آج – 13؍جنوری 1848
مرزا غالبؔ کے ہم عصر، انیسویں صدی کی اردو غزل کا روشن ستارہ ،دبستانِ لکھنو کے نمائندہ اور ممتاز شاعر” آتشؔ لکھنؤی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام خواجہ حیدر علی، تخلص آتشؔ تھا اور ان کے والد کا نام علی بخش بتایا جاتا ہے۔ ان کے بزرگوں کا وطن بغداد تھا ،جو تلاش معاش میں دہلی آئے تھےاور شجاع الدولہ کے عہد میں فیض آباد چلے گئے تھے۔آتش کی پیدائش فیض آباد میں ہوئی۔آتش گورے چٹے،خوبصورت،کشیدہ قامت اور چھریرے بدن کے تھے۔ ابھی پوری طرح جوان نہ ہو پائے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ اور تعلیم مکمل نہ ہو پائی۔ دوستوں کی ترغیب سے درسی کتابیں دیکھتے رہے۔کسی نگراں کی عدم موجودگی میں ان کے مزاج میں آوارگی آگئی۔وہ بانکے اور شورہ پشت ہو گئے۔اس زمانہ میں بانکپن اور بہادری کی بڑی قدر تھی۔بات بات پر تلوار کھینچ لیتے تھے اور کم سنی سے تلورئے مشہور ہو گئےتھے۔آتش کی صلاحیتوں اور سپاہیانہ بانکپن نے نواب مرزا محمد تقی خاں ترقی، رئیس فیض آباد، کو متاثر کیا جنہوں نے ان کو اپنے پاس ملازم رکھ لیا۔ پھر جب نواب موصوف فیض آباد چھوڑ کر لکھنو آ گئے تو آتش بھی ان کے ساتھ لکھنو منتقل ہو گئے۔لکھنو میں اس وقت مصحفی اور انشاء کی معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر انہیں شاعری کا شوق پیدا ہوا۔انہوں نے شاعری نسبتاً دیر سے،تقریباً 29 سال کی عمر میں شروع کی اور مصحفی کے شاگرد ہو گئے۔لکھنو میں رفتہ رفتہ ان کی صحبت بھی بدل گئی اور مطالعہ کا شوق پیدا ہوا اور رات دن علمی مباحث میں مصروف رہنے لگے۔مزاج میں گرمی اب بھی باقی تھی اور کبھی کبھی استاد سے بھی نوک جھونک ہو جاتی تھی۔لکھنو پہنچنے کے چند سال بعد ترقی کا انتقال ہو گیا،جس کے بعد آتش نے آزاد رہنا پسند کیا، کسی کی نوکری نہیں کی۔بعض تذکروں کے مطابق واجد علی شاہ اپنے ایام شہزادگی سے ہی 80 روپے ماہانہ دیتے تھے۔کچھ مدد مداحوں کی طرف سے بھی ہو جاتی تھی لیکن آخری ایام میں توکل پر گزارہ تھا، پھر بھی گھر کے باہر ایک گھوڑا ضرور بندھا رہتا تھا۔سپاہیانہ،رندانہ اور آزادانہ وضع رکھتے تھے جس کے ساتھ ساتھ کچھ رنگ فقیری کا تھا۔بڑھاپے تک تلوار کمر میں باندھ کر سپاہیانہ بانکپن نباہتے رہے۔ایک بانکی ٹوپی بھنووں پر رکھے جدھر جی چاہتا نکل جاتے۔اپنے زمانہ میں بطور شاعر ان کی بڑی قدر تھی لیکن انہوں نے جاہ و حشمت کی خواہش کبھی نہیں کی،نہ امیروں کے دربار میں حاضر ہو کر غزلیں سنائیں نہ کبھی کسی کی ہجو لکھی۔استغنا کا یہ حال تھا کہ بادشاہ نے کئی بار بلوایا مگر یہ نہیں گئے۔ان کا ایک بیٹا تھا جس کا نام محمد علی اور جوشؔ تخلص تھا۔ آتشؔ، ١٣؍جنوری ١٨٤٨ء کو لکھنؤ میں انتقال کر گئے۔ آخری عمر میں بینائی جاتی رہی تھی۔
مذہبا ً اثنا عشری ہونے کے باوجود آتش آزاد خیال تھے۔ان کا خاندان صوفیوں اور خواجہ زادوں کا تھا، پھر بھی انو ں نے کبھی پیری مریدی نہیں کی اور درویشی و فقیری کا آزادانہ مسلک اختیار کیا، وہ تصوف سے بھی متاثر تھے جس کا اثر ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ان کا دیوان ان کی زندگی میں ہی 1845ء میں چھپ گیا تھا۔شاگردوں کی تعداد بتر تھی جن میں بہت سے،بشمول دیا شنکر نسیم،نواب مرزا شوق،واجد علی شاہ،میر دوست علی خلیل،نواب سید محمد خان رند اور میر وزیر علی صبا اپنی اپنی طرز کے بے مثال شاعر ہوئے۔
آتش اور ناسخ میں معاصرانہ چشمک تھی لیکن وہ اس گھٹیا سطح پر کبھی نہیں اتری جس کا نظارہ اہل لکھنو مصحفی اور انشاء کے معاملہ میں دیکھ چکے تھے۔اصل میں دونوں کے شاعرانہ انداز ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ناسخ کے پیرو مشکل مضامین کے دلدادہ تھے جبکہ آتش کے معتقدین محاورے کی صفائی،کلام کی سادگی،شعر کی تڑپ اور کلام کی تاثیر پر جان دیتے تھے۔آتش نے اپنے استاد مصحفی کے نام کو روشن کیا بلکہ کچھ لوگ ان کو مصحفی سے بہتر شاعر مانتے ہیں۔ محمد حسین آزاد لکھتے ہیں۔۔۔"جو کلام ان کا ہے وہ حقیقت میں محاورۂ اردو کا دستور العمل ہے اور انشا پردازیٔ ہند کا اعلی نمونہ شرفائے لکھنو کی بول چال کا انداز اس سے معلوم ہوتا ہے۔جس طرح لوگ باتیں کرتے ہیں ،انہوں نے شعر کہہ دئے۔‘‘
