(Last Updated On: )
ڈاکیہ تین بار اس ایڈرس پر مجھے ڈھونڈنے گیا تھا لیکن تینوں بار مایوس ہو کر لوٹ آیا۔
اس نے دروازے پر کئی بار دستک دی تھی، بلند آواز میں میرا نام پکارا تھا اور پھر دائیں بائیں دیکھ لیا تھا کہ شاید کوئی پڑوسی آواز سن کر گھر سے باہر نکل آئے اور اسے بتلا دے کہ میں گھر میں موجود ہوں یا نہیں اور اگر نہیں ہوں تو کہاں مل سکتا ہوں۔ مگر کوئی پڑوسی نہ گھر سے باہر نکلا اور نہ ہی کسی نے کھڑکی کے باہر جھانکا۔
شاید اڑوس پڑوس کے سبھی گھر خالی تھے۔ سارا محلہ قبرستان کی مانند سنسان پڑا تھا۔ کہاں تو ہر نُکڑ پر بے شمار کُتے مل جاتے تھے جو گھروں سے پھینکے ہوئے ٹکڑوں پر پلتے تھے اور کہاں یہ منظر کہ کہیں کوئی کتّا بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جیسے سبھی کو سانپ سونگھ گیا ہو۔
میرے مکان سے ٹپکتی ہوئی غمزدہ خاموشی دیکھ کر وہ ہر بار بوجھل قدموں سے واپس مڑ جاتا۔ ایک زمانہ تھا کہ سردی اور گرمی کی چھٹیوں میں بس صدر دروازے پر دستک دینے کی ضرورت تھی کہ دروازے کے دونوں پٹ کھل جاتے اور وہ مجھے اپنا منتظر پاتا۔ اس کو میرا نام لینے کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔ دستک سن کر ہی میں سمجھ جاتا کہ ڈاکیہ آیا ہو گا۔ پھر دونوں برآمدے میں بید کی کرسیوں پر بیٹھ کر سگریٹ کے کش لگاتے اور بہت دیر تک باتیں کرتے۔ وہ طرح طرح کی کہانیاں سناتا-عطر چھڑکے لفافوں کی، خون سے لکھے ایڈریسوں کی، منی آرڈر پاتی بیواؤں کی، برسوں بعد لکھے بیٹے کے خطوں کی اور خدا کے نام لکھی گئی چھٹیوں کی۔ ایک عجیب بے نام سا رشتہ تھا ہم دونوں کے درمیان۔ باقی دنوں میں کالج جانے کے سبب گھر پر نہیں ملتا پھر بھی نہ جانے کیوں اس کی آنکھیں مجھ کو ڈھونڈتی رہتیں۔ میرے خاندان کا کوئی فرد صدر دروازہ کھول کر کہہ دیتا۔ ’’وہ آج یہاں پر نہیں ہے۔ کالج چلا گیا ہے۔ آپ اس کی چٹھیاں مجھے دے دیجیے۔ ‘‘ مانگنے والا اگر گھر میں آیا کوئی مہمان ہوتا تو ہم دونوں کے بیچ کا رشتہ بھی بتلا دیتا۔ در اصل ڈاکیہ میرے رشتے داروں سے مانوس ہو چکا تھا اور ان کو میری ڈاک سونپنے میں سنکوچ نہیں کرتا تھا لیکن غیر شناسا چہرہ سامنے پا کر کچھ ہچکچاہٹ ضرور ہو تی۔ یہ میری ہی ہدایت کا اثر تھا کہ وہ میری ڈاک کسی ایرے غیرے کو نہیں دیتا تھا۔ بہت ایمان دار اور فرض شناس ڈاکیہ تھا۔ یوں بھی دیانت داری اور بھروسے کے اعتبار سے ڈاکیے بے نظیر ہوتے ہیں۔ خط کو دیکھتے ہی مضمون کا اندازہ لگاتے ہیں۔ عطر بیز خط کو مسکراہٹ کے ساتھ تھما دیتے ہیں جبکہ بری خبر والے خط کو انگارے کی مانند اپنے ہاتھ سے جھٹک دیتے ہیں۔
