اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں ہے
بیماری تھی اور ایسی کہ ناقابلِ بیان! شاہی ڈاکٹر عاجز آ گیا۔ بالآخر ڈاکٹروں کا بورڈ بٹھایا گیا، تشخیص پر بحث ہوئی اور پھر اس بات پر کہ دوا کون سی تجویز کی جائے! متفقہ فیصلہ اس پر ہوا کہ انسان کا پِتّہ ہی شفا دے سکے گا بشرطیکہ عام آدمی کا نہ ہو بلکہ صرف اُس شخص کا جس میں فلاں فلاں صفات ہوں۔ اب ڈھنڈیا پڑ گئی۔ سوال بادشاہ کا نہیں! سلطنت کی بقا کا تھا۔ بادشاہوں کے بغیر کیا سلطنت اور کون سے عوام، بادشاہ محفوظ ہے اور برسرِ اقتدار ہے تو سب کچھ ہے! ایک دہقان کا لڑکا ان مخصوص صفات کا حامل ملا۔ لڑکے کے ماں باپ کو سلطنت کی اہمیت سمجھائی گئی۔ وہ بادشاہ کی جان بچانے کے لئے بیٹے کی زندگی قربان کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ ہاں! کچھ قیمت اِس آمادگی کی انہوں نے ضرور وصول کی! لیکن اصل مسئلہ ماں باپ کی رضامندی کا نہ تھا، عدلیہ کا تھا! مسلمانوں کی تاریخ میں عدلیہ نے ہمیشہ حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے۔ سعدی کی یہ حکایت جو ہم بیان کر رہے ہیں، ایک مثال ہے اُس تابناک کردار کی جو ہماری عدلیہ ہمیشہ سے ادا کرتی رہی ہے، ملک و قوم کے لئے، سلطنت کے لئے، بادشاہ کی سلامتی کے لئے، بادشاہ کے اقتدار کی بقا کی خاطر! اُس بادشاہ کی عدلیہ نے بھی فیصلہ دیا کہ بادشاہ اور اس کے اقتدار کی سلامتی کے لئے رعیت میں سے کسی کا خون بہا دینا جائز ہے!
حکایت کا بقیہ حصہ عدلیہ کے تابناک کردار کے متعلق نہیں، مگر سنا دینے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں! جلاد لڑکے کا سر قلم کرنے لگا تو لڑکے نے منہ آسمان کی طرف کیا، جون ایلیا نے پوچھا تھا ؎
یہ جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا؟
آسمان کی طرف منہ کر کے وہ ہنسا، بادشاہ نے حیرت سے پوچھا کہ ہنسی کا کون سا موقع ہے! لڑکے نے جواب دیا کہ جہاں پناہ! بچوں کے ناز ماں باپ اٹھاتے ہیں، یہاں تو انہوں نے بچے کی زندگی کا معاوضہ ہی وصول کر لیا۔ پھر عدلیہ پر تکیہ ہوتا ہے، اس نے بھی بادشاہ کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے، رعیت کا مائی باپ بادشاہ ہوتا ہے، وہ تو خود میرے پِتے کا طلب گار ہے! اب خدا ہی ہے جس کو مخاطف کر کے میں ہنس رہا تھا۔ بادشاہ کا دل پسیج گیا۔ اس نے کہا کہ ایک بے گناہ کا خون بہانے سے میرا ہلاک ہو جانا بہتر ہے! لڑکے کی جان بخشی ہوئی۔ کہتے ہیں اُسی ہفتے بادشاہ روبصحت ہو گیا۔
لیکن یہ اُس زمانے کی باتیں ہیں جو ہمارا نہیں! ہمارا زمانہ اور ہے! بادشاہ کا رعیت کو اپنے اوپر ترجیچ دینا؟ آج کے عہد میں تو ایسا سوچنا بھی حماقت ہے!
بات عدلیہ کے قابلِ رشک کردار کی ہو رہی تھی۔ ہماری تاریخ سنہری مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کی عدلیہ نے رُولنگ دی تھی کہ جو بھی تخت نشین ہو، اس کا اپنے بھائیوں کو قتل کرنا جائز ہے، تاکہ جمہوریت، نہیں! معاف کیجئے گا، سلطنت کو استحکام نصیب ہو!
شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر بھی عدلیہ سے پوچھے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتا تھا۔ باپ کو ’’عوام‘‘ کی بہتری کے لئے سالہاسال نظربند رکھا۔ معلوم نہیں عدلیہ سے پوچھا تھا یا نہیں، مگر اتنا سب جانتے ہیں کہ اس معاملے میں عدلیہ نے کوئی ازخود نوٹس نہ لیا۔ پھر جب دارا شکوہ قید ہوا اور اس نے بادشاہ کو رحم کی اپیل کی تو بادشاہ نے عدلیہ کی طرف دیکھا۔ عدلیہ نے سلطنت کے استحکام اور عوام کے بھلے کی خاطر قتل کا فیصلہ دیا۔ اورنگ زیب کا دوسرا بھائی مراد گوالیار کے قلعے میں قید تھا۔ تین سال ہو گئے تھے۔ بھائی صاحب داعیِٔ اجل کو لبیک ہی نہیں کہہ رہے تھے۔ سوچ بچار ہوئی۔ معلوم ہوا کہ مراد نے اپنے ایک قریبی امیر علی ناطق کو گجرات میں سزائے موت دی تھی۔ علی ناطق کے بیٹے کو کہا گیا کہ عدالت میں مقدمہ دائر کرو کہ ’’خون کے بدلے خون‘‘ کے اصول کی رو سے قاتل کو قتل کیا جائے۔ مورخ لکھتے ہیں کہ بادشاہ نے گوالیار میں متعین جج صاحب کو ہدایت کی کہ قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے اور شہزادے سے خون کا بدلہ لیا جائے!
جون ایلیا پھر یاد آ گیا ؎
نسبتِ علم ہے بہت حاکمِ وقت کو عزیز
اُس نے تو کارِ جہل بھی بے علما نہیں کیا
خیر… اس شعر کا ہمارے نفسِ مضمون سے کوئی تعلق نہیں! ہم تو عدلیہ کی روشن روایات کا ذکر کر رہے تھے! اسمبلی تحلیل کی گئی تو مولوی تمیزالدین خان نے عدلیہ کے چوبی منقش دروازے پر جا دستک دی! کھٹ کھٹ کھٹ… بقول منیر نیازی ع
کھولو یہ بھاری دروازہ!
مجھ کو اندر آنے دو
اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور!
عدلیہ کا بھاری دروازہ مولوی تمیزالدین خان پر کُھلا اور عدلیہ نے سلطنت عثمانیہ اور مغل سلطنت کی عظیم روایات برقرار رکھتے ہوئے حکومت کے حق میں فیصلہ دیا۔ ہاں! سُنا ہے کہ ایک غیر مسلم جج کارنیلیئس نامی تھا جس نے اختلافی نوٹ لکھا تھا اور اسمبلی کو تحلیل کرنے کی مخالفت کی تھی! اب ایک غیر مسلم کو اسلامی ملک کی فلاح و بہبود سے کیا غرض! مولوی تمیزالدین خان نے مُنہ کی کھائی… اور بقول منیر نیازی ع
اس کے بعد اک لمبی چُپ اور تیز ہوا کا شور!
لمبی چُپ میں ارتعاش ایک بار پھر اُس وقت پیدا ہوا، جب مارشل لاء کے خلاف بیگم نصرت بھٹو نے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ عدلیہ نے پھر انصاف کیا اور مارشل لاء کو عوامی بہبود کی خاطر ناگزیر قرار دیا!
2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے عدلیہ نے جو حالیہ رولنگ دی ہے اُس پر کچھ کوتاہ نظر، کچھ عاقبت نااندیش، اعتراض کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ کہیں ماڈل ٹاؤن کے چودہ افراد کے قتل کی بات کی جا رہی ہے تو کہیں کچھ اور کہا جا رہا ہے! اللہ کے بندو! سلطنت کے استحکام کی فکر کرو! جمہوریت کے تسلسل کو غنیمت جانو! اگر اڑھائی کروڑ بیلٹ پیپر گم ہو گئے تو کیا ہوا! اڑھائی کروڑ بیلٹ پیپر… کاغذ کے اڑھائی کروڑ بے جان ٹکڑے… کوڑے کرکٹ کے ڈھیر… زیادہ قیمتی ہیں یا بیس کروڑ عوام کی فلاح؟ ہم بھلا کاغذ کے بے جان ٹکڑوں کی خاطر اپنے بادشاہوں کو کیوں ناخوش کرتے رہیں! اس سے پہلے ہمارے ایک بادشاہ جنرل ضیاء الحق نے آئین کو کاغذ کا بے جان ٹکڑا کہا تھا جسے وہ آسانی سے پارہ پارہ کر سکتا تھا!
