اب انتظار کر
(اک یاداشت جو’ رابرٹ ووگ ‘ کی وفات پر آج لکھی )
صبح ، جب میری آنکھ کھلتی ہے تو میں سرہانے پڑے ریموٹ سے ٹی وی آن کر دیتا ہوں اور نیوز چینل ’ سَرف‘ کرنا شروع کر دیتا ہوں اور جب تک میرے جسم میں اتنی طاقت بحال ہو جاتی ہے کہ میں اٹھ سکوں میں خبریں دیکھ چکا ہوتا ہوں ۔ پچھلے ایک ہفتے سے میں صرف دو چینل ’ سَرف‘ کر رہا ہوں ، بی بی سی اور سی این این ۔ وجہ سیدھی ہے کہ میں امریکی صدارتی انتخابات کو ’ فالو‘ کر رہا ہوں ۔ کل میں نے لیونارڈ کوہن کی وفات کی خبر سنی تھی ۔ آج بی بی سی نے مجھے ’ رابرٹ فرانسس ووگ ‘(Robert Francis Vaughn) کی موت کی خبر سنائی جو 11 نومبر 2016 ءکو ' لیکومیا ' کے ہاتھوں اپنی 84 ویں سالگرہ سے گیارہ روز قبل یہ دنیا چھوڑ گیا تھا ۔ وہ 22 نومبر 1932 ء کو نیو یارک میں ایک اداکار گھرانے میں پیدا ہوا تھا ۔
اس کی وفات کی خبر مجھے 1960 ء کی دہائی میں لے گئی ۔ یہ1961 ء تھا ۔ لاہور کے ریگل سینما میں ایک فلم ’ دی میگنی فیسنٹ سیون ‘ (The Magnificent Seven) لگی تھی ۔ یہ ’ یل برائنر‘ کی ایک ’ ویسٹرن ‘ فلم تھی ۔ میں نے یہ فلم دیکھی تو میری توجہ کا مرکز بنیادی طور پر یُل برائنر ہی رہا تھا ۔ اس کے باقی چھ ساتھیوں کے کردار کون سے اداکار ادا کر رہے تھے مجھے اس وقت ان کے بارے میں معلوم نہ تھا ۔ ( مجھے بہت بعد میں پتہ چلا تھا کہ ہالی ووڈ کی یہ فلم جاپانی ہدایتکار و سکرپٹ رائٹر’ اکیرا کوروساوا کی فلم ’ سیون سمورائی ‘ کا چربہ تھی جب میں نے اکیرا کوروساوا کی فلمیں دیکھی تھیں ۔ ’ دی میگنیفیسنٹ سیون ‘ میں ’ یل برائنر‘ کے ساتھیوں میں اداکارسٹیو میکوین ، چارلس برونس اور’ رابرٹ ووگ ‘ بھی تھے ۔ یہ بھی مجھے بعد میں معلوم ہوا تھا ۔ ) سٹیو میکوین اور چارلس برونس کے بارے میں مجھے فلم ’ دی گریٹ ایسکیپ ، 1963‘ ( The Great Escape ) دیکھ کر پتہ چلا تھا جبکہ ’ رابرٹ ووگ ‘ بارے مجھے اس وقت جانکاری ہوئی جب پی ٹی وی پر اس کی ٹیلی سیریل ’ مین فرام انکل‘ چلی ۔
یہ وہ زمانہ تھا جب برطانوی فیچر اور ٹیلی فلمیں خاصے تواتر سے پاکستان میں آتی تھیں ۔ ’ ڈاکٹر نو، 1962 ‘ پاکستانی سینماﺅں ریلیز ہو چکی تھی اور 1964 ء میں پی ٹی وی کی نشریات شروع ہوتے ہی ہمیں ’ ڈینجر مین ‘ (Dangerman) دکھائی جانے لگی تھی ۔ ہمارے گھر ٹیلی وثیرن تو بعد میں آیا تھا لیکن میری بڑی بہن کے گھر ، جو اس وقت کرشن نگر کے آخری بس سٹاپ کے پاس رہائش پذیر تھی ، کے گھر یہ 1965 ء کے اوائل میں ہی آ چکا تھا اور میں خصوصی طور ’ ڈینجر مین‘ دیکھنے ان کے گھر جایا کرتا تھا ۔ ’ ڈینجر مین‘ ایک ’ جان ڈریک ‘ نامی خفیہ ایجنٹ کو کہتے تھے جو امریکہ و اس کے حواری مغربی ممالک اور سوویت یونین کے درمیان ’ سرد جنگ ‘ کے اس زمانے میں ’ نیٹو‘ ( NATO ) کی واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک خفیہ ایجنسی کے لئے کام کرتا ہے اور پچیس منٹ کی ہر ’ ایپی سوڈ ‘ میں’ نیٹو‘ مخالف کسی نہ کسی مہم میں ،’ ڈاکٹر نو‘ کے برعکس بِنا تھیار اورعورتوں سے معاشقہ لڑائے بغیر اپنے ’ ہدف‘ کو انجام تک پہنچاتے ہوئے دکھایا جاتا ہے ۔ اس کردار کو امریکی نژاد آئرش اداکار ’ پیٹرک میکگوہن‘ (Patrick McGoohan) ادا کیا کرتا تھا ۔
’ ڈینجر مین ‘ ختم ہوئی تو پی ٹی وی نے ہمیں اسی اداکار کی ’دی پرزنر ‘ (The Prisoner ) بھی دکھائی تھی ۔ پھر ’ دی ایوینجرز‘ (The Avengers ) جو دو جاسوس کرداروں ایک مرد ، جان سٹیڈ ، اورایک عورت جاسوس ، پر مشتمل تھی ، ساتھی عورتوں میں سب سے مشہور ہونے والا کردار ’ ایما پیل‘ کا تھا (جان سٹیڈ کا کردار پیڑک میکنی ادا کرتا تھا جبکہ ایما پیل کا کردار ڈائینا رِگ ادا کیا کرتی تھی ۔ )
’ مین فرام انکل‘ (Man from U.N.C.L.E ) بھی دو جاسوس کرداروں پر مبنی سیریز تھی ۔ میں نے اوپر جن ٹی وی سیریلز کا ذکر کیا وہ سب برطانوی تھیں جبکہ ’ مین فرام انکل‘ امریکی تھی جسے مشہور فلم ساز کمپنی ’ میڑو گولڈن مئیر‘ نے بنایا تھا ۔ اس کا مرکزی کردار’ نپولین سولو‘ تھا جسے ’رابرٹ ووگ ‘ ادا کرتا تھا ۔ اس کا ساتھی روسی ایلیا کُریاکِن تھا یہ کردار ’ ڈیوڈ میکلم ‘ ادا کرتا تھا ۔ یہ دونوں مل کر قانون کی برتری اور نفاذ کے لئے کام کرتے تھے ۔ ( ’ انکل‘ یونائیٹڈ نیٹ ورک فار لاءانیڈ اینفورسمنٹ کا مخفف تھا اور ’ میڑو گولڈن مئیر ‘غالباً اسے اقوام متحدہ کی جاسوس ایجنسی دکھانا چاہتی تھی ورنہ ’ انکل ‘ تو ’ سام ‘ کے ساتھ جُڑ کر امریکہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ ) ۔ ہم نے شاید پی ٹی وی پر اس کا ایک ہی سیزن دیکھا ہو گا لیکن یہ ستمبر 1964 ء سے لے کر جنوری 1968ء تک چلنے والی چار سیزنز پر مشتمل سیریز تھی جس میں’ لیزا روجرز‘ کے کردار کو چوتھے سیزن میں متعارف کرایا گیا تھا ۔ یہ اداکارہ ’بابرا مُور‘ ادا کرتی تھی ۔