مگر اب۔۔ ۔۔ ۔ ! اب تو میں وہاں نہیں رہتا۔ میں کہاں رہتا ہوں مجھے خود بھی نہیں معلوم۔ میرے اپنے جہاں لے جاتے ہیں، چلا جاتا ہوں۔ نئی جگہیں، نئے شہر، نئے ممالک۔۔ ۔۔ ! طالب علمی کے زمانے میں ان جگہوں کے نام سنا کرتا تھا مگر وہاں جانے کا کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
چار منزلہ لکھوری اینٹوں کا میرا ڈھنڈار مکان، جس کے در و دیوار سے سوندھی سوندھی مٹی اور دیودار کی خوشبو آتی تھی، خاموشی سے ڈاکیے کو تکتا مگر کوئی جواب نہیں دے پاتا۔ دیتا بھی کیسے ؟ اسے کیا معلوم تھا کہ میں کہاں رہتا ہوں ؟جس وقت میں اس کو چھوڑ کر گیا تھا سارا مکان اندھیروں میں ملفوف تھا۔ اندھیرا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ گھٹا ٹوپ اندھیرا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ! ایک ہاتھ کو دوسرا ہاتھ نہیں سوجھتا تھا۔ پھراس کو میرے جانے کی خبر کیسے ہوتی ؟ خود اندھیروں میں گھرا ہوا دوسروں کی خبر گیری کیسے کر سکتا ہے ؟اس روز میں ڈرا سہما، پر اسرار خاموشی میں ڈوبا ہوا گھر کا سارا سامان ٹرک میں لاد کر نم آنکھوں سے اپنے مکان سے رخصت ہوا تھا۔ ویسے ہی جیسے گہری نیند میں سورہے آدمی کی روح پرواز کر جائے۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ میری اور اس کی آخری ملاقات ہے۔ اس دن کے بعد گھر کا ذرّہ ذرّہ مجھے ڈھونڈ تا رہا۔
کتنا سَمے بیت گیا ہو گا۔ مجھے کچھ بھی یاد نہیں۔ میرے لیے تو وقت اسی لمحے تھم چکا تھا جب میں نے اپنی جائے پیدائش کو خیر باد کہا تھا اور پھر در بدر پھرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ وقت بھی کتنا ظالم ہوتا ہے، اپنی رفتار سے چلتا رہتا ہے۔ کبھی کسی کی فکر نہیں کرتا۔ کون مرتا ہے اور کون جیتا ہے، کسی سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ البتہ مجھے ان لوگوں پر ترس آتا ہے جو انسانوں کو بے گھر کر کے یہ سوچتے ہیں کہ یہ خدا کی خوشنودی کے لیے کیا جا رہا ہے۔ مجھے اس خدا کو دیکھنے کا بڑا ارمان ہے جو خود ہی تخلیق کیے ہوئے انسان کو تباہ و برباد، بے گھر و بے بس کرنے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ کتنا بڑا ایذا رساں ہو گا وہ خدا جو ہزاروں لاکھوں انسانوں کی تکلیف و درد سے محظوظ ہوتا ہو گا۔