آتش عام طور پر اعلیٰ مضامین تلاش کرتے ہیں،ان کے اشعار میں شوخی اور بانکپن ہے۔کلام میں ایک طرح کی مردانگی پائی جاتی ہے جس نے ان کے کلام میں ایک طرح کی جلالت اور متانت پیدا کر دی۔ناسخ کے مقابلہ میں ان کی زبان زیادہ دلفریب ہے۔غلط العام کو اشعار میں اس طرح کھپاتے ہیں کہ بقول امداد امام اثر "چہرۂ زیبا پر خال کا حکم" رکھتے ہیں۔غالب کے نزدیک آتش کے یہاں ناسخ کے مقابلہ میں زیادہ نشتر پائے جاتے ہیں۔عبد السلام ندی کہتے ہیں "اردو زبان میں رندانہ مضامین میں خواجہ حافظ کے جوش اور ان کی سرمستی کا اظہار صرف خواجہ آتش کی زبان سے ہوا ہے"۔آتش کی شاعری رجای ار زندگی کی قوت سے بھر پور ہے۔غم اور درد کا ذکر ان کے یہاں بہت کم ہے۔ ان کا توانا اور پرجوش لہجہ مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنا سکھاتا ہے۔ان کے کلام میں ایک طرح کی للکار اور آتش نوازی ملتی ہے، انہوں نے عام تشبیہات اور استعاروں سے ہٹ کر براہِ راست غزل کا جادو جگایا۔ ان کے اخلاقی اشعار میں بھی قلندرانہ انداز ہے۔
عجب قسمت عطا کی ہے خدا نے اہل غیرت کو
عجب یہ لوگ ہیں غم کھا کے دل کو شاد کرتے ہیں
ان کے بہت سے اشعار اور مصرعے ضراب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں مثلاً
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
بہت شور سنتے تھے پہلومیں دل کا
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز شاعر آتشؔ لکھنؤی کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبل بے تاب گفتگو کرتے
—
اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے
اسی اللہ نے مجھ کو بھی محبت دی ہے
—
عجب تیری ہے اے محبوب صورت
نظر سے گر گئے سب خوب صورت
—
کچھ نظر آتا نہیں اس کے تصور کے سوا
حسرتِ دیدار نے آنکھوں کو اندھا کر دیا
—
آپ کی نازک کمر پر بوجھ پڑتا ہے بہت
بڑھ چلے ہیں حد سے گیسو کچھ انہیں کم کیجئے
—
بے گنتی بوسے لیں گے رخِ دل پسند کے
عاشق ترے پڑھے نہیں علمِ حساب کو
—
جو دیکھتے تری زنجیرِ زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے
—
اب ملاقات ہوئی ہے تو ملاقات رہے
نہ ملاقات تھی جب تک کہ ملاقات نہ تھی
—
جو اعلی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
صراحی سرنگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ
—
یہ دل لگانے میں میں نے مزا اٹھایا ہے
ملا نہ دوست تو دشمن سے اتحاد کیا
—
حاجت نہیں بناؤ کی اے نازنیں تجھے
زیور ہے سادگی ترے رخسار کے لیے
—
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا
—
رکھ کے منہ سو گئے ہم آتشیں رخساروں پر
دل کو تھا چین تو نیند آ گئی انگاروں پر
—
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
—
مہندی لگانے کا جو خیال آیا آپ کو
سوکھے ہوئے درخت حنا کے ہرے ہوئے
—
شبِ وصل تھی چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا
—
مسندِ شاہی کی حسرت ہم فقیروں کو نہیں
فرش ہے گھر میں ہمارے چادرِ مہتاب کا
—
اے فلک کچھ تو اثر حسن عمل میں ہوتا
شیشہ اک روز تو واعظ کے بغل میں ہوتا
—
قامت تری دلیل قیامت کی ہو گئی
کام آفتاب حشر کا رخسار نے کیا
—
پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
—
ہمارا کعبۂ مقصود تیرا طاقِ ابرو ہے
تری چشمِ سیہ کو ہم نے آہوئے حرم پایا
—
وحشتِ دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
سیکڑوں کوس نہیں صورتِ انساں پیدا
—
کرتا ہے کیا یہ محتسب سنگ دل غضب
شیشوں کے ساتھ دل نہ کہیں چور چور ہوں
—
کسی کی محرم آبِ رواں کی یاد آئی
حباب کے جو برابر کبھی حباب آیا
—
ترے ابروئے پیوستہ کا عالم میں فسانہ ہے
کسی استاد شاعر کا یہ بیت عاشقانہ ہے
—
شیریں کے شیفتہ ہوئے پرویز و کوہِ کن
شاعر ہوں میں یہ کہتا ہوں مضمون لڑ گیا
—
وہی پستی و بلندی ہے زمیں کی آتشؔ
وہی گردش میں شب و روز ہیں افلاکِ ہنوز
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
آتشؔ لکھنوی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