جانتے!
نصیحت کی وادی بڑی پرفضا ہے اس وادی میں سیر کرنا آسان ہے اور لطف اندوز بھی۔ آزمائش اس وقت درپیش ہوتی ہے جب ایک طرف اپنا بیٹا ہوتا ہے اور دوسری طرف دوسروں کے نورِ نظر جن کی سفارش ہوتی ہے نہ آگا پیچھا، جب اسمبلی کیلئے خاتون رکن نامزد کرنا ہوتی ہے اور سامنے اپنی بیٹی کا نام آتا ہے جب اپنی زندگی میں اپنا جانشین چننا ہوتا ہے اور سامنے لختِ جگر ہوتا ہے۔ افسوس! صد افسوس! جب ایسے مواقع آتے ہیں تو بے دین عناصر، سیکولر جماعتیں، مذہبی پارٹیاں، دیندار حضرات سب ایک حمام میں نظر آتے ہیں یہ ہے نفاق کی وہ فصل جو مسلسل بوئی جا رہی ہے اور جو عوام کاٹ رہے ہیں اور یہ ہے وہ پس منظر جس کی وجہ سے ووٹر، الیکشن کے دن اہل مذہب سے منحرف ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر عمل دونوں کا یکساں ہے تو پھر میں اپنا ووٹ ان لوگوں کو کیوں نہ دوں جو باہر سے بھی اتنے ہی خراب ہیں جتنے اندر سے۔ کاش ہمارے عبا پوشوں نے فراق گور کھپوری ہی کو پڑھا ہوتا …؎
تو پھر کیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے؟
زمانے سے لڑائی مول لے، تم سے بُرا بھی ہو!