یہ الگ بات ہے کہ میری زندگی کی گھڑی بند ہو چکی ہے یا پھر مجھے اس کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ پھر بھی کہیں کچھ احساس ابھی باقی ہے جو مجھے ہر روز تاکید کرتا ہے کہ ’’تم زندہ ہو‘‘۔ میرے ساتھ جو لوگ رہتے تھے وہ سب بکھر چکے ہیں۔ ہم ایک دو روز میں کہیں نہ کہیں مل ہی جایا کرتے تھے مگر اب تو برس ہا برس تک ہم مل نہیں پاتے۔ کوئی دنیا کے ایک کونے میں جا بسا ہے اور کوئی دوسرے کونے میں۔ بہت برس ہو گئے میں نے کسی کو اپنا ہم راز نہیں بنایا۔ سبھی نے اپنی زندگی کے خالی پن کو دور کرنے کے لیے نئے وضع قطع اپنائے ہیں۔ پھرن کے اندر کانگڑی اٹھائے برف سے ڈھکی سڑکوں کو ناپنے کے بجائے اب وہ ٹی شرٹ اور جینز میں سمندری ساحلوں پر گھومتے پھرتے ہیں۔ امریکا میں مجسمۂ آزادی کے نیچے، فرانس میں آئی فل ٹاور کے اندر یا پھر مصر کے اہرام کے پاس سیلفی لیتے نظر آتے ہیں اور دوسرے روز فیس بُک پر پوسٹ کرتے ہیں۔ دیکھنے والے حسرت اور جلن سے سوچتے ہیں کہ کتنے خوش نصیب لوگ ہیں جو دنیا کے خوبصورت مقامات کی سیر کر رہے ہیں۔ کہاں تو کنویں کے مینڈک بنے پھرتے تھے، شہر سے باہر کی دنیا سے نا بلد تھے اور کہاں تو یہ بے فکر و بے مدام سیاحت، نہ اپنی خبر اور نہ دنیا و مافیہا کی۔ البتہ کسی کو کیا معلوم کہ فیس بُک پر چڑھائی گئی یہ تصویریں جھوٹ بول رہی ہیں۔ یہ سبھی پراگندہ زندگی کو بھولنے کی ناکام کوششیں ہیں۔ تصویریں دیکھنے والے اندر کے گھاؤ کہاں دیکھ پاتے ہیں۔ کوئی کسی کے زخم کرید کر تھوڑی ہی دیکھتا ہے۔ میں ان تصویروں کے اندر پل رہی بے بسی، تڑپ اور تنہائی کو محسوس کر سکتا ہوں۔
مصنوعی چہرے، مصنوعی ہنسی اور مصنوعی ٹھاٹ۔ اجنبی ساحل، اجنبی دھرتی اور اجنبی ممالک۔۔ ۔۔ ۔ !
گھر میں تھے تو فرصت ہی نہیں ملتی تھی۔ کبھی راشن گھاٹ سے راشن لانا، کبھی گھاسلیٹ کی خاطر قطار باندھے گھنٹوں کھڑے رہنا، کبھی دکانوں کی بھیڑ سے جوجھنا۔ نانبائی کی دکان، قصائی کی دکان، کنجڑے کی دکان، ادویات کی دکان، غرض ضروریات زندگی کی لمبی چوڑی فہرست اور اتنی ہی دکانیں۔ ہر جگہ قطاریں ہی قطاریں۔ طلب ہی طلب اور رسد کہیں نظر ہی نہیں آتی تھی۔
اب تو فراوانی ہے سب چیزوں کی مگر چین نہیں ہے۔ کوئی بے چینی دل کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی ہے۔ سب کچھ دستیاب ہے اور وہ بھی گھر بیٹھے۔ ہوم ڈیلوری۔ کبھی امیزون، کبھی فلپ کارٹ اور کبھی سنیپ ڈیل۔ بس آرڈر کرنے کی دیر ہے کہ سامان گھر پر کوریئر دے کر جاتا ہے۔ کوریئر۔۔ ۔۔ ! نہ وردی اور نہ وقت پر دستک۔ وقت بے وقت کبھی بھی چلا آتا ہے اور سامان دے کر چلا جاتا ہے۔ موبائل بل، گیس بل، کتابوں کاپارسل، گفٹ پارسل۔ اور بھی بہت کچھ۔ مگر خط نہیں۔۔ ۔ !
