جب ہمارا طالب علمی دور تھا اس وقت لڑکیوں کو اسکول ہی میں سلائی ، بُنائی ، کڑھائی کے علاوہ پکوان بھی سکھائے جاتے تھے۔ ہفتے میں دو پریڈ سلائی بنائی کے ہوتے اور دو پریڈ پکوان کے ۔ یہی ہمارا پروجیکٹ ہوا کرتا تھا۔ پکوان کے ہفتے کے دو پریڈ کو پندرہ دن میں ایک بار دو ،دو پریڈ ملا کر چار پریڈ دیے جاتے ۔ لڑکیوں کے چار گروپ بنائے جاتے ، ہر گروپ کی تمام لڑکیا ں پکوان کا سامان ساجھے میں خرید کر لاتیں اور ہر گروپ اپنی ایک ہانڈی تیار کرتاتھا ۔
گروپ پر یہ پابندی عائد ہوتی کہ ایک گروپ کی لڑکیاں دوسرے گروپ سے کسی قسم کی مدد نہیں لے سکتیں ۔ ایک دن ہم لوگوں کو اسکول میں کہا گیا کہ دہی کی کڑھی اور پکوڑے بنائیں ۔ چار گروپ بن گئے ، سب اپنی اپنی تیار میں جٹ گئے ۔ حسب معمول اسکول کے گراونڈ کے چاروں کونوں میں چار عارضی باورچی خانے بنا دیے گئے ، سب اپنے اپنے کام میں لگ گئے ۔ پکوڑوں کے لیے پیاز کاٹ کاٹ کر سب کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ، نفیسہ نے پیاز کو پانی میں ڈبو کر رکھا اور یہ کہا کہ پانی میں ڈبونے سے پیاز کی تیزابیت کم ہو جاتی ہے اور آنکھیں نہیں جلتیں ۔ دوسری جانب غزالہ نے پیاز کے چند چھلکے اپنے سر پر رکھ لیے ، اس کی منطق یہ تھی کہ جب ہم پیاز کے چھلکے اپنے سر پر رکھتے ہیں ، تو چھری سے کٹنے والی پیاز سے نکلنے والے تیزابی ذرات ہمارے سر پر رکھے چھلکے سے براہ راست ٹکراتے ہیں اور تیزابی آبخارات ہماری آنکھوں تک نہیں پہنچ پاتے ۔ اس سے آنکھوں میں جلن نہیں ہوتی ۔
بہر حال یہ باتیں ، تو اس وقت ہماری سمجھ میں نہیں آ سکیں ۔ مگر یہ طے ہے کہ پیاز کو ٹھنڈے پانی میں رکھنے سے کاٹتے وقت آنکھوں میں جلن نہیں ہوتی ۔ ہمارے ایک گروپ کی لیڈر صابرہ تھی ، ایک نفیسہ ایک غزالہ اور ایک گروپ کی لیڈر میں خود تھی ۔ صابرہ بار بار آ کر مجھ کچھ نہ کچھ پوچھ رہی تھی ۔ پہلے آ کر پوچھا ، بیسن اور دہی کی مقدار کتنی ہونا چاہیے ؟ میں نے مناسب مقدار بتا دی ، صابرہ نے کہا ’’ ارے مجھے پتہ تھا ، مگر میں ذرا بھول گئی تھی ۔ ‘‘ پھر پوچھا پکوڑے میں پیاز ، بیسن اور نمک کی مقدار کتنی ہونا چاہیے ؟ میں نے پھر ایک بار صابرہ کی مدد کی اور حسب سابق صابرہ نے کہا ’’ ارے ، مجھے پتہ تھا ، میں ذرا بھول گئی تھی ۔ ‘‘ آخر میں پھر صابرہ میرے پاس آئی ، کڑھی کو تڑکا ، کس چیز سے دیا جاتا ہے ؟ میں مصروفت تھی بے خیالی میں کہہ دیا ۔ ’’ کڑی پتہ ، لہسن کی کلیاںاور ہری مرچیں تیل میں گرم کر کے کڑھی کو تڑکا لگا دینا ۔ ‘‘ اس بار بھی صابرہ یہ کہتے ہوئے گئی ۔’’ مجھے پتہ تھا ، بس ذرا بھول گئی تھی ۔ ‘‘ کچھ ہی دیر میں گراونڈ میں سب کھانس رہے تھے اور افرا تفری مچی ہوئی تھی کیونکہ ہری مرچیں اور لہسن کی کلیاں کاٹے بغیر تیل میں ڈال دی گئیں تھیں ، جس سے وہ پھٹ کر اڑنے لگیں تھیں اور جھانس پیدا ہو رہی تھی ، سو الگ ، اسٹو پر تڑکے کا تیل اور پھٹتی ہوئی مرچیں دیکھ کر سب لڑکیاں ڈر گئیں اور اسٹو سے دور بھاگ گئیں ، اس کے بعد تیل زیادہ گرم ہونے اور مرچی لہسن کے پھٹنے سے اسٹو پر گرنے لگا ۔اسکول کے چپراسی نے ہمت کر کے دست پناہ سے بگھار کے برتن کو اسٹو سے اٹھا کر دور مٹی میں پھینک دیا اور اسٹو کی چابی کھول دی ، اس طرح ایک بڑا حادثہ ٹل گیا ۔ اس وقت صابرہ چور نظروں سے میری جانب دیکھ رہی تھی ۔
صابرہ نے اپنی غلطی اور نادانی کا اعتراف کر لیا ، اس نے بعد میں مجھ سے بھی اکیلے میں معذرت کر لی ، کہ بار بار یہ کہہ رہی تھی مجھے پتہ ہے ذرا سا بھول گئی تھی ۔ اگر یہ پتہ ہوتا کہ مرچیں اور لہسن کو چیر کر بگھارکے تیل میں ڈالا جاتا ہے ، تو اتنی خفت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور نہ ہی سب کو تکلیف ہوتی ۔