آج – 10/جنوری 1946
لکھنؤ کے ممتاز شاعر اور عالم، داغؔ اور ناطقؔ گلاوٹھی کے شاگرد۔ غالبؔ اور حافظؔ کے کلام کی شرح و ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی قدیم شاعرات کا تذکرہ بھی مرتب کرنے والے مشہور شاعر” آسیؔ الدنی صاحب “ کا یومِ وفات…
آسیؔ الدنی ، نام عبدالباری،آسیؔ تخلص۔پہلا تخلص عاصیؔ ۔ ۱۸۹۳ء میں الدن، تحصیل ہاپوڑ، ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ مولانا محمد حسن محدث دیوبندی سے بھی بعض کتب حدیث وفقہ کا استفادہ کیا۔ ۱۹۰۸ء میں دہلی میں حکیم نواب جان سے کتب طب پڑھیں اور ان کے مطب میں نسخہ نویسی بھی کرتے رہے۔ ۱۹۱۲ء میں دفتر اخبار ’’ہمدرد‘‘ دہلی میں کام کرتے رہے۔۱۹۱۰ء میں ناطق گلاوٹھی کے شاگرد ہوئے۔ ناطق نے سب سے پہلے ان کے تخلص میں اصلاح فرمائی یعنی ’عاصی‘ کے بجائے ’آسی‘ تجویز کیا۔ دسمبر ۱۹۱۳ء میں لکھنؤ چلے آئے اور مستقل سکونت یہیں اختیار کی۔ انھوں نے دو غزلوں پر براہ راست داغ سے بھی اصلاح لی تھی۔ آسی نے تمام صنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ ان کی تصانیف کی تعداد تیس سے زیادہ ہے۔ شرح دیوان غالب، ترجمہ وشرح دیوان حافظ، شرح تحفۃ الحراقین ، لخت اردو، تذکرہ خندۂ گل ( ظریف شاعروں کا تذکرہ) ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ شعراء کی کافی تعداد نے آپ سے کسب فن کیا۔ ان میں شوکت تھانوی، شہید بدایونی، مجروح سلطان پوری قابل ذکر ہیں۔ ۱۰؍جنوری ۱۹۴۶ء کو آسی الدنی، لکھنؤ میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز شاعر آسیؔ الدنی کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
ہزاروں طرح اپنا درد ہم اس کو سناتے ہیں
مگر تصویر کو ہر حال میں تصویر پاتے ہیں
بجھا دے اے ہوائے تند مدفن کے چراغوں کو
سیہ بختی میں یہ اک بد نما دھبہ لگاتے ہیں
مرتب کر گیا اک عشق کا قانون دنیا میں
وہ دیوانے ہیں جو مجنوں کو دیوانہ بتاتے ہیں
اسی محفل سے میں روتا ہوا آیا ہوں اے آسیؔ
اشارے میں جہاں لاکھوں مقدر بدلے جاتے ہیں
●━─┄━─┄═••═┄─━─━━●
قید سے پہلے بھی آزادی مری خطرے میں تھی
آشیانہ ہی مرا صورت نمائے دام تھا
واہمہ خلاق اور آزادی حسن افزا سرور
ہر فریبِ رنگ کا پہلے گلستاں نام تھا
ضعف آہوں پر بھی غالب ہو چلا تھا اے اجل
تو نہ آتی تو یہ میرا آخری پیغام تھا
دیدۂ خوننابہ افشاں میرا ان کے سامنے
بے خودی کے ہاتھ سے چھوٹا ہوا اک جام تھا
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
آسیؔ الدنی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