اب خط نہیں آتے۔ وہ خون کو سیاہی بنا کر لکھے گئے خط، وہ ٹوٹے ہوئے دلوں کے خط، وہ آہوں اور اشکوں سے بھرے خط، وہ محبتوں اور نفرتوں بھرے خط، وہ برہ کے گیتوں سے بھرے خط، وہ انتظار کے خط، وہ وصل یار کے خط۔ وہ خط اب نہیں آتے۔ نہ میرے پاس اور نہ ہی میرے بال بچوں کے پاس۔
آئیں گے بھی کیونکر؟ عشق فرمانے کے لیے موبائیل جو ہیں۔ خط کے بدلے ای میل جو ہیں۔ تصویریں بھیجنے کے لیے وہاٹزاَپ جو ہے۔ پھر خط کے لیے کون انتظار کرے۔
اور مجھے اب خط لکھے گا بھی کون؟ یہ سچ ہے کہ ہماری نسل کو اب بھی خط ملنے کی آرزو رہتی ہے۔ خط پڑھنے میں جو مزہ آتا ہے وہ ای میل میں کہاں۔ مگر اب تو سب کو معلوم ہو گیا ہے کہ اب میں وہاں نہیں رہتا۔ اور پھر میں نے انھیں اپنا نیا ایڈریس بھی تو نہیں بتایا ہے ؟
کیسے بتاؤں کہ میں کہاں رہتا ہوں ؟مجھے میرے بال بچوں نے بانٹ لیا ہے۔ کبھی بڑے بیٹے کے پاس تین چار مہینے گزار لیتا ہوں، کبھی منجھلے بیٹے کے پاس اور کبھی چھوٹے کے پاس۔ ایک عجیب سا ان کہا سمجھوتا ہو گیا ہے ان کے درمیان۔ یہی تین چار مہینے کا! کبھی کبھار بیٹی اپنے پاس بلاتی ہے جب اس کے ساس سسر اپنی بیٹی کے ہاں کچھ مہینے کے لیے چلے جاتے ہیں۔ بچپن میں میں نے زندگی اور موت کے درمیان تناسخ کے بارے میں سنا تھا لیکن اب اس دنیاوی آواگون کا تجربہ بھی ہو گیا۔ شاید فطرت کے اصول کے عین مطابق ہے یہ۔ موسم بھی تین مہینوں میں بدل جاتے ہیں۔ یکسانیت ہوتی تو کتنی اکتاہٹ ہو جاتی۔ زندگی میں رنگ بھرنے کے لیے تغیر بہت ضروری ہے۔ یک رنگی تو کھانے کو دوڑتی ہے۔
گذشتہ سال میں نے طے کر لیا کہ میں کچھ دنوں کے لیے اپنے آبائی وطن جاؤں گا اور مرنے سے پہلے اپنے چھوڑے ہوئے مکان کو نظر بھر دیکھ لوں گا۔ سو میں نے بیٹے سے درخواست کی اور ہم سب چلے گئے۔
شہر میں سب لوگ ہمیں ٹورسٹ سمجھنے لگے ہیں۔ کسی کو یقین ہی نہیں آتا کہ ہم وہاں کے بسکین ہیں، سیاح نہیں۔ کوئی ہمیں پہچانتا بھی نہیں۔ پچیس سالوں میں ایک پوری نسل بدل چکی ہے۔ شاید ہمارے وقت کے لوگ اب نہ رہے ہوں یا پھر بڑھاپے کے باعث گھر کی چار دیواری سے باہر نہیں نکلتے ہوں۔
اسی لمحے جب میں اپنے پرانے مکان کے پاس چہل قدمی کر رہا تھا، پیچھے سے کوئی مانوس سی آواز آئی۔ ’’ صاحب۔۔ ۔۔ صاحب۔۔ ۔۔ ارے صاحب آپ یہاں کیسے ؟‘‘
