رسولِ اطہر صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں، یہ بات ہم مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے۔ ہم کلمۂ شہادت میں جب تک عبدہُ ورسولہ نہ کہیں، ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ ہم جنم زاد مسلمان ہیں اِس لیے ہمیں اندازہ نہیں کہ عبدہُ کا یہ مختصر سا لفظ اور رسول اطہر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جسدِ مبارک کا زمین کے ایک مخصوص مقام پر موجود ہونا، یہ دو ایسی شہادتیں ہیں کہ جن کے بل بوتے پر ہی اسلام باقی تمام ادیان سے نہ صرف جداگانہ اہمیت رکھتاہے بلکہ دوسرے تمام ادیان پر ایک خاص قسم کی فوقیت کا بھی حامل ہے۔
تاریخِ انسانی گواہ ہے کہ دنیا میں جتنے بھی مذاہب آئے، ان کے لانے والوں کو اُن مذاہب کے ماننے والوں نے خدا کے درجے پر پہنچا کر مذہب کو ایک مستقل اور باقی سماج سے الگ(بلکہ بالاتر) ادارے میں تبدیل کردیا۔ قدیم مذاہب ہوں یا عیسائیت و یہودیت، ہر مذہب نے یہی کیا۔ ہم سب جانتے ہیں اور ہندو بھی جانتے ہیں کہ رام اور کرشنا اصل میں انسان (عبدہُ) تھے لیکن اب وہ انسان نہیں ہیں بھگوان ہیں اور اس لیے ان کے نام پر سماج سے باہر اور سماج سے بالاتر ایک ادارہ قائم ہے، ان کے آشرم الگ ہیں اور ان کے پجاری اور پنڈت بھی الگ ہیں۔ یوں گویا یہ پجاری اور پنڈت اپنے بھگوانوں کے حقیقی نمائندے ہیں، اگر یہ موجود نہ ہونگے تو ان خداؤں کے ساتھ عام انسان کا رابطہ ممکن نہ ہوپائےگا۔
عیسائیت میں پاپائیت آج تک موجود ہے۔ پاپائے روم کا حکم پوری کیتھولک دنیا کے لیے آخری حیثیت رکھتاہے۔ بجا، کہ اب پاپائے روم کا سیاسی اثر عیسائی دنیا کی حکومتوں پر نہیں رہا لیکن پاپائیت کا ادارہ پھر بھی ہمیشہ موجود رہا اور آج بھی عام سچے عیسائیوں تک عیسیٰ علیہ السلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کے حوالے سے اتنا ہی مضبوط ہے جتنا اپنے ماضی کے کسی بھی دور میں تھا۔ عیسائیت میں ایسا کیوں ممکن ہوسکا کہ ایک روحانی لیڈر پوری عیسائی دنیا کے لیے ہمیشہ ہی موجود رہا ہو؟ فقط اس لیے کہ عیسیٰ علیہ السلام جو اللہ کے بندے بھی تھے، بعد میں خدا بنادیے گئے۔ بعد والوں نے انہیں خدا مان لیا اور مقامِ عبدیت سے ہٹادیا، تو سماج سے باہر موجود مذہبی ادارہ وجود میں آگیا، جو آج تک ویٹیکن کی صورت اپنے سماج سے باہر اور بالاتر ہی قائم و دائم ہے۔
سوائے رسولِ اطہر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے، کسی نبی یا اوتار کی قبر موجود نہیں۔ جب کسی کی قبر موجود نہ ہوگی تو اسے خدا بنانا آسان ہوگا۔ اگر کسی نبی کا جسدِ خاکی زمین کے کسی مقام پر بعد ازوفات بھی موجود رہے گا، تو یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ وہ ہستی خدا نہ بنائی جاسکے گی۔ ہم نے اپنی مسلمانی کی شرط کے طورپر انہیں اللہ کا بندہ اور رسول مانا اور آج تک ایسا ہی مانتے ہیں، یعنی بندہ بھی اور رسول بھی۔ قرانِ کریم میں بھی اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبانی کہلوایا کہ ’’انا بشرمثلکم‘‘ یعنی میں تمہاری طرح کا انسان ہی ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی ایسا ادارہ مسلمانوں میں پیدا نہ ہوسکا جو پاپائیت یا پنڈتیت کی طرح اپنے سماج سے باہر وجود رکھتا اور اس نئے خدا کا نمائندہ بن کر اس کے ماننے والوں کی رہنمائی کرتا رہتا۔
