اب تو وہ جگت آپی ہیں۔ اور سب کے دردِ دل کی دوا ان کے پاس ہے، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بغیر کِسی جھجک کے اپنے حرمان نصیب معاشقے کی داستان ان کے سامنے بیان کر دیتے ہیں‘ اور وہ ان کے غم میں اس طرح شریک ہوتی ہیں گویا یہ قیامت ان کے سر پر ٹوٹ پڑی ہے۔ جہاں چارہ گری ہو سکتی ہو۔ وہاں دریغ نہیں کرتیں‘ جہاں درد لا دوا ہو‘ اس کی بھی کسک اپنی محبت و شفقت سے کِسی حد تک کم کر دیتی ہیں۔ اور بچوں کے ساتھ تو اس عمر میں بھی گیند بلّا لیکر کھیلنے میں انہیں عار نہیں۔
وہ نہال کا کبھی نام نہیں لیتیں۔ دس سال سے نہال کناڈا جا کر‘ وہیں بس گیا ہے۔ اس کے ماں باپ مر کھپ گئے۔ نہال کو اب یاد کرنے والا کون رہ گیا ہے جس سے اس کا تذکرہ کریں۔ ہاں، اُس کا دیا ہوا نام ’’آپی‘‘ ان کے لیے امر ہو کر رہ گیا ہے۔ کِسی بچّے کے‘ آپی‘ کہہ کر پکارنے پر وہ اب بھی چونک سی پڑتی ہیں۔ اور سات آٹھ سال کا کھیلتا ہوا نہال ان کی آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔ کِسی نوجوان کے مُنہ سے اسکی محروم محبّت کا ذکر سُن کر انہیں نہال کی آنسوؤں سے بھیگی ہوئی سُنہری پلکیں اپنے دل کی گہرائیوں سے اُبھرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ جب کوئی کمسن دو شیزہ ان کے کندھوں پر سر رکھ کر سسکیاں بھرتے ہوئے اپنے دل کا راز ظاہر کر دیتی ہے تو وہ ٹھنڈی سانس لے کر اسے پیار سے سمجھاتی ہیں۔ ’’ یہی زندگی ہے میری جان۔ زندگی جانی پہچانی راہوں ہی پر چلتی پھرتی ہے۔ اُن انجانے حسین پُر اسرار راستوں پر نہ جاؤ۔ کھو جاؤ گی۔ کُچل دی جاؤ گی۔ تمہیں اسی مٹے ہوئے فرسودہ راستہ پر چلتا ہو گا جس کا انعام میں تم شریف کہلاؤ گی اور ایک دن اس شرافت کے جانے کے جاتھ، دل میں ہزاروں تمنّاؤں کا جنازہ دفن کئے، تم سپردِ خاک کر دی جاؤ گی۔ بس زندگی اس کے سوا اور کچھ نہیں۔‘‘
’آپی‘ کو اپنے فیصلے پر قطعی افسوس نہیں۔ رنج تو انہیں صرف یہ ہے کہ اگر وہ جانور ہی پیدا ہوتیں تو کیا حرج تھا۔ اس اشرف المخلوقات اور خصوصیت سے عورت بننے میں سوائے اس کے اور رکھا ہی کیا ہے کہ دل اندر ہی اندر سلگتا رہے لیکن اُس کی آنچ باہر نہ آنے پائے۔ جس نام کی تسبیح نبض کی ہر دھڑکن کے ساتھ ہو رہی ہے وہ نام ہرگز زبان پر نہ آئے۔ جس کی یاد ہی سے بُڑھاپے کی خُشک خزاں‘ جوانی کی رسیلی بہار سے بدل جائے وہ بہار دُنیا کی عیب جُو نظروں سے پُوشیدہ رہے تب ہی عزّت کی زندگی ممکن ہے۔ یہ زندگی کا اسٹیج کِسی بھی تو اداکارہ کو مُہلت نہیں دیتا کہ ایک گھنٹے ہی کے لیے اس تصنع کا جامہ اُتار پھینکے اور اپنی نکتہ چین آڈی نِس سے کہہ سکے۔ ’’ میں وہ نہیں جو تم لوگ سمجھتے ہو۔ یہ شرافت کا جامہ تو میرے اسٹیج کے کردار کے لیے وقف ہے۔ میں تمہارے قانون کے مطابق شریف کِس طرح ہو سکتی ہوں جب ایک بیوی اور ہوتے ہوئے بھی کِسی غیر مرد کی محبّت میری رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے؟ کیا مجھے تھوڑی دیر کے لیے بھ محبّت کرنے کی مہلت نہ دو گے؟ میں پھر لوٹ آؤنگی۔ پھر سے اُسی شرافت کے جامے کو پہن کر اسٹیج پر آ جاؤں گی۔ مگر۔۔۔ خدا کے لیے۔۔۔۔ مجھے مرنے سے پہلے کچھ دیر تو جی لینے دو۔‘‘
آپی بیاہ کر آئیں تو سولہ سترہ برس کی حسین الّھڑ لڑکی تھیں۔ سُسرال کی جاہل مگر شوقین مزاج عورتوں کی نظر میں جو علم کے زیور سے آراستہ نہ سہی لیکن پوڈر سُرخی کے استعمال سے ناواقف نہ تھیں۔ جو بے پردہ نہ سہی لیکن گھروں میں بیٹھ کر فلاش کھیلنا اور سگریٹ کے کش لگانا خوب جانتی تھیں۔ آپی کی بے پردگی۔ انکی تعلیم اور ان کی پسند کی شادی، آزادی اور بے بیباکی کی گویا سند تھی جو مُنہ دکھائی میں انہیں دی گئی۔ آپی کے شوہر خود انگریزی کا چربہ ہوتے ہوئے بھی بیوی سے متعلق تنگ نظر تھے۔ اور قول و فعل سے ’’ کھلاؤ سونے کا نوالہ۔ دیکھو شیر کی نگاہ۔‘‘ کے مصداق تھے۔
سُسرال میں آپی کو اپنا ہم مذاق کوئی نظر نہ آیا رشتہ کے بہن بھائیوں کا جھمگٹ سارا سارا دن اور رات کے بارہ بارہ بجے تک تاش کھیلتا رہتا۔ بچّوں کی فوج کھلاڑیوں کے گرد چیونٹیوں کی طرح چمٹی رہتی، کیونکہ وقتاً فوقتاً فواکہات کے دور بھی چلتے رہتے۔ ایک بس نہال تھا کہ کہیں مٹھائی کی گولیاں لئے، آپی کے پاس چلا آتا ہے تو کبھی جلتی ہوئی پُھلجھڑیاں آپی کی ناک کے آگے نچا رہا ہے۔ اور کچھ نہین تو آر۔اے۔ٹی ریٹ ہی اُن کے سامنے پڑھ کر رُعب گانٹھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک دن تو آپی سبھی ڈلہنا پا بھول بھال نہال کے ساتھ ایسی صفائی سے پیٹر پر چڑھ کر دیوار بھاند گئی کہ آٹھ سال کا نہال جو عورتوں کو ایک حقیر ہستی سمجھتا تھا ان کے کمال کا معّرف ہو گیا۔ اور پھر آتشبازی چھوڑنے میں بھی آپی اُس سے کم نہ تھی۔ ڈرنا تو درکنار ہاتھ میں چُھوٹتا ہوا انار لیے اُلٹی نہال کو ڈراتی ہوئی قہقہہ لگاتی، اُس کے پیچھے دوڑتی، ڈر کر بھاگتے ہوئے نہال کو ہر طرح آپی کی برتری کو تسلیم کرنا پڑا۔ لیکن اس دن وہ پکڑے گئے اور نہال کی ماں جو رشتے میں آپی کی جٹھانی ہوتی تھیں، نہال کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ’’ شرم نہیں آتی۔ اپنی چچی سے برابری سے مذاق کرتے ہوئے، بے حیا، بد تمیز کہیں کا۔‘‘
اُس پر نہال نے لاپروائی سے کہا۔ ’’ امّاں چچی تو بُڈھی ہوتی ہے یہ تو میری آپی ہیں۔‘‘ تو اُس دن سے وہ آپی ہو گیئں۔