میں اس کو خالی خالی نظروں سے دیکھنے لگا۔ اس کے مرجھائے ہوئے چہرے پر خضاب لگی ڈاڑھی تھی۔ آنکھوں پر موٹی فریم کا چشمہ لگا ہوا تھا۔ بال سفید ہو چکے تھے جن کو ڈھکنے کے لیے بھیڑ کی کھال کی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ کینسر کے آپریشن کے سبب چہرہ بالکل مسخ ہو چکا تھا مگر پھر بھی کچھ کچھ مانوس سا لگ رہا تھا۔ میں اس کو پہچان نہیں پایا اور بلا جھجھک اعتراف کیا۔ ’’ بھائی صاحب، معاف کرنا، میں آپ کو پہچان نہیں پایا۔ ‘‘
’’ وہ ہلکی سی ہنسی ہنس کر میری بات ٹال گیا اور پھر کہنے لگا۔ ’’ صاحب کیسے پہچانو گے تم۔ بہت عرصہ جو ہوا۔ میں آپ کا ڈاکیہ ہوا کرتا تھا۔ محلے میں ایک آپ ہی تھے جس کی ڈاک کم و بیش روزانہ آیا کرتی تھی اور آپ چھٹیوں کے دنوں میں روزانہ میرا انتظار کرتے تھے۔ ‘‘
’’ اوہ تم۔۔ ۔۔ ۔۔ ! میرے ذہن نے اس کے چہرے کی از سر نو تخلیق کرنے کی کوشش کی۔ اس کی صورت کو دوبارہ جوڑ کر اکٹھا کرنے لگا اور کچھ ہی ثانیوں میں وہی پرانی شبیہ میری آنکھوں کے سامنے ابھر آئی۔
’’ بھائی، سچ مانو تو میں تمھیں پہچان ہی نہ پایا۔ تمھاری تو شکل و صورت ہی بدل چکی ہے۔ ‘‘
’’ صاحب، کیسے پہچانتے۔ اب تو میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور ریٹائر بھی۔ اس سے بھی بڑھ کر میرے گلے میں کینسر ہو چکا تھا جس کے سبب آپریشن کرنا پڑا۔ تب سے میرا حلیہ ہی بگڑ گیا ہے۔ اور پھر وقفہ بھی تو بہت ہو چکا ہے۔ خیر یہ بتائیے کہ آپ کہاں رہتے ہیں آج کل؟
’’بھائی تم سے کیا چھپانا۔ اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔ میں کہیں بھی نہیں رہتا۔ خانہ بدوش بن چکا ہوں۔ اپنی زمین جب ٹھکراتی ہے اور مسکن جب کھو جاتا ہے تو آدمی خانہ بدوش ہو جاتا ہے۔ وہ پھر کہیں کا نہیں کہلاتا۔ ‘‘
’’ اتنے برسوں کے بعد یہاں آنے کی کیسے سوجھی صاحب ؟‘‘
’’ بس یاد ستانے لگی۔ اپنی جڑوں کی یاد۔۔ ۔ ! سوچا چلو اپنی جڑوں کی کھوج میں نکل جاؤں۔ مگر یہاں مایوسی ہاتھ لگی۔ جڑیں تو سب کی سب اکھڑ چکی ہیں۔ ‘‘
’’ صاحب، آپ کے جانے کے بعد میں کئی روز آپ کی ڈاک لے کر آپ کے گھر پر جاتا رہا۔ وہی ریڈرس ڈائجسٹ، بیسویں صدی، تحریک، کتاب۔۔ ۔ اور بھی نہ جانے کون کون سے میگزین ہوتے تھے۔۔ ۔۔ ۔۔ مگر دیتا کس کو ؟ مکان میں تو تالا لگا ہوا تھا۔ کوئی یہ بھی نہیں بتا پا رہا تھا کہ آپ کا نیا ایڈریس کیا ہے ورنہ وہیں ری ڈائریکٹ کر کے بھجوا دیتا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو وہ میگزین جان سے بھی پیارے تھے۔ آپ انھیں پڑھتے نہیں بلکہ چاٹ جاتے تھے۔ ‘‘
