اب کہاں ڈھونڈنے جاؤگے ہمارے قاتل،
آپ تو قتل کا الزام ہمیں یہ رکھ دو،
اگر کسی جرم کی سزا بروقت نہ دی جائے تو وہی جرم زہر بن جاتا ہے اور اپنے اثرات دھیرے دھیرے چھوڑنا شروع کردیتا ہے جس سے لاتعداد لوگ متاثر ہوجاتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک میں ہر طرف نفرت کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے جس کے نتیجہ میں طرح طرح کے فرقہ واریت شروع ہوجاتی ہے اور بے قصور لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اس لئے جرم کی سزا بروقت ہونی چاہیے اس سلسلہ میں ذرا بھی ڈھیل مشکلات کا سبب بن جاتا ہے، ایک جرم کرے اس کو سزا نہ ہو دوسرا بھی دیکھ کر شروع کردیگا اور پھر اس طرح ملک میں رہ رہے بے گناہوں کا خون بہنا شروع ہو جائے گا، بقول راحت اندوری۔۔۔۔۔
جو جرم کرتے ہیں اتنے برے نہیں ہوتے،
سزا نہ دیکر عدالت بگاڑ دیتی ہے،
ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں وہاں اس طرح کے منظر نامے آئے دن دیکھنے کو مل رہے ہیں ہر دن فرقہ پرست عناصر اپنی زہریلی وجود سے ملک کی سالمیت پر حملہ اور ہوتے ہیں اور ایک طبقہ کو بلکہ اقلیتی طبقہ کو حراساں کرنے کیلئے اپنا زور صرف کرتے ہیں جسمیں وہ کامیاب بھی ہوجاتے ہیں ادھر انتظامیہ نے اپنا الگ قانون بنا رکھا ہے کہ مجرم کو حراست میں نہ لیکر جو مظلوم ہیں انہیں کٹہرے میں لاکر اور اس پر مقدمہ چلاکر سزادی جائے ظلم کرنے والے بے باک ہوتے ہیں کیونکہ ان کیلئے قانون کا پہیہ اسی کے حق میں گھوم گیا ہے اور جو مظلوم ہیں وہ مظلومیت کے ساتھ عدالت میں سزا کے بھی حقدار ہیں،
آپ نے بارہا اس کا مشاہدہ کیا ہوگا کتنے مابلنچنگ کرنے والے پکڑے گئے اور بغیر سزا کے انہیں رہائ مل گئی، کتنے عصمت لوٹنے والے معصوموں کے ساتھ بھیڑئیے سے بھی بد تر سلوک کرنے والے دندناتے پھر رہے ہیں اس کے خلاف کوئی قانون نہیں اور قانون نہ ہونے کی صورت میں کارروائی بھی نہیں،
آصفہ۔ تبریز۔ جنید۔ کے قاتل مزے کررہے ہیں کیونکہ انتظامیہ اس کے ساتھ ہے اس کے برعکس جو مظلوموں کے مسیحا ہیں جو امن پسند لوگ ہیں انہیں فرضی مقدموں میں پھنسا کر جیل کے حوالے کردیا جاتا ہے، ڈاکٹر کفیل خان۔ شرجیل امام۔ اور دیگر انتظامیہ کے ظلم کے شکار ہیں اور جیل کی ہوا کھارہے ہیں،۔ ابھی دو دن پہلے کا واقعہ ہے جب بنگلور میں ایک بدمعاش اور بد چلن نیتا نے ناموس رسالت پر کیچڑ اچھالا آپ کی شان میں نازیبا کلمات کہے اماں عائشہ کو بھی نشانہ بنایا جس سے مسلمانوں میں بے چینی پھیل گئی اور جب مسلمان اس کے خلاف کارروائی کیلئے پولیس اسٹیشن گئے تو پولیس نے بے حسی کا ثبوت دیا اپنی نفرت اور زہر کے تلے دبے یہ پولیس کی شکل میں غنڈے خاموش رہے لیکن کارروائی کی کوئی صورت نہیں نکالی پھر جب مسلمان مایوس ہوکر اس نیتا کے مکان میں احتجاجی طور پر پہنچے تو مجرم اور بدمعاش پولیسوں نے احتجاج کو روکنے کیلئے فائرنگ کردی جس سے تین بے قصور جانیں ضائع ہوگئیں، خبر یہ بھی ہے کہ فائرنگ پولیس نے اس وجہ سے کی کہ کچھ لوگ وہاں توڑ پھوڑ کررے تھے اور آتش زنی بھی شروع ہو گئی تھی،
خیر معاملہ جو بھی ہو لیکن کیا پولیس اگر اس بدقماش کو پکڑ کر دو تپھر لگادیتی یا اسے وقتی طور پر حراست میں لے لیتی تو کیا یہ سب کچھ نہیں تھمتا۔ کیا جانیں نہیں بچتیں ، تین سو بے گناہ افراد جو جراست میں لئے گئے کیا وہ مصیبت سے نہیں بچتے؟
لیکن پولیس کھڑی سارا منظر دیکھ رہی تھی اور اپنی بے حسی کا ثبوت دے رہی تھی ، اور ستم بالاے ستم یہ کہ بجائے اس غلیظ انسان کو پکڑ کر اس پر کارروائی کرتی اور امن و شانتی کو یقینی بناتی الٹے الزامات مسلمانوں کے سرآرہے ہیں اور یہ مجرم میڈیا یکطرفہ خبریں دکھارہی ہیں جس سے اور زہر پھیل رہا ہے،
ایسے میں سب سے پہلے اس غلیظ انسان پر کاروائی ہونی چاہیے جس نے ناموس رسالت پر کیچڑ اچھا لا، اماں عائشہ کو نشانہ بنایا ، اور پھر پولیس انتظامیہ کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے کہ اس نے آپنی آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ ہونے دیا ،
اور جلد بغیر کارروائی کے ان تین سو افراد کو رہا کیا جائے جو بلا کسی جرم کے پولیس کے شکنجے میں ہیں،۔ ملک میں اگر امن قائم رکھنا ہے تو قانون کا نفاذ بر وقت ہونا چاہیے مجرموں کو اس کا حق دیا جائے اور معصوموں کو اس کی معصومیت کا سرٹیفکیٹ ملنا چاہیے اور اگر معاملہ یوں ہی چلتا رہا تو پھر امن و امان کی ہوا بھی ملک سے نہیں گزرے گی،
میری اپیل ہے مسلمانوں سے کہ اپنی آواز اس مجرم اور غلیظ انسان کیلئے بلند کریں، اپنے حقوق کی خاطر آگے آنا ہوگا ظالم قانون اور بے حس انتظامیہ کو سبق سکھانے کیلئے جد و جہد کرنے پڑیگی اگر یوں ہی خواب خرگوش میں پڑے رہے تو اپنا وجود داؤ پر لگ جائے گا اس وقت شور مچانے سے کچھ نہیں ہوگا،