مسلمانوں میں ایسا کوئی روحانی پیشوا کبھی پیدا نہیں ہوسکا جسے دنیا بھر کے مسلمان شارع علیہ السلام کا متبادل مانتے ہوں۔اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا جانشین سمجھا جاتا ہو، جو آپ کے(معاذاللہ) خدا بن جانے یا مان لیے جانے کے بعد آپ تک ہمارے پیغامات پہنچاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں پاپائیت یا مذہبی پیشوائیت کے کسی مرکزی ادارے کی کبھی گنجائش نہیں رہی۔ سو جب مرکزی ادارے کی گنجائش نہیں تو ذیلی اداروں کی گنجائش کیسے ہوسکتی ہے؟
اہلِ تشیع میں البتہ امامت کا تصور موجود ہے۔ لیکن امام خمینیؒ کے انقلاب سے پہلے پہلے تک اہلِ تشیع کے پاس بھی روحانی پیشوائیت کا مرکزی ادارہ موجود نہیں تھا۔ اس سےپہلے امامت کا تصور تو موجود تھا لیکن نائبِ امام کی وہ حیثیت نہیں تھی جو انقلابِ ایران کے بعد سے ہے۔ یعنی اب جو ایران میں اہلِ تشیع کے مرکزی روحانی پیشوا آغا رہبر کا شرعی حکم پوری دنیا میں ایک مرکزی حکم کی حیثیت رکھتاہے، ایسا بارہویں امام کی غیبت کے بعد سے انقلابِ ایران تک کبھی پوری طرح ممکن نہیں ہوسکا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اہلِ تشیع کا نظریۂ امامت پاپائیت کے مساوی ہے؟ جواب یہ ہے کہ نہیں۔ کیونکہ تشیع اپنی کُنہ میں تصوف کے ایک فرقہ کی مانند ہے نہ کہ مذہب کے۔اہلِ تشیع کے مرکزی رہبر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی ہیں اور اہلِ تشیع رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اللہ کا بندہ اور رسول ہی مانتے ہیں۔ چنانچہ جب تشیع میں امامت اپنے منصب کو نبھا رہی ہوتی ہے تو یہ گویا مؤمنین کے تزکیہ نفس کا ویسا ہی باقاعدہ اہتمام ہوتاہے جیسا تصوف و سلوک کے کسی بڑے رہبر کی اصلاح سے ممکن ہوپاتاہے۔ اہلِ سنت میں بھی ماسوائے نقشبندی تصوف کے باقی تینوں سلاسل کا آخری آخری پِیراورمرشدِاعظم حضرت علی کرّم اللہ وجہ ہی ہیں۔ہاں البتہ یہ بھی بالکل سچ ہے کہ جہاں جہاں اہل ِ تشیع نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بندے کے رتبے سے بڑھا کر خدا کے رتبے پر پہنچایا وہیں وہیں تشیع فی الفور پاپائیت کے زمرے میں داخل ہوکر سماج سے باہر ایک الگ ادارے کو وجود میں لانے کا باعث بنا، جیسا کہ مثلاً نُصیری شیعوں نے کیا۔
اہل سنت میں بریلوی مکتبہ فکر کے ہاں نُور و بشر کا جو قضیہ ڈیڑھ سوسال سے جاری ہے، یہ قضیہ موجود ہوتے ہوئے بھی کبھی کسی بریلوی نے رسول اطہرصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو ’’عبدہُ‘‘ کے عہدے سے محروم نہیں کیا۔ اختلاف رہا تو اتنا کہ وہ بشر اتنا پاکیزہ تھا جیسا کہ نُور، نہ کہ وہ بشر ، فی الاصل انسان ہی نہیں تھا بلکہ آسمانوں سے عارضی طورپر نازل ہونے والا خدا تھا جو واپس پہنچا تو پھر اپنی خدائی سنبھال لی۔ نہیں بریلوی مکتب ِ فکر میں ایسا کوئی عقیدہ موجود نہیں ہے۔ بریلوی مکتبِ فکر کا عقیدہ درج ذیل نعتیہ شعر سے خوب واضح ہوجاتاہے۔
خود کیا تخلیق اپنے نُور سے اِک نُورکو
اور پھر اُس نُور کو خیرالبشر اُس نے کیا
آصف آس
الغرض اسلام تمام مذاہب میں جدید ترین مذہب، اِس لیے ہے کہ بانیِ اسلام کو آج تک انسان ہی مانا جاتاہے۔ بانیِ اسلام یا شارع علیہ السلام یعنی رسول اطہر صلی اللہ علیہ والہ وسلم، کا عبدہُ کے عہدے پر آج تک قائم رہنا اسلام کو دنیا بھر کے مذاہب میں ایک جداگانہ مقام پر فائز کردیتاہے۔ ایک ایسے جداگانہ مقام پر جسے کوئی مرکزملت کبھی نہیں چلا سکتا۔ چاہے وہ مرکزملت خود مکہ و مدینہ ہی کیوں نہ ہو، ایسا ممکن نہیں ہے کہ وہاں بیٹھا ہوا کوئی مرشدِ اعظم یا کوئی خادمِ حرمین والشریفین یا حتیٰ کہ امام کعبہ یا امام مسجد ِ نبوی، یا کوئی بھی بڑے سے بڑا امام، کوئی بھی، ایسا نہیں کہ جس کی حیثیت پاپائے روم جیسی ہو۔ ایسا فقط اس لیے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم عبدہُ و رسولہ ہیں۔ان کی قبرمبارک موجود ہے، جس میں ان کا جسدمبارک موجود ہے۔ وہ غائب نہیں ہوگئے تاکہ پیچھے ان کو انسان کے عہدے سے ہٹاکر ہم فقط اوتار کے منصب پر فائز کردیتے اور اس منصب کے جانشینوں کو اسلام کا کُل حَکَم مان لیتے۔