یہ کیا ہوا؟ باہر ہوا کا شور ہے! تیز ہوا کا شور! میں کھڑکی کے شیشوں سے باہر دیکھتا ہوں، پتے اُڑ رہے ہیں۔ ہر طرف ویرانی ہے! اندھیرا بڑھ رہا ہے۔ ایک افق سے دوسرے افق تک تاریکی کا بدصورت ہاتھ بڑھے جا رہا ہے۔ دشت کی مرگ آسا وسعت ہر طرف چھا رہی ہے۔ خیمے اکھڑ رہے ہیں۔ طنابیں ٹوٹ رہی ہیں۔ ریت کے ٹیلاب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں ہے
بیماری تھی اور ایسی کہ ناقابلِ بیان! شاہی ڈاکٹر عاجز آ گیا۔ بالآخر ڈاکٹروں کا بورڈ بٹھایا گیا، تشخیص پر بحث ہوئی اور پھر اس بات پر کہ دوا کون سی تجویز کی جائے! متفقہ فیصلہ اس پر ہوا کہ انسان کا پِتّہ ہی شفا دے سکے گا بشرطیکہ عام آدمی کا نہ ہو بلکہ صرف اُس شخص کا جس میں فلاں فلاں صفات ہوں۔ اب ڈھنڈیا پڑ گئی۔ سوال بادشاہ کا نہیں! سلطنت کی بقا کا تھا۔ بادشاہوں کے بغیر کیا سلطنت اور کون سے عوام، بادشاہ محفوظ ہے اور برسرِ اقتدار ہے تو سب کچھ ہے! ایک دہقان کا لڑکا ان مخصوص صفات کا حامل ملا۔ لڑکے کے ماں باپ کو سلطنت کی اہمیت سمجھائی گئی۔ وہ بادشاہ کی جان بچانے کے لئے بیٹے کی زندگی قربان کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ ہاں! کچھ قیمت اِس آمادگی کی انہوں نے ضرور وصول کی! لیکن اصل مسئلہ ماں باپ کی رضامندی کا نہ تھا، عدلیہ کا تھا! مسلمانوں کی تاریخ میں عدلیہ نے ہمیشہ حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے۔ سعدی کی یہ حکایت جو ہم بیان کر رہے ہیں، ایک مثال ہے اُس تابناک کردار کی جو ہماری عدلیہ ہمیشہ سے ادا کرتی رہی ہے، ملک و قوم کے لئے، سلطنت کے لئے، بادشاہ کی سلامتی کے لئے، بادشاہ کے اقتدار کی بقا کی خاطر! اُس بادشاہ کی عدلیہ نے بھی فیصلہ دیا کہ بادشاہ اور اس کے اقتدار کی سلامتی کے لئے رعیت میں سے کسی کا خون بہا دینا جائز ہے!
حکایت کا بقیہ حصہ عدلیہ کے تابناک کردار کے متعلق نہیں، مگر سنا دینے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں! جلاد لڑکے کا سر قلم کرنے لگا تو لڑکے نے منہ آسمان کی طرف کیا، جون ایلیا نے پوچھا تھا ؎
یہ جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا؟
آسمان کی طرف منہ کر کے وہ ہنسا، بادشاہ نے حیرت سے پوچھا کہ ہنسی کا کون سا موقع ہے! لڑکے نے جواب دیا کہ جہاں پناہ! بچوں کے ناز ماں باپ اٹھاتے ہیں، یہاں تو انہوں نے بچے کی زندگی کا معاوضہ ہی وصول کر لیا۔ پھر عدلیہ پر تکیہ ہوتا ہے، اس نے بھی بادشاہ کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے، رعیت کا مائی باپ بادشاہ ہوتا ہے، وہ تو خود میرے پِتے کا طلب گار ہے! اب خدا ہی ہے جس کو مخاطف کر کے میں ہنس رہا تھا۔ بادشاہ کا دل پسیج گیا۔ اس نے کہا کہ ایک بے گناہ کا خون بہانے سے میرا ہلاک ہو جانا بہتر ہے! لڑکے کی جان بخشی ہوئی۔ کہتے ہیں اُسی ہفتے بادشاہ روبصحت ہو گیا۔
لیکن یہ اُس زمانے کی باتیں ہیں جو ہمارا نہیں! ہمارا زمانہ اور ہے! بادشاہ کا رعیت کو اپنے اوپر ترجیچ دینا؟ آج کے عہد میں تو ایسا سوچنا بھی حماقت ہے!
