لاہور ہائیکورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت ڈرامے کے کسی افسردہ کردینے والے منظر میں تبدیل ہوگیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے ابھی ہر کوئی رو دے گا۔
میاں بیوی کا جھگڑا لاہور ہائیکورٹ تک پہنچا تھا۔ دونوں پڑھے لکھے دکھائی دیتے تھے۔دونوں کے تین بچے بھی تھے جو کمرہ عدالت میں ہی موجود تھے۔ کیس کی سماعت معمول کے مطابق جاری تھی کہ اچانک بہن بھائیوں میں سے سب سے بڑی 8 سالہ بچی نے جج صاحب کو ٹوک دیا۔ بولی انکل! میں کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ مقدمے کی سماعت کرتے جسٹس باقر نجفی چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ بچی کچھ بولنا چاہتی تھی۔ جج صاحب نے اجازت دی تو بولی کہ لڑائی میں بابا ماما دونوں کا قصور ہوتا ہے۔ بابا ماما کو مارتے ہیں۔ ماما بھی بدتمیزی کرتی ہیں۔ لڑائی دونوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔
جج صاحب اونچے چبوترے پر بیٹھے تھے۔بچی وہاں سے ٹھیک طرح سے نظر نہیں ارہی تھی۔انہوں نے اسے اوپر اپنے پاس ہی بلا لیا۔ کورٹ روم میں بیٹھا ہر شخص اب اس کیس کی طرف متوجہ تھا۔ بچی کا کانفیڈنس دیکھنے والا تھا۔ جسٹس نجفی نے کچھ اور سوال پوچھے جن کا بچی نے بڑے اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔ بولی ان لوگوں نے ہم بچوں کو اپس میں پنگ پانگ ہی بنا لیا ہے۔ ہمیں بتائیں ہمارا کیا قصور ہے۔میں 8 سال کی ہوں اور ابھی صرف ٹو کلاس میں ہوں۔ مجھے اسکول سے چھڑوا لیا گیا۔ دو سال اسکول بھیجا ہی نہیں گیا۔ میں اپنی فرینڈز سے پیچھے رہ گئی اور یہ دونوں ہیں کہ سمجھتے ہی نہیں۔
سب لوگ ایک نظر بچی کی طرف دیکھتے کہ کیسی سمجھداری کی باتیں کر رہی ہے اور ایک نظر ان میاں بیوی کی طرف۔
بچی کی بات سن کر جج صاحب میاں بیوی کو مخاطب ہوئے۔ بولے! تم لوگوں کو اپنے بچوں سے ہی کچھ عقل لے لینی چاہیے تھی۔بچی کی باتیں سن کر کچھ شرم ارہی ہے یا نہیں؟ اج اور ابھی فیصلہ کرو تم لوگوں نے کیا کرنا ہے۔ صلح کرنی ہے تو ابھی کرو۔ لڑائی جاری رکھنی ہے تو بھی بتاو تاکہ میں ان بچوں کا کچھ کروں۔ خدا نے تم لوگوں کو اتنے پیارے بچے دیے ہیں۔خود تو اپنی زندگی عذاب بنائی ہی ہوئی ہے۔ ان کا مستقبل کیوں تباہ کر رہے ہو۔
عدالت میں سب لوگ اب یہ توقع کر رہے تھے کہ شاید میاں بیوی نے کچھ نصیحت پکڑی ہو۔کچھ بہتر فیصلہ کریں گے۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بچوں کی موجودگی میں ایک بار پھر ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ تھا۔ میاں کا کہنا تھا یہ میرے والدین کی خدمت نہیں کرتی۔وہ میرے گھر رہنے کیلئے اتے ہیں تو یہ انہیں کھانا تک نہیں پوچھتی۔ بیوی کا کہنا تھا کہ میں کہاں سے کھانے کھلاوں انہیں۔ یہ صاحب خود تو کوئی ملازمت کرتے نہیں۔ میں بچوں کو ٹیوشنز پڑھا کر گزارہ کرتی ہوں۔ کہاں سے کھلاوں اس کے ماں باپ کو بھی۔
