یک سِنگھے
تیسرا افسانہ ؛ آتش زنی
(Barn Burning , 1983 )
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
اقتباسات
میں اُسے اپنے ایک جاننے والے کی شادی کی تقریب میں ملا تھا اور ہم میں دوستی ہو گئی تھی ۔ یہ تین سال پہلے ہوا تھا ۔ ہم دونوں عمر کے اعتبار سے تقربیاً ایک نسل کا فرق رکھتے تھے ۔ ۔ ۔ وہ بیس کی تھی جبکہ میں اکتیس کا ۔ ۔ ۔ لیکن یہ فرق بمشکل ہی ہمارے درمیان حائل ہوا تھا ۔ میرے ذہن میں اور بہت سی چیزیں اس وقت ایسی تھیں جن پر میں فکر مند رہتا تھا اور یقین مانیں میرے پاس ایک لمحہ بھی فارغ نہ تھا کہ میں عمر کے اس تفاوت پر غور کرتا ۔ اوراسے بھی شروع سے ہی ہماری عمروں کے فرق نے پریشان نہ کیا تھا ۔ میں شادی شدہ تھا لیکن یہ بات بھی اہم نہ تھی ۔ لگتا تھا جیسے عمر ، کنبہ اور آمدن اس کے لئے بس اتنی ہی ترجیح رکھتے تھے جیسے جوتے کا سائز ، آواز کا اتار چڑھاﺅ یا پھر کسی کی انگلیوں کے ناخنوں کی بناوٹ اہم ہوتے ہیں ۔ کچھ ایسی بات جس کے بارے میں سوچنے سے اس میں ذرہ بھرتبدیلی نہیں آتی ۔ یہ سب بتانے کا مقصد ہے کہ اس کی بات میں وزن تھا ۔
وہ آمدن کے لئے اشتہاروں کے لئے ’ ماڈل ‘ کا کام کرتی تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ کسی ایک یا دوسرے سے ، بظاہر مشہور استاد سے ’اشاراتی تمثیلی اداکاری‘ سیکھ رہی تھی ۔ کام ملنے کے حوالے سے معاملات کچھ بہتر نہ تھے کیونکہ وہ اپنے ایجنٹ کے لائے اور تجویز کردہ اکثر کام کرنے سے انکار کر دیتی تھی چنانچہ اس کے پاس پیسوں کی صورت حال حقیقتاً مخدوش ہی رہتی تھی ۔ وہ آمدن کی اس کمی کو ، غالباً ،اپنے بہت سے مرد دوستوں کی مدد سے پورا کر لیتی تھی ۔ میں یہ بات کچھ زیادہ یقین سے نہیں کہہ سکتا ؛ یہ وہ بات ہے جو میں نے اس کی گفتگو کے ٹکڑوں سے جوڑ کر بنائی ہے ۔
اس کے باوجود میں اس بات کی طرف ہرگز بھی اشارہ نہیں کر رہا کہ وہ پیسوں کی خاطر، مردوں کے ساتھ سوتی تھی گو کہ شاید کئی موقعوں پربات اس کے قریب قریب ہی جا پہنچتی تھی ۔ خیر اگر وہ ایسا کرتی بھی تھی تو بھی یہ کوئی اہم مسئلہ نہ تھا ؛ ضروریات یقیناً اس سے کہیں زیادہ سادی و لازمی تھیں ۔ اور لمبی بات کا اختصار یہ کہ یہی بھولی بھالی سادگی ہی کو تو مردوں کی ایک خاص قسم کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی ۔ اس طرح کے مرد ، جنہوں نے اسی سادگی پر نظریں جمائی ہوتی تھیں جبکہ وہ اپنے اندر کی اَلم اغلم خواہشات کو قرینہ بھی دے رہے ہوتے تھے ۔ یہ کوئی اچھی وضاحت نہیں ، لیکن وہ بھی یہ بات مانتی کہ یہی سادگی اس کی مددگار تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم ، جب ، پہلی بار ملے تھے تو اس نے یہ کہا تھا کہ وہ ’ اشاراتی تمثیلی اداکاری‘ سیکھ رہی تھی ۔