یہی وجہ ہے کہ آج تک مسلمانوں کے کسی ملک میں مذہبی حکومت قائم نہیں ہوسکی۔ہندوستان میں اِس وقت بھی مذہبی حکومت موجود ہے، حالانکہ وہ سیکولر ریاست ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ وہ اپنے عبادہُ (رشیوں، منیوں، اور نیک لوگوں) کو بھگوان بنا بیٹھے، تو ان کے ہاں سماج سے بالاتر ادارے وجود میں آگئے۔ لیکن پاکستان میں باجود ہزار کوشش کے کبھی مذہبی حکومت قائم نہیں ہوسکی۔ افغانستان میں طالبان نے دوچار سال کے لیے مذہبی حکومت قائم کی تو اسے افغانستان کے اندر ہی شدید مخالفت اور مزاحمت کا سامنا رہا اور اسے بطور روحانی پیشوا کے نہ پاکستان نے تسلیم کیا اور نہ ہی سعودی عرب یا ان ممالک نے، جنہوں نے طالبان کی حکومت کو ایک حکومت تسلیم کرکے اپنے اپنے سفیر افغانستان بھیج دیے تھے۔
علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں مسلمانوں کی مرکزی حکومت کے موضوع پر اچھی خاصی بحث کی ہے۔ ترکی میں ان دنوں تازہ تازہ خلافت ختم ہوئی تھی اور اس لیے مسلمانوں کے مشترکہ سیاسی مرکز کا سوال ہرکہیں موجود تھا۔ اقبال نے واضح الفاظ میں خلافت کو عہدِ حاضر کے تقاضوں کے منافی قراردیا ہے اور اس کی جگہ ایک ایسی مسلم کنفیڈریسی کا تصور پیش کیا ہے جو مختلف اسلامی جمہوریتوں کا کچھ اس طرح سے مرکز ہوگا جیسے فی زمانہ ہم یورپی یونین کو دیکھ رہے ہیں۔
تمام ترتصریحاتِ بالا میں جو بات بار بار دہرائی گئی ہے وہ ہے، ہمارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بشر اور رسول سمجھنا۔دراصل اسلام کو کسی مرکزی شرعی ادارے کی ضرورت اس لیے نہیں رہی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے انسان ہونے کی وجہ سے، پوری دنیا کے مسلمان ہمیشہ آپ کی ذات کے ساتھ براہِ راست جُڑے رہتے ہیں۔درمیان میں کسی نمائندے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اگر حضور کو اوتار یا خدا بنادیا جاتا تو ایسا ہونا کبھی ممکن نہ ہوتا کہ دنیا بھر کے تمام انسان رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لیے مرکزِ ملت تسلیم کرتے ہوئے ہمہ وقت آپ کے ساتھ اس طرح جُڑے رہتے کہ جب بھی پوری دنیا کے مسلمانوں کو کسی کا مخالف یا موافق ہونے کی ضرورت پیش آتی اور معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذاتِ اقدس کا ہوتا تووہ ایک جھنڈے تلے کھڑے ہوتے۔ ایسا کبھی ممکن نہ ہوپاتا۔ مسلمان فی الاصل تمام مذاہب کے ماننے والوں سے کہیں زیادہ متحد ہیں۔
مسلمانوں کا مرکز ملت مکہ وہ مدینہ نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات ہے۔ مکہ و مدینہ تو شعائراسلام ہیں، خود اسلام نہیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو خود اسلام ہیں اور چونکہ وہ ہمارے درمیان آج بھی موجود ہیں اور ہمیں بے یارومددگار چھوڑ کر واپس آسمانوں پر دیوتا بن کر نہیں جابیٹھے، اس لیے ہم آج بھی بغیر کسی مرکزی روحانی پیشوا کے، محبت کے مسئلے پر ایک جھنڈے تلے قائم ہیں۔
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر!
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ِ ہاشمی