بیاہ کے پندرہ ہی دن بعد نہال نے ایسی عجیب حرکت کی کہ خاندان کی سب بُوڑھیوں کے قہقہے چُھوٹ گئے اور اُس دن سے اُسے باقاعدہ آپی کے لیے چھیڑا جانے لگا۔ بات یُوں تھی کہ اوّل تو نہال کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ رات کو آپی کے پاس کیوں نہیں سو سکتا۔ اور زیادہ دیر بیٹھنے پر۔ جبکہ اُس کے چچا تاش کھیلنے میں مصروف بھی نہ ہوں۔ وہ کیوں قہر آلود نظروں سے اُسے گُھورتے رہتے ہیں۔ خیر حالات کے تحت مجبوراً، وہ عطر سے مہکتی ہوئی اور بُلبُل ہزار داستان، آپی کو چھوڑ کر اپنی ماں کے محبّت بھرے لیکن غیر دلچسپ بستر میں رات گزارنے پر گویا صبر کر بیٹھا تھا۔ ایک دن رات کے کوئی دس بجے ہونگے کہ نہال کی والدہ نے اُٹھتے ہوئے کہا ’’ بس نہال بیٹے اب گھر چلو۔ اپنے چچا اور آپی کو آرام کرنے دو۔‘‘ تو نہال کمال بے تکلفی سے اُٹھا اور آپی کے گلے میں باہیں ڈال کر چٹاخ پٹاخ تین چار بُوسے اُن کے لبوں کے لے لیے۔ نہال کے والد اس بے تکلفی پر جھجکے لیکن اُس کی والدہ نے ہنس کر دیور سے کہا۔ ’’ لو بھیّا تمہارا رقیب تو ابھی سے پیدا ہو گیا۔‘‘ باقی سب لوگ بھی کِھلکِھلا کر ہنس پڑے بات آئی گئی ہوئی۔
نہال کا گھر دو قدم پر تھا ہی، کمرے میں گُھستے ہی نہال کے والد نے سمجھانے کے انداز میں کہا۔ ’’ نہال بیٹے اپنے بزرگوں کے ماتھے پر پیار کرنا چاہیے لبوں پر نہیں۔‘‘
مگر نہال کے معصوم جواب سے وہ لاجواب ہو گئے۔
’’ ابّا وہ جین ممی ڈیڈی کو روز رات کو اسی طرح پیار کرتی ہے۔‘‘ ماں نے ذرا رشک سے کہا ’’ نہال اور تو کبھی کِسی کے مُنہ پر تُو نے اس طرح پیار نہیں کیا آخر آپی میں کونسے لعل جڑے ہیں۔‘‘ تو نہال نے نہایت سادگی سے کہا۔ ’’ امّاں آپی کے مُنہ سے بڑی اچھی خوشبو آتی ہے۔‘‘
مہینہ بھر سُسرال میں گزار کر آپی اپنے شوہر سہیل کے ساتھ ان کی نوکری پر چلی گیئں۔ آپی کو اپنے شوہر سے پرستارانہ عشق تھا۔ وہ ان کے دیوتا تھے۔ جن کے دھیان میں مگن رہنا ہی ان کا ایمان تھا۔ اپنے دیوتا کو لُبھانے کے لیے وہ نئی نئی ترکیبوں سے سنگھار کرتی۔ پوڈر سُرخی تھوپ کر، جس کا استعمال شادی کے بعد اُنہوں نے سیکھ لیا تھا، اپنے کو اور حسین بنانے کی کوشش کرتیں۔ کبھی پُھولوں کے گجرے سر پر باندھ لیتیں تقو کبھی ہندو دُلہنوں کی طرح ہلدی کا چومکھا چہرے پر بنا کر لہنگا کُرتی پہنے چھم چھم کرتی گھر میں پھر رہی ہیں۔ کبھی تنگ پاجامہ، فراک اور چار گز کا بھوپالی چُنا ہوا دوپٹّہ کولھوں پر ڈھلکاتی پھرتی ہیں۔ کبھی نزاکت سے فرشی پائجامے کے پائنچے سنبھالے نہیں سنبھلتے۔ قدم قدم پر کمر ہے کہ لچکی جاتی ہے۔ اس تمام حُسن و نزاکت کے باوجود وہ اپنے کو شوہر کے قابل نہیں سمجھتی تھیں۔ سہیل خود بھی حسین نوجوان تھے۔ گوری بھبھوکا رنگت، کسرتی جسم۔ اپنا ہاتھ شوہر کے ہاتھ میں دیکھ کر وہ لاج کے مارے اپنا گیہواں رنگت کا ہاتھ اُن کے گورے ہاتھ سے چُھڑا لیتی تھیں۔