’’ بھئی، کن میگزینوں کی بات کر رہے ہو۔ تم نے جتنے بھی نام لیے وہ سب کے سب نابود ہو چکے ہیں۔ وہ بھی وقت کے تھپیڑوں کا مقابلہ نہ کر سکے اور ایک ایک کر کے بند ہو گئے۔ اب تو وہ نام سننے کو بھی نہیں ملتے۔ اب ان کی جگہ نئے رسالے نکلتے ہیں لیکن وہ بات کہاں۔ رہی بات میرے ایڈریس کی، میں تمھیں اپنا ایڈریس کیسے بتا دیتا۔ کوئی موقع ہی نہ ملا۔ سرکاری کرفیو۔۔ ۔ سول کرفیو۔۔ ۔۔ بند۔۔ ۔۔ ۔ ہڑتال۔۔ ۔۔ اور پھر مجھے تو رات کے اندھیرے میں غائب ہونا پڑا تھا۔ ‘‘
’’ پوسٹ ماسٹر کے نام ہی کوئی خط لکھا ہوتا تو ہم آپ کے نئے ایڈریس پر بھجوا دیتے۔ بہت دنوں تک آپ کے کئی دوستوں کے خط آتے رہے۔ اور وہ۔۔ ۔۔ عطر میں ڈوبے ہوئے خط بھی دو تین آئے تھے۔۔ ۔۔ ۔ !میں نے سبھی ڈاک خانے میں جمع کروا دیے اور وہاں سے وہ ریٹرن لیٹر آفس چلے گئے۔‘‘
’’وہ میرا ماضی تھا بھائی ! بھول چکا ہوں میں اپنے ماضی کو۔ وقت کسی کا ساتھ نہیں دیتا۔ کون کہاں لڑھک جائے کسی کو پتا نہیں۔ ‘‘
’’ صاحب، آپ کا وہ ایک دوست تھا نا جو آپ کے ساتھ اکثر دکھائی دیتا تھا۔ وہ۔۔ ۔ کیا نام تھا اس کا۔۔ ۔۔ ۔۔ ؟میں تو بھول ہی گیا۔ خیر کوئی بات نہیں۔ وہی پروفیسر صاحب۔ معلوم ہے وہ بہت عرصہ پہلے مرگیا۔ صاحب اس کا جواں بیٹا چوک میں مارا گیا۔ ‘‘
’’ پروفیسر کا بیٹا مر گیا! مجھے تو معلوم ہی نہیں۔ وہ کیسے ؟‘‘
’’اس روزکسی لیڈر نے ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔ لوگوں نے موبائیل سے ایک دوسرے سے رابطہ قائم کر لیا اور نوہٹہ میں جمع ہونے کی تلقین کی۔ شہر کی تمام دکانیں بند رہیں۔ پھر شہر کے پائیں علاقے سے جلوس نکلا جو رفتہ رفتہ لال چوک تک پہنچ گیا۔ جلوس میں اکثر و بیشتر نوجوان تھے۔ ہاتھوں میں طرح طرح کے جھنڈے لیے ہوئے۔ فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے۔ سامنے سے پولیس آئی اور جلوس کو آگے بڑھنے سے روک لیا۔ دونوں فریق ایک دوسرے پر پہلے غرائے، پھر محاذ آرائی پر اتر آئے۔ ہجوم میں جس کو جہاں کوئی پتھر یا اینٹ مل گئی پولیس پر پھینک دی۔ پولیس اپنے بچاؤ کے لیے حفاظتی ساز و سامان سے لیس تھی۔ تاہم برستے پتھر دیکھ کر ان کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا، انھوں نے جواب میں لاٹھی چارج کیا اور بھیڑ پر آنسو گیس کے گولے داغ دیے۔ ہر طرف آنسو رلانے والی گیس پھیل گئی اور مجمع تتر بتر ہوتا گیا لیکن ساتھ ہی مشتعل بھی ہو گیا۔ بھیڑ میں کسی نے موقعے کا فائدہ اٹھا کر پولیس کی جانب ہینڈ گرنیڈ پھینک دیا۔ پھر کیا تھا۔ جوابی کار روائی میں پولیس نے بندوقیں سنبھالیں اور دھڑا دھڑ گولیاں برسائیں۔‘‘