’رابرٹ ووگ ‘ کی ایک اور سیریز ’ The Protectors ' بھی پی ٹی وی پر چلی تھی لیکن وہ مجھے کچھ زیادہ یاد نہیں کیونکہ میری سرگرمیاں بدل گئی تھیں ، اب میری شامیں پاک ٹی ہاﺅس ، چائنیز لنچ ہوم اور مال روڈ کے ایسے ریستورانوں میں گزرتیں تھیں جہاں ادب اور بائیں بازو کی سیاست پر محفلیں جمتی تھیں اور میں رات دیر گئے اس وقت ہی گھر لوٹتا تھا جب پی ٹی وی پر کلاسیکی موسیقی یا اسی طرح کا کوئی پروگرام لگا ہوتا تھا ۔ گو میرا ٹی وی دیکھنا کم ہو گیا تھا لیکن فلم بینی کی عادت جو مجھے ، میرے والد نے بچپن سے ہی ڈال دی تھی وہ اپنی جگہ برقرار تھی ۔
مجھے ’رابرٹ ووگ ‘ کی ایک اور فلم ’ The Bridge at Remagen ' یاد ہے جو میں نے 1970 ء کی دہائی کے کسی سال میں دیکھی تھی ۔ لاہور کے کس سینما میں ؟ یہ مجھے یاد نہیں ۔
ابھی جب میں اس کے بارے میں ریفرنیس میٹریل دیکھ رہا تھا تو مجھے پتہ چلا کہ اس نے اپنے کیرئیر کا آغاز سٹیج سے کیا تھا اور ٹی وی کی بہت سی سیریز میں مرکزی کردار کرنے کے علاوہ 80 کے لگ بھگ فلموں میں سپورٹنگ کردار ادا کئے تھے اور 1959ء کی فلم ’ The Young Philadelphians ‘ میں آسکر برائے بہترین سپورٹنگ اداکار کے لئے نامزد بھی ہوا تھا ۔ میں نے یہ فلم اس نوٹ کو لکھنے سے کچھ دیر پہلے ہی دیکھی ہے اور مجھے اندازہ ہوا ہے کہ اگر ’ بن حر‘ اس سال آسکرز کا میلہ نہ لوٹ لیتی ( یاد رہے کہ اس نے بشمعول بہترین سپورٹنگ اداکار’ ہگ گرفت‘ گیارہ آسکرز جیتے تھے ۔) تو یہ ایوارڈ ’رابرٹ ووگ ‘ کو ملنا تھا ۔
’پیٹرک میکگوہن‘ کو گزرے سات سال ہو گئے ہیں ، پیڑک میکنی پچھلے سال فوت ہوا اور اب ’رابرٹ ووگ ‘ بھی ان سے جا ملا ہے ۔ ’ سرد جنگ کے زمانے‘ کے جاسوس بننے والے کچھ اداکار ابھی زندہ ہیں جیسے کہ مین فرام انکل میں اس کا ساتھی’ ڈیوڈ میکلم ‘ ، اور وہ مصروف بھی ہے ۔ وہ 2003 ء سے امریکی CBS ٹیلیویژن کی سیریل ’ NCIS ‘ میں بطورڈاکٹر ڈونلڈ ملرڈ عرف ’ ڈَکی‘ کام کر رہا ہے (’ NCIS ' مخفف ہے ‘ Naval Criminal Investigative Service ' کا ۔ ) ۔
’رابرٹ ووگ ‘ جی وہ آپ کا ہم عمر تو ہے لیکن اسے زندگی ابھی کتنا مصروف رکھتی ہے یہ آپ اوپر بیٹھ کر دیکھیں اور انتظار کریں کہ کب آپ کی جوڑی مکمل ہوتی ہے ۔ تب ہی آپ خدا اور شیطان میں جاری ’سرد جنگ ‘ کا کچھ کر سکیں گے ۔ ہو سکے تو پیٹرک میکگوہن اور پیڑک میکنی کو بھی ساتھ ملا لیجئے گا کہ انہیں بھی سرد جنگ کا خاصا تجربہ ہے ۔
https://www.facebook.com/qaisar.khawar/posts/10153805475261895