دنیا کو درپیش چیلنجز میں سے ایک چیلنج انسانی آبادی کا بڑھنا ہے ۔دنیا بھر میں آبادی کے بے تحاشہ پھیلاو کو روکنے کے لیئے مختلف اقدامات کیئے جارہے ہیں ۔سوائے چند ایک ممالک کے اکثر ممالک چھوٹےخاندان یعنی کم بچوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں ۔یہ اس لیئے کیا جارہا ہے کہ مختلف ممالک کے وسائل ان کی آبادی کے تناسب سے کم پڑرہے ہیں ۔حکومتیں آبادی میں اضافہ کی وجہ سے دباو کا شکار ہیں۔ کسی بھی ملک کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکے۔
پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جس کی آبادی بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہورہا ہے ویسے ہی وسائل اور آبادی میں توازن بگڑتا جارہا ہے ۔ہر پیدا ہونے والا بچہ اپنے ساتھ بنیادی ضرورتوں کا حق لے کر آتا ہے ۔اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے وسائل اتنے نہیں ہیں کہ وہ اپنی آبادی کی تمام بنیادی ضرورتوں کو پورا کرسکے ۔اس وقت پاکستان کا شمار 22 کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ دنیا کے پانچویں بڑے ملک کے طورپر ہورہا ہے۔
پاکستان میں آبادی کے اضافہ پر نظر رکھنے والے ایک ادارہ پاپولیشن کونسل نے 2022 میں نئے اعداد وشمار جاری کیئے ہیں اور یہ اعداد وشمار مستقبل کے سنگین خطرات کی نشاندہی کررہے ہیں ۔پاپولیشن کونسل کے مطابق آبادی میں تیزی سے اضافہ کا مطلب خوراک ، تعلیم ،صحت ، روزگار اور انفراسٹرکچر جیسی ضروریات میں مسلسل اضافہ ہے ۔جس کی وجہ سے محدود وسائل پر دباو بڑھتا ہے اور وسائل اور ضروریات کے درمیان عدم توازن پیدا ہوتا ہے ۔
پاپولیشن کونسل کے مطابق اگر پاکستان کی آبادی میں اضافہ کی رفتار یہی رہی تو 2040 تک مزید ایک کروڑ نوے لاکھ نئے گھروں کی ضرورت ہوگی ۔اور گیارہ کروڑ ستر لاکھ سے زائد نئی نوکریاں پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی ۔پچاسی ہزار سے زائد پرائمری سکول بنانے ہوں گے ۔جبکہ 2040 تک پانی کی کمی کے حوالے سے پاکستان دنیا کے پہلے تین ممالک میں شامل ہوگا اور اس وقت فی کس 780مکعب فٹ پانی دستیاب ہوگا جو کہ بنیادی ضرورت کے لیئے انتہائی کم ہوگا۔
پاپولیشن کونسل کے اعداد وشمار کے مطابق صوبہ پنجاب میں 2040 تک مزید 70 لاکھ نئے گھروں کی ضرورت ہوگی اور اس آبادی کے لیئے 6 کروڑ 60 لاکھ نئی نوکریوں کی ضرورت ہوگی جبکہ 35 ہزار سے زائد نئے پرائمری سکولز بنانے ہوں گے ۔اسی طرح صوبہ سندھ میں اٹھارہ سال بعد 2040 تک مزید 50 لاکھ نئے گھروں کی ضرورت ہوگی اور ڈھائی کروڑ سے زائد نئی نوکریاں پیدا کرنی ہوں گی جبکہ 25 ہزار نئے پرائمری سکولز بنانے ہوں گے ۔
پاپولیشن کونسل کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں 2040 تک مزید 23 لاکھ نئے گھروں کی ضرورت ہوگی ۔اس آبادی کے لیئے مزید ایک کروڑ چالیس لاکھ نئی نوکریوں کی ضرورت ہوگی جبکہ 14 ہزار نئے پرائمری سکولز بنانے ہوں گے اور صوبہ بلوچستان میں 2040 تک مزید دس لاکھ نئے گھروں کی ضرورت ہوگی اور 65 لاکھ نئی نوکریوں کے ساتھ ساتھ 7 ہزار سے زائد نئے پرائمری سکولز بنانے ہوں گے ۔
پاپولیشن کونسل کے اس تخمینے کے بعد ایک سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض 18 سال بعد 2040 تک پاکستان کے وسائل اتنی بڑی آبادی کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں ۔کیا ہمارا انفراسٹرکچر کم وبیش دوکروڑ نئے گھراور 11 کروڑ سے زائد نوکریوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے ۔کیا ہم اتنی بڑی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں کیا تمام آبادی کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جاسکتا ہے ۔تو ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں آتا ہے ۔
ہماری قابل کاشت زرعی زمین روز بروز کم ہوتی جارہی ہے ۔گاوں شہروں میں بدلتے جارہے ہیں سرسبز کھیت مہنگی ہاوسنگ سوساٹیز میں تبدیل ہورہے ہیں ۔ واٹرلیول گرتا جارہا ہے زیرزمین پانی کی کمی کے اثرات ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں زرعی مقاصد کے لیئے زیرزمین پانی کے بے دریغ استعمال نے پانی کو مزید کم کردیا ہے ۔اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں اناج باہر سے منگوانا پڑتا ہے اور اگر یہی صورتحال 2040 میں بھی ہوئی تو سوچا جاسکتا ہے کہ اتنی بڑی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنےکے لیے کس قدر اناج منگوانا پڑے گا اور اس پر کتنا زرمبادلہ خرچ ہوگا۔
لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں ہوسکا آج بھی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ گندا پانی پینے پر مجبور ہے اور 2040 میں تو پینے کے پانی کی طلب اس قدر زیادہ ہوگی کہ یہ دریا بھی کم پڑجائیں گے اور زرعی مقاصد کے لیے ان دریاوں کے پانی کا استعمال تو عیاشی تصور ہوگا۔
پاپولیشن کونسل کی پراجیکٹ ڈائریکٹر سامیہ علی شاہ کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ آبادی اور وسائل کے درمیان توازن پیدا کرنے کے لیے نیا قومی بیانیہ تشکیل دیا جانا چاہیے ۔خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک رسائی اور معلومات کی فراہمی میں بہتری کے لیے محکمہ صحت کے تمام مراکز کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کے تمام طبی مراکز پر خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات فراہم کی جانی چاہیں ۔تاکہ آبادی کے خطرناک حدتک پھیلاو کو کم کرکے وسائل پر بڑھتے ہوئے دباو کو بھی کم کیا جاسکے ۔
ضرورت اس امر کی ہے حکومتیں سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہوکر آبادی کے پھیلاو کوکم کرنے کے لیے سنجدہ اقدامات کریں۔آبادی میں کمی کا نیا بیانیہ ترتیب دیں اور پھرمستقل پالیسی بناکر اس پر زمہ داری کے ساتھ عمل کیا جائے تب جاکر کچھ مدت بعد اس کے مثبت نتائج ظاہر ہونا شروع ہوں گے اور اگر اس سے مجرمانہ غفلت برتی گئی تو تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی وسائل کو ہڑپ کرجائے گی اور اس وقت کچھ نہیں ہوسکے گا۔لہذا اس پر ابھی سے سوچنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے اور اگر خدانخواستہ پانی سر سے گذر گیا تو پھر کچھ نہیں ہوسکے گا۔پھر اگر کچھ کرنا بھی چاہیں گے کچھ کرنا ممکن نہیں ہوگا
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...