’’گولیاں ! یہ تو زیادتی ہے۔ انھیں پہلے ہوا میں فائر کرنا چاہیے تھا۔ ‘‘
’’صاحب جب حالات بے قابو ہو جاتے ہیں اور معاملہ برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو قاعدے قانون دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ پولیس نے براہ راست احتجاج کر رہے نوجوانوں کو نشانہ بنا لیا۔ چار پانچ تو وہیں پر ڈھیر ہو گئے جبکہ پندرہ بیس زخمی ہو کر ہسپتال پہنچائے گئے۔ انھی میں پروفیسر صاحب کا اکلوتا بیٹا بھی تھا۔ اس نے تو سڑک پر ہی دم توڑ دیا۔ پروفیسر صاحب لاش کو دیکھ کر پاگل ہو گیا۔ اس دن کے بعد کھانا پینا سب کچھ ترک کر دیا۔ رات دن بس عبادت میں جٹا رہا۔ مہینے بھر کے بعد بیوی اور تین لڑکیوں کو چھوڑ کر رحمت حق ہو گیا۔ اس روز مجھے آپ کی بہت یاد آئی۔ پروفیسر صاحب آپ کو دیکھنے کے لیے ترستا تھا۔ میں نے کئی بار اس کو آپ کے مکان کے سامنے کھڑا پایا۔ وہ مکان کو یونہی ٹکر ٹکر دیکھتا رہتا تھا۔ چونکہ اس کی گویائی چلی گئی تھی اس لیے مجھے دیکھ کر صرف گھورتا رہتا، جیسے کہہ رہا ہو، ’’بھائی کس لیے اس گھر کا طواف کر رہے ہو۔ اب وہ یہاں نہیں رہتا۔ وہ اب واپس کبھی نہیں آئے گا۔ اب تو ہماری ملاقات اوپر ہی ہو گی۔‘‘
پھر ڈاکیہ ہاتھ ملا کر چلا گیا اور نہ جانے کن گلیوں میں کھو گیا۔ میں اکیلا اس مانوس اجنبی سڑک پر اس کو دیر تک دیکھتا رہا۔ تبھی میرے بیٹے نے پکارا۔ ’’ پاپا، دیر ہو رہی ہے۔ ہوٹل جانا ہے، سامان پیک کرنا ہے اور پھر ائیر پورٹ بھی پہنچنا ہے۔ تین بجے کی فلائیٹ سے واپس جانا ہے۔ ‘‘
میں تو بھول ہی گیا تھا کہ مجھے واپس بھی جانا ہے کیونکہ یہ گلی کوچے، یہ بازار، یہ دُکانیں، فضا میں تحلیل یہ بوٗ اور یہ شور شرابہ سب کچھ اپنا سا لگ رہا تھا۔ میں پل بھر ہی میں ان میں کھو سا گیا تھا اور وقت کا احساس ہی نہیں رہا۔ مجھے اس بات کا خیال ہی نہ رہا کہ مجھے واپس سفر کرنا ہے اور اجنبی دیس میں باقی ماندہ سانسیں گننی ہیں۔ بس اسی طرح جیسے اس رنگ و بو کی دنیا میں انسان کھو کر واپسی کے سفر کی سدھ بُدھ کھو بیٹھتا ہے۔ اسے بھی خیال نہیں رہتا کہ اس کو کبھی واپس جانا ہے۔
کچھ دیر میں ہم دونوں واپس ہوٹل اور پھر ائیر پورٹ پہنچ گئے۔ وہاں ہوائی جہاز ایک گھنٹہ لیٹ تھا۔
اور میں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نہیں ہم سب اس وقت کا انتظار کرتے رہے جب واپس جانے کے لیے اڑان بھری جائے گی۔ واپسی کا سفر اتنا تکلیف دہ نہیں تھا جتنا کہ اس سفر کا انتظار!
***
دیپک بدکی
دیپک بدکی