' آپی تجھے سلام '
وہ گورے جو یورپ سے جا امریکہ پر قابض ہوئے تھے اور جن میں سے اکثر کارپٹ بیگرز کہلائے تھے اپنی ثقافتی پچھوکڑ کا بوجھ اٹھا نہ پائے ، امریکہ سے اٹھانے کے لئے جو بہت کچھ تھا ۔ وہ خود کو ہی وہاں پہنچا کر خوش تھے ۔
جب مقامی آبادی میں سے بیشتر کا قلع قمع کر دیا اور باقیوں کو دور دراز کے علاقوں یا سیٹلمنٹ ایریاز (settlement areas) میں دھکیل دیا تو خیال آیا کہ امریکی ثقافت بھی کھڑی کرنا ضروری ہے ، سُپر مین اور بیٹ مین جیسے ہیرو بنائے ، کچھ بھی تو کھڑے کرنے تھے منانے کے لئے چنانچہ فادرز ڈے ، سِبلنگز ڈے وغیرہ کو مِتھا ۔
مدرز ڈے (Mother's Day ) بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کچھ زیادہ پرانی نہیں بس ایک سو دس برس پہلے کی بات ہے جب ویبسٹر ، ویسٹ ورجینیا کی اینا میری جاروِس (Anna Marie Jarvis ) نے 1905 ء میں اِس دن کو مِتھننے کے حوالے سے مہم کا آغاز کیا تھا اور جِسے وہ پہلی بار 10 مئی 1908 ء کو اپنی ماں کے مرنے پر ہی منا پائی ۔
بھلا ماں کا کوئی ایک دن ہوتا ہے ۔ بندہ خود تو دھرتی ماں سے بعد میں جڑتا ہے پہلے تو ماں کی آنول ہی اسے پیٹ میں پرورش دیتی ہے جس کا قرض وہ اپنی آخری سانس تک نہیں چکا پاتا ۔
مقدس عقیدوں کے مطابق سورگ یا جنت اس کے قدموں تلے ہوتی ہے یا نہیں اس کا تعین تو شاید کوئی نہ کر پائے البتہ بندے پر اس کا سایہ جب تک سر پر رہتا ہے اس کی چھتر چھایا ہر پل اس کی رَکھشا کرتی رہتی ہے اور بندہ اِس رَکھشا کی پھوار اس کے مرنے کے بعد بھی ہر گھڑی محسوس کرتا رہتا ہے ۔ اب بھلا ایسے میں کوئی ایک دن اُس کے لئے کیسے مخصوص کیا سکتا ہے کہ اسے یاد کر لیا جائے ۔ اسی لئے تو دنیا میں ، اپنی اپنی ثقافتوں سے جُڑے لوگ ، اِسے اپنے حساب سے ہی مناتے ہیں جیسے ہمارے ہاں اور دیگر کئی ایسے ملکوں میں جن پر استعماری طاقتیں سال ہا سال قابض رہی ہیں اور اب امریکی اثر تلے زندگی بِتا رہیں ہیں اِسے اسی سرمایہ داری نظام کے زیر اثر مئی کے دوسرے اتوار کے ساتھ جوڑ کر مناتی ہیں کہ ایک ' ورکنگ ڈے ' کم نہ ہو جائے ( سابقہ کمیونسٹ بلاک کے ممالک میں ماں کے ساتھ جڑت کا یہ دن البتہ ' International Women's Day ' کو ہی منایا جاتا تھا اور یہ روایت اب بھی بیشتر میں رائج ہے ۔ )
چلیں ' اینا میری جاروس ' کا دل بھی رکھ لیتے ہیں اور کہہ لیتے ہیں :
' آپی ( ماں ) تجھے سلام ' ، آپ بھی اپنی ماں کو سلام کہہ دیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