ستمبر 2018 میں تازہ تازہ تحریک انصاف اقتدار میں آئی تھی۔ اس وقت سے لیکر اب تک آٹے کی قیمتوں میں 94 فیصد اضافہ ہو چکا ہے، اور اسی عرصہ میں اوپن مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں 69 فیصداضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
ستمبر 2018 میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 640 روپے تھا، کو اب اوپن مارکیٹ میں بڑھ کر 1240 روپے تک پہنچ گیا ہے، خیبر پختون خوا کے کچھ علاقوں میں اس سے بھی ذیادہ ریٹ ہے۔
چینی اس وقت 53 روپے فی کلو تھی جو اب بڑھ کر 86/90 روپے فی کلو ہو گئی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اس اضافہ سے مل مالکان اور انکے ساتھ دیگر تاجروں ذخیرہ اندوزوں نے کم از کم 200 ارب روپے عوام کی جیبوں سے چرا لئے ہیں۔
ابھی ایک ڈیڑھ ماہ قبل جو گندم کسانوں سے 1450 روپے فی من خریدی گئی تھی وہ اب مارکیٹ میں 2200/2300 روپے تک جا پہنچی ہے۔
21 جولائی کو یہ صورتحال ہے کہ اخبارات اس امکان کو ظاہر کر رھے ہیں کہ گندم اور چینی کی قیمتیں یکساں طور پر 86/90 روپے کلو تک “مستحکم ہوں گی یعنی آٹا چینی کے بھاؤ ملے گا۔
آٹے اور چینی کی قیمتوں کو ڈالر کی طرح مارکیٹ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، یہ حکومت کا فلسفہ ہے کہ مارکیٹ قیمتوں کا تعین کرے گی۔ اس کا بنیادی فائدہ ان کو ہی ہوتا ہے جو ان مصنوعات کو کنٹرول کرتے ہیں۔
ڈالر بھی آج ملکی تاریخ میں 167 روپے تک جا پہنچا ہے سونے کا ایک تولہ 1 لاکھ 11 ہزار تک کا ہو گیا ہے،
ایسا ہونا ہی تھا ریاست اپنا کنٹرول عوام کے حق میں کرنا ہی نہیں چاھتی، وہ تو بڑے سرمایہ داروں اور سامراجی کمپنیوں کی خدمت پر تلی ہوئی ہے ان کے منافع بڑھ رھے ہیں اور عوام کے اخراجات۔
اس پس منظر میں تنخواہ ایک روپے بھی بڑھائی نہ گئی ہے اس کا مطلب صاف واضع ہیں کہ صرف آٹے اور چینی کی مد میں لوگوں کے اخراجات 94 اور 69 فیصد بڑھ گئے،
اس حکومت سے چھٹکارہ پائے بغیر گزارہ نہیں۔ یہ سب کچھکسی اور سرمایہ دار سیاسی پارٹی کے دوبارہ اقتدار کے لئے نہیں بلکہ اپنی طبقاتی سیاسی قوت کو بڑھانے کے لئے۔
“