آپی، جلد ہی اپنے شوہر سہیل کے خوابگاہ کے عشق سے گھبرا گئیں۔ اُن کا دل چاہتا تھا کبھی ایسا بھی ہو وہ سج بن کر بیٹھیں۔ سہیل اُن کی طرف عاشقانہ نظروں سے دیکھیں۔ کوئی فراق و وصال کا تپتا ہوا سا شعر پڑھیں۔ کوئی فقرہ یا جملہ کہیں۔ لفظی چھیڑ چھاڑ رہے۔ وہ بنائیں یہ لجائیں۔ کبھی ایسا بھی ہو کہ دیوتا اپنی مسند سے نیچے اُتر آئیں۔ دیوی کے چرنوں میں خود پُجاری بن جائیں۔ مگر ایسا بھی نہ ہوا۔ وہ کٹھور دل پُوجا کرانا جانتا تھا۔ پُوجا کرنے سے قطعی ناواقف تھا۔ بیوی کو سجا بنا دیکھا اور ہاتھ پکڑ کر گھسیٹا اور اگر ذرا بھی نخروں کی کھچاوٹ محسوس کی تو بس جھپ سے گود میں اُٹھا لیا اور خوابگاہ کے دروازے بند ہو گئے۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔
آپی، کو باتیں کرنے کا بچپن ہی سے بہت شوق تھا۔ چھیڑچھاڑ، قوالی، ڈرامے، مناظرے، غرضیکہ کوئی میدان نہ تھا جس میں آپی کی اپنی سہیلیوں میں ممتاز حیثیت نہ ہو۔ کڈورت کا نشان بھی ان کے دل پر باقی نہ رہتا تھا اس لیے اپنوں کی کیا غیروں کی بھی چہیتی تھیں۔ چنانچہ بیاہ کے بعد نہایت خود اعتمادی سے آپی نے میاں کا دل دلچسپ باتوں سے لُبھانے کی کوشش شروع کی۔
کبھی بچپن کی اُن شرارتوں کا ذکر چھیڑتیں جن کے تزکرہ سے میکے میں سب کے پیٹ ہنستے ہنستے بل پڑ جاتے تھے۔تو میاں کو لا تعلقی سے اخبار پڑھتا پاتیں۔ اور محجوب ہو کر بات ادھوری چھوڑ دیتیں۔ اس کے برعکس جب کبھی بھولے بھتکے، کم گو سہیل اپنے بچپن کے قصّے سُنانے بیٹھتے تو آپی بڑی محویت سے سُنتیں۔ ہر بھدّے سے واقعہ کو سراہتیں۔ بھونڈے مذاق پر قہقہے لگا کر انکی اہمیت کو بڑھاتیں، مگر آپی کی طرف سے تو یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ وہ اپنے دیوتا کی زندگی کے ہر لمحہ ہر واقعہ میں اپنے آپ کو سمود دینا چاہتی تھیں۔آپی نے خود کو سہیل میں کتنا مدغم کر دینا چاہا۔ اپنی انفرادیت کو کھو کر سہیل میں اس طرح مل جانا چاہا کہ وہ دو نہ رہیں۔ لیکن وہ سہیل کے پتھر میں اپنے سُونے کو حل نہ کر سکیں۔ پتھر اُسی طرح اپنی جگہ پر جما رہا البتّہ آپی کا سُونا گِھس گِھس کر ضرور کم ہونا شروع ہو گیا۔