بچوں کی تقسیم کا یہ کیس اگلی تاریخ تک موخر ہوگیا۔ تین بچوں کی تقسیم کیسے ہو۔ ساڑھے 3 سالہ بچہ باپ کی طرف لپکتا تھا تو دونوں بچیاں ماں کی طرف۔
میری گذارشات
1۔ گھریلو ناچاقی اور جھگڑے کو اس نہج تک نہ لے جائیں کہ اپ کے بچے اس سے متاثر ہونا شروع ہوجائیں۔ بچوں کے سامنے لڑنا جھگڑنا ان کی نفسیات پر بڑا برا اثر ڈالتا ہے۔یہ برے احساسات وغیرہ ساری زندگی ان کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کی شخصیت کو متاثر کرتے ہیں۔
2۔ لڑائی جھگڑے بھی چلتے رہتے ہیں اور بچے بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔اگر اپ کو پتہ چل ہی گیا ہے کہ اپ دونوں کے مزاج نہیں مل رہے۔شروع سے ہی لڑائی جھگڑے ہیں تو پھر خدارا بچے پیدا نہ کریں۔ الگ ہوجائیں۔ کسی اور کے ساتھ زندگی بسانے کی کوشش کریں۔ بچے پیدا کر کے ان کی زندگی بھی عذاب نہ بنائیں۔یہ گناہ اپ کےسر ہوگا۔میاں بیوی کے جھگڑوں میں عدالتوں میں موجود بچوں کی حالت زار دیکھ کر رونا اتا ہے۔سہمے ہوئے اور ماں بات کے پیار کو ترستے ہوئے بچے۔
3۔ طلاق اور خلع ناپسندیدہ عمل تو ہیں۔لیکن انہیں ٹیبو نہ بنا لیں۔معاشرہ طلاق یا خلع یافتہ عورت کو بھی جینے کا حق دے۔ اسے بھی نارمل خاتون کی طرح سمجھا جائے۔بہت سارے گھرانے ایسے ہیں جہاں خاتون اپنے اوپر جبر کر کے زندگی گزار رہی ہوتی ہے۔ چھٹکارا بھی چاہتی ہے لیکن لفظ "طلاق یافتہ" کے ساتھ معاشرے میں جو برے خیالات اور کہانیاں جڑی ہیں۔ان کے خوف سے اس بوجھ کو گھسیٹتی رہتی ہے اور پھر بچے بھی۔۔۔۔
اس صورتحال کا شکار کچھ جگہ پر مرد بھی ہوتا ہے۔الگ ہونا چاہتا ہے لیکن نہیں ہوپاتا کہ برادری وغیرہ کیا کہے گی کہ فلاں نے طلاق دے دی۔بڑا ظلم کیا۔ "لوگ کیا کہیں گے" کا یہ خوف اسکی زندگی جہنم بنائے رکھتا ہے اور پھر بچے۔
4۔ شادی کے بعد بچے ہوگئے ہیں تو اب کم از کم ان کی خاطر ہی کچھ کمپرومائز کرنا سیکھ لو۔اب توجہ ان کی پرورش کی طرف دو۔بچوں کی خاطر لڑائی بند کردو۔ورنہ تم ان بچوں کے بھی مجرم ہو گے اور سماج کے بھی۔کہ تم نے اسے اچھے انسان نہیں دیے۔
5۔ اخری گزارش والدین سے بھی ہے۔کہ اپنے شادی شدہ بچوں کو اسپیس بھی دیں۔ کوشش کریں ان کی زندگی میں اپ کی وجہ سے مسئلے مسائل پیدا نہ ہوں۔ بڑوں کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کریں۔نہ کہ اس پر مزید تیل چھڑکیں۔خدا نے یہ حکم نازل نہیں کر دیا کہ اپ اخری سانس تک بس حکم ہی چلاتے رہیں اور اپ کے حکم کی من و عن تعمیل بھی ہونی چاہیے۔
میری گزارشات میرے تجربے کی روشنی میں میرا موقف ہیں۔اپ کی رائے مختلف بھی ہوسکتی ہے جسکا مجھے احترام ہے۔ لہذا برائے مہربانی طلاق اور والدین وغیرہ کے پوائنٹس پر فتووں سے گریز کیجیے گا۔