”واقعی ، سچ میں “ ، میں نے کہا تھا ، گو میں اس بات سے قطعاً حیران نہیں ہوا تھا ۔ ساری نوجوان عورتیں ان دنوں کسی نہ کسی کام میں لگی ہوتی تھیں ۔ اور یہ بھی تھا کہ وہ دیکھنے میں اس قسم کی نہ تھی کہ آپ اسے دیکھتے ہی اس پر فریفتہ ہو جائیں ۔
اور پھر اس نے ایک ’ کنو ‘ مالٹا چھیلا ۔ محاورتاً نہیں ، سچ میں اس نے ایسا کیا ؛ اس کے بائیں طرف کنو مالٹوں سے بھرا ایک شیشے کا ڈونگا اور دائیں طرف ایک اور ڈونگا ، چھلکوں کے لئے ، تھا۔ ۔ ۔ یہ ترتیب و تنظیم جاری تھی ۔ ۔ ۔ اصل میں وہاں کچھ بھی نہ تھا ۔ وہ ایک خیالی ’ کنو‘ مالٹا اٹھاتی ، پھر آہستہ آہستہ اسے چھیلتی اور اس کی پھانکیں منہ میں ڈالتی رہتی ۔ اس کا پھوک باہر نکالتی اور چھلکوں پر رکھتی جاتی اور جب پورا مالٹا ختم ہو جاتا تو پھوک کو چھلکوں میں لپیٹ کر دائیں ہاتھ والے پیالے میں رکھ دیتی ۔ وہ یہ تدبیر با ر بار دہراتی ۔ ان الفاظ میں شاید یہ کچھ زیادہ بھلا نہ لگتا ہو لیکن میں قسمیہ کہتا ہوں کہ دس یا بیس منٹ تک اسے ایسا کرتے دیکھنا ۔ ۔ ۔ جب کہ وہ اور میں ’ بار‘ کے کاﺅنٹر پر بیٹھے باتیں کر رہے ہوتے تھے ، اس کا اس طرح ’ کنو ‘ چھیلنا ، بنا کسی دوسرے خیال کے ۔ ۔ ۔ ۔ مجھ پر یہ حقیقت آشکار کر دیتا تھا کہ میرے ارد گرد کی ہر شے بہہ چکی ہے ۔ یہ نہیں تو ایسا ضرور تھا کہ بندے کے اوسان خطا ہو جائیں ۔ اور جب اسرائیل میں’ ایخمان ‘ کا مقدمہ چلا تھا تو اس وقت یہ بات چلی تھی کہ اس کے لئے سب سے زیادہ مناسب سزا یہ ہو گی کہ اسے ایک کوٹھری میں بند کردیا جائے اور آہستہ آہستہ اس میں سے ہوا کھینچ لی جائے ۔ مجھے صحیح طور پر تو نہیں معلوم کہ اسے کیسے مارا گیا تھا لیکن اسے ایسا کرتے دیکھ کر میرے ذہن میں یہی خیال آیا تھا ۔
” لگتا ہے کہ تم بہت با صلاحیت ہو “ ، میں نے کہا۔
” ارے ، یہ کچھ بھی نہیں ہے ۔ اس میں کسی صلاحیت کا عمل دخل نہیں ہے ۔ سوال یہ نہیں ہے کہ آپ نے یہ یقین کرنا ہے کہ وہاں کنو مالٹا ہے ، آپ کو تو صرف یہ بھولنا ہے کہ وہ وہاں نہیں ہے ۔ بس اتنی سی بات ہے ۔“
” عملی طور پر یہ ’زین‘ کا گیان لگتا ہے۔ “
وہ تبھی مجھے پسند آ گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