بات عدلیہ کے قابلِ رشک کردار کی ہو رہی تھی۔ ہماری تاریخ سنہری مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کی عدلیہ نے رُولنگ دی تھی کہ جو بھی تخت نشین ہو، اس کا اپنے بھائیوں کو قتل کرنا جائز ہے، تاکہ جمہوریت، نہیں! معاف کیجئے گا، سلطنت کو استحکام نصیب ہو!
شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر بھی عدلیہ سے پوچھے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتا تھا۔ باپ کو ’’عوام‘‘ کی بہتری کے لئے سالہاسال نظربند رکھا۔ معلوم نہیں عدلیہ سے پوچھا تھا یا نہیں، مگر اتنا سب جانتے ہیں کہ اس معاملے میں عدلیہ نے کوئی ازخود نوٹس نہ لیا۔ پھر جب دارا شکوہ قید ہوا اور اس نے بادشاہ کو رحم کی اپیل کی تو بادشاہ نے عدلیہ کی طرف دیکھا۔ عدلیہ نے سلطنت کے استحکام اور عوام کے بھلے کی خاطر قتل کا فیصلہ دیا۔ اورنگ زیب کا دوسرا بھائی مراد گوالیار کے قلعے میں قید تھا۔ تین سال ہو گئے تھے۔ بھائی صاحب داعیِٔ اجل کو لبیک ہی نہیں کہہ رہے تھے۔ سوچ بچار ہوئی۔ معلوم ہوا کہ مراد نے اپنے ایک قریبی امیر علی ناطق کو گجرات میں سزائے موت دی تھی۔ علی ناطق کے بیٹے کو کہا گیا کہ عدالت میں مقدمہ دائر کرو کہ ’’خون کے بدلے خون‘‘ کے اصول کی رو سے قاتل کو قتل کیا جائے۔ مورخ لکھتے ہیں کہ بادشاہ نے گوالیار میں متعین جج صاحب کو ہدایت کی کہ قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے اور شہزادے سے خون کا بدلہ لیا جائے!
جون ایلیا پھر یاد آ گیا ؎
نسبتِ علم ہے بہت حاکمِ وقت کو عزیز
اُس نے تو کارِ جہل بھی بے علما نہیں کیا
خیر… اس شعر کا ہمارے نفسِ مضمون سے کوئی تعلق نہیں! ہم تو عدلیہ کی روشن روایات کا ذکر کر رہے تھے! اسمبلی تحلیل کی گئی تو مولوی تمیزالدین خان نے عدلیہ کے چوبی منقش دروازے پر جا دستک دی! کھٹ کھٹ کھٹ… بقول منیر نیازی ع
کھولو یہ بھاری دروازہ!
مجھ کو اندر آنے دو
اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور!
عدلیہ کا بھاری دروازہ مولوی تمیزالدین خان پر کُھلا اور عدلیہ نے سلطنت عثمانیہ اور مغل سلطنت کی عظیم روایات برقرار رکھتے ہوئے حکومت کے حق میں فیصلہ دیا۔ ہاں! سُنا ہے کہ ایک غیر مسلم جج کارنیلیئس نامی تھا جس نے اختلافی نوٹ لکھا تھا اور اسمبلی کو تحلیل کرنے کی مخالفت کی تھی! اب ایک غیر مسلم کو اسلامی ملک کی فلاح و بہبود سے کیا غرض! مولوی تمیزالدین خان نے مُنہ کی کھائی… اور بقول منیر نیازی ع
اس کے بعد اک لمبی چُپ اور تیز ہوا کا شور!
لمبی چُپ میں ارتعاش ایک بار پھر اُس وقت پیدا ہوا، جب مارشل لاء کے خلاف بیگم نصرت بھٹو نے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ عدلیہ نے پھر انصاف کیا اور مارشل لاء کو عوامی بہبود کی خاطر ناگزیر قرار دیا!
2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے عدلیہ نے جو حالیہ رولنگ دی ہے اُس پر کچھ کوتاہ نظر، کچھ عاقبت نااندیش، اعتراض کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ کہیں ماڈل ٹاؤن کے چودہ افراد کے قتل کی بات کی جا رہی ہے تو کہیں کچھ اور کہا جا رہا ہے! اللہ کے بندو! سلطنت کے استحکام کی فکر کرو! جمہوریت کے تسلسل کو غنیمت جانو! اگر اڑھائی کروڑ بیلٹ پیپر گم ہو گئے تو کیا ہوا! اڑھائی کروڑ بیلٹ پیپر… کاغذ کے اڑھائی کروڑ بے جان ٹکڑے… کوڑے کرکٹ کے ڈھیر… زیادہ قیمتی ہیں یا بیس کروڑ عوام کی فلاح؟ ہم بھلا کاغذ کے بے جان ٹکڑوں کی خاطر اپنے بادشاہوں کو کیوں ناخوش کرتے رہیں! اس سے پہلے ہمارے ایک بادشاہ جنرل ضیاء الحق نے آئین کو کاغذ کا بے جان ٹکڑا کہا تھا جسے وہ آسانی سے پارہ پارہ کر سکتا تھا!
یہ کیا ہوا؟ باہر ہوا کا شور ہے! تیز ہوا کا شور! میں کھڑکی کے شیشوں سے باہر دیکھتا ہوں، پتے اُڑ رہے ہیں۔ ہر طرف ویرانی ہے! اندھیرا بڑھ رہا ہے۔ ایک افق سے دوسرے افق تک تاریکی کا بدصورت ہاتھ بڑھے جا رہا ہے۔ دشت کی مرگ آسا وسعت ہر طرف چھا رہی ہے۔ خیمے اکھڑ رہے ہیں۔ طنابیں ٹوٹ رہی ہیں۔ ریت کے ٹیلوں میں کہیں کہیں ہڈیاں اور انسانی جسموں کے ٹکڑے نظر آتے ہیں! دُور… پانی کی لہریں چمکتی دکھائی دیتی ہیں مگر آہ! وہ پانی نہیں! سراب ہے! محض سراب!
کس سے پوچھیں؟ تاریخ سے؟ یا اپنے بخت سے؟ لیکن کون سی تاریخ؟ کون سا بخت؟ ایک آواز آہستہ آہستہ کہیں دُور سے آ رہی ہے! میں کان لگاتا ہوں! یہ شاہین عباس کی غزل ہے۔ میرا بخت گا رہا ہے! سیاہ رنگ کا بخت! لیکن آواز کتنی دردناک ہے!! ؎
اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں ہے
کبھی ہوتی ہے مٹی اور کبھی ہوتی نہیں ہے
ہمیں ان حالوں ہونا بھی کوئی آسان ہے کیا
محبت ایک ہے اور ایک بھی ہوتی نہیں ہے
دیا پہنچا نہیں ہے، آگ پہنچی ہے گھروں تک
پھر ایسی آگ جس سے روشنی ہوتی نہیں ہے
نکل جاتے ہیں سر پر بے سر و سامانی لادے
بھری لگتی ہے گٹھڑی اور بھری ہوتی نہیں ہے
وں میں کہیں کہیں ہڈیاں اور انسانی جسموں کے ٹکڑے نظر آتے ہیں! دُور… پانی کی لہریں چمکتی دکھائی دیتی ہیں مگر آہ! وہ پانی نہیں! سراب ہے! محض سراب!
کس سے پوچھیں؟ تاریخ سے؟ یا اپنے بخت سے؟ لیکن کون سی تاریخ؟ کون سا بخت؟ ایک آواز آہستہ آہستہ کہیں دُور سے آ رہی ہے! میں کان لگاتا ہوں! یہ شاہین عباس کی غزل ہے۔ میرا بخت گا رہا ہے! سیاہ رنگ کا بخت! لیکن آواز کتنی دردناک ہے!! ؎
اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں ہے
کبھی ہوتی ہے مٹی اور کبھی ہوتی نہیں ہے
ہمیں ان حالوں ہونا بھی کوئی آسان ہے کیا
محبت ایک ہے اور ایک بھی ہوتی نہیں ہے
دیا پہنچا نہیں ہے، آگ پہنچی ہے گھروں تک
پھر ایسی آگ جس سے روشنی ہوتی نہیں ہے
نکل جاتے ہیں سر پر بے سر و سامانی لادے
بھری لگتی ہے گٹھڑی اور بھری ہوتی نہیں ہے
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“