سہیل کے دُنیا میں دفتر کے کام کے بعد تین شوق تھے۔ شکار برج اور خوابگاہ۔ شکار میں وہ اکثر آپی کو ساتھ لے جاتے تھے۔ اور کیوں نہ لے جاتے۔ آپی کس کھلے دل سے ان کے نشانے کی تعریف کرتی تھیں۔ گویا سہیل کی قابلیت کا کُھلا اشتہار تھیں۔ کِسی دوست سے شرط بندھ جانے پر اپنے دھان پان جسم کی بازی لگا دیتی تھیں۔ ہاتھ میں لکڑی لے کر خار دار جھاڑیوں میں ہانکنے والوں کے ساتھ ہانکا کرتی پھرتی تھیں کہ کہیں سہیل ہار نہ جائیں۔ سہیل کے چہرے پر فخریہ مُسکراہٹ دیکھ کر ان کا دل باغ باغ ہو جاتا تھا۔ اس وقت وہ خُوشی کی معراج کو پہنچ جاتی تھیں اور محسوس کرتی تھیں کہ انکی مدد کے بغیر سہیل یہ بازی نہ جیت سکتے۔ اور یہ احساس انہیں اپنے دیوتا سے بہت قریب کر دیتا تھا۔
برج میں سہیل بیوی کی ہمراہی کو قطعی پسند نہ کرتے تھے اور جلد ہی وہ چُھٹیوں کے دن اور اکثر راتیں بجائے گھر کے کلب میں گزارنے لگے۔ رہی خوابگاہ۔ تو کیا مجال ہے بیوی کی جو شوہر کے حق میں کمی کرے۔ آپی کی مثال اُس کُتّے کی سی ہو گئی کہ جب مالک چاہے سیٹی بجا کر بُلا لے اور جب چاہے بغیر کسی عذر کے اکیلا چھوڑ کر چلا جائے۔
آپی اب خیر سے تین بیٹیوں کی ماں تھیں۔ آٹھ سال کی گھر داری نے بہت کچھ دُنیا داری انہیں سکگا دی تھی۔ انہیں اب بھی سہیل سے محبت تھی۔ لیکن محبت کا ذکر کرتے اب وہ گھبرانے سی لگی تھیں۔ وہ اب چونچال قصّوں سے کبھی میاں کا دل بہلانے کی کوشش نہ کرتیں بلکہ سنجیدہ انداز سے انکی باتوں کا مناسب جواب دیتیں۔ ان کی جان ہر وقت اپنی بچّیوں میں اور خصوصاً گود کی بچّی چھمّو میں اٹکی رہتی تھی۔ آپی کی دو شخصیتیں ہو کر رہ گئی تھیں۔ ایک دُنیا دار کی۔ جیسے رشتہ داروں سے رکھ رکھاؤ۔ سوسائٹی کے میل جول کے طریقے۔ شوہر کی پقزیشن سنبھالنے کے انداز آ گئے تھے اور دوسری تصنع سے عاری ان کی اپنی شخصیت تھی۔ وہ تمام زندہ دلی، وہ تمام بچپن کے قصّے، وہ شراتوں کی داستانیں، وہ کھیل کود جن کا آٹھ برس سے گلا گونٹ دیا گیا تھا، ایک نئے انداز سے انکی بچیوں کے تھیٹر مین جلوہ گر ہوئے، پھر آپی کا چہرہ زعفران کے کھیت کی طرح کِھل اُٹھا۔ پھر آپی کے بجتے ہوئے جھانجن جیسے قہقہے بلد ہوئے۔ اور اِس ننّھی مُنّی قدر دان آڈینس کے سامنے وہ نت نئے رُوپ بھرنے لگیں۔ جتنی دیر سہیل گھر میں رہتے گھر قبرستان کی طرح خاموش رہتا جس رات کو ان کا برج باہر ہوتا اُس دن اس گھر میں رتجگا منایا جاتا۔ اس سونگ میں سب ہی شریک ہوتے۔ بچّیوں کی آیا، اُس کا نو دس سال کا لڑکا حتٰی کہ احاطے کے مالیوں، چپراسیوں کی عورتیں تک آ جاتیں اور رات گئے تک ڈھول پٹتے۔ بچّیاں گُجروں کی طرح سج بنکر ناچتیں۔ آپی، شادی کے سہاگ اُٹھاتیں۔ اُن کی کوئل کی سی کوکتی ہوئی آواز رات میں میلوں تک جاتی اور راہ چلنے والے بھی ایک دقعہ رُک کر سوچتے کہ کہیں شادی ہو رہی ہو گی۔
سہیل کو آپی سