مسکٹ 1860 سے پہلے فوجیوں کا خاص ہتھیار تھا۔ اس کو آگے سے لوڈ کیا جاتا تھا اور یہ جلد لوڈ ہو جاتا تھا کیونکہ اس کی گولی اس کی نالی سے چھوٹی ہوتی تھی۔ البتہ اس کا ایک نقصان تھا۔ نالی اور گولی کے درمیان کی جگہ کی وجہ سے ہوا کے بننے والے کرنٹ گولی کو گھما دیتے تھے اور جب گولی نکلتی تھی تو ان کے زیرِ اثر اپنی سمت سیدھی نہیں رکھتی تھی بلکہ ایسے جیسے کسی ایسے سوئنگ باوٗلر کی کروائی گئی گیند ہو جس نے گیند پر خاصی “محنت” کی ہو۔ اس سے نشانہ ٹھیک نہیں لیا جا سکتا تھا۔
ملٹری کے پاس ایک اور قسم کی گن تھی جو رائفل تھی لیکن اس کا مسئلہ اس سے بالکل الٹ تھا۔ اس سے ٹھیک ٹھیک نشانہ باندھا جا سکتا تھا۔ اچھے نشانہ باز کئی سو گز دور پرندے کی دم اڑا سکتے تھے لیکن سست تھی۔ اس کے اچھے نشانے کی وجہ اس کی اندرونی نالی تھی جس میں ٹائٹ اور سپائرل والے نالیں تھیں۔ یہ اس گولی کو اس طرح ٹھیک گھماتے تھے جیسا کہ فٹ بال۔ اس کو کام کرنے کے لئے نالی اور گولی کو ایک دوسرے سے ملے ہونا ضروری تھا یعنی ان کا سائز ایک ہی ہونا چاہیے تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ اس کو لوڈ کرنا مشکل تھا۔ ڈنڈے کی مدد سے ایک ایک انچ کر کے اس کو آگے بڑھایا جاتا تھا۔ اور یہ عمل کئی بار جام ہو جانے اور بہت سی گالیوں کے ہمراہ ہوا کرتا تھا۔
ہندوستان میں تعینات ایک برطانوی فوجی نے دیکھا کہ انڈین جنگجو اپنے بلو ڈارٹ کے ساتھ کنول کے کھوکھلے بیج باندھتے ہیں۔ جب اس کو فائر کیا جائے تو یہ باہر کی طرف نکلتے ہیں اور نالی کے ساتھ کی جگہ بھر دیتے ہیں اور نشانہ بہتر کر دیتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر برطانوی فوجیوں نے ایک دھاتی گولی ایجاد کی جو کھوکھلی تھی۔ اس کا ڈیزائن 1847 میں ایک فرنچ افسر کلاڈ من یے نے بہتر کیا۔ من یے کی گولیاں رائفل کی نالی سے چھوٹی تھیں، اس لئے لوڈ ہو جاتی تھیں جبکہ کنول کے بیجوں کی طرح فائر ہونے پر یہ پھیلتی تھیں اور نالی کے گرووز کے ساتھ ساتھ سفر کرتی تھیں۔ مسکٹ کی طرح لوڈ کرنے میں آسان جبکہ رائفل کے طرح نشانے والی۔ اس کے علاوہ ان گولیوں کو نرم سیسے سے بنایا گیا تھا اور یہ جسم سے بس گزر نہیں جاتی تھیں بلکہ پھیل جاتی تھیں اور ٹشو پھاڑ دیتی تھیں۔ جلد لوڈ ہو جانے، اچھے نشانے اور بڑے زخم بنانے کی وجہ سے من یے کی رائفل اور گولی کی کمبی نیشن اس وقت موجود کسی بھی بندوق کے مقابلے میں تین گنا زیادہ مہلک تھی اور جو مرتا نہیں تھا، معذور ہو جاتا تھا جس کو ٹھیک بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
امریکہ میں 1855 میں جنگ کے سیکرٹری جیفرسن ڈیوس نے امریکہ کے لئے اس ڈیزائن کو آفیشل بندوق اور گولی بنا دیا۔ (چھ سال بعد یہ جیفرسن ڈیوس کنفڈریسی کے صدر بنے اور ان گولیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت وہ اپنے فیصلے پر پچھتائے ہوں گے)۔ پانچ فٹ لمبی اس گن کی قیمت آج کی کرنسی کے حساب سے تیس ہزار روپے تھے۔ گولیاں سستی تھیں، یہ لاکھوں کی تعداد میں بننا شروع ہوئیں اور انہوں نے ہر جگہ پر لوگوں کو مارنا شروع کر دیا۔
امریکی فوج میں ہر ایک کو سنگین بھی دی جاتی تھی۔ اٹھارہ انچ لمبا خنچر تھا جو اس نئی بندوق کے آنے کے بعد بے کار ہو گیا کیونکہ آپس میں مڈبھیڑ میں اتنا قریب آنے کا وقت ہی نہیں ملتا تھا (ایک بار مچل نے گنا تھا کہ سنگینوں کے مقابلے میں خچروں کی لاتوں سے مرنے والوں کی تعداد زیادہ تھی)۔
اس نئے ہتھیار نے شجاعت اور بہادری کا مطلب اور جنگی طریقے بدل دئے۔ توپوں کو انفینٹری سے کہیں پیچھے لے جانا پڑا۔ گھوڑوں کا میدان جنگ سے خاتمہ ہوا۔ کیونکہ گھوڑے کا نشانہ لینا زیادہ آسان تھا کہ یہ بڑا ٹارگٹ تھا اور اس کو ختم کرنے کے لئے ایک گولی کافی تھی۔ امریکی خانہ جنگی میں میدانِ جنگ میں مرنے والوں میں نوے فیصد من یے کی ایجاد کا نشانہ بنے۔ ہزاروں سال تک جنگ کا سب سے موثر ہتھیار گھوڑا ہوا کرتا تھا۔ اس گن نے گھوڑے کا بڑی جلد ہی میدانِ جنگ سے خاتمہ کر دیا۔
پرانی سوچ والے خانہ جنگی کے کمانڈر جو بے خوف طریقے سے شجاعت اور بہادری کے ایندھن پر نعرے لگا کے آگے کی طرف دوڑنے کی حکمتِ عملی ترک نہ کر سکے تھے، انہوں نے بھاری جانی نقصان اٹھایا۔ نپولین یا چنگیز خان جیسی افواج کی لڑائی کا طریقہ اس نئے ہتھیار کے آگے بے کار تھا۔ اس کی بدترین مثال گیٹسبرگ میں ہوئی جب ساڑھے بارہ ہزار کنفیڈریٹ فوجیوں نے بے جگری سے دشمن کی طرف بڑھ کر حملہ کیا۔ آگے سے یہ ننھی منی سی گولیاں انتظار کر رہی تھیں۔ انہوں نے آگے بڑھنے والوں کی ہڈیاں اور جسم چورا چور کر دئے۔
فوجی سرجنوں نے زخمیوں کے بازو اور ٹانگیں کاٹنے کی ایفی شنٹ تکنینک اس دور میں ڈویلپ کی۔ اگر یہ نہ کاٹے جاتے تو نوے فیصد فوجی مر جاتے تھے۔ کاٹنے کے بعد مرنے والوں کی تعداد دو تہائی رہ جاتی تھی۔ چار منٹ میں ڈاکٹر اور اسسٹنٹ مل کر ایک فوجی کا عضو کاٹ دیتے اور ایک سرجن کی یہ تمام دن کی ڈیوٹی تھی۔ ایک کے بعد اگلا مریض ۔۔۔
آتشیں اسلحے نے جنگ اور شجاعت کی تعریف، اس جنگ کا رومانس اور اس کا چہرہ بدل دیا تھا۔ میدانِ جنگ میں سب کے سامنے دشمن کو للکارتا نڈر اور جری جوان اب محض ماضی کی کہانیوں کا حصہ بن گیا۔ اس تضادوں سے بھری دنیا میں دوسروں کو موثر طریقے سے قتل اور معذور کر دینے والے یہ مہلک ہتھیار آنے والے امن کا پیغام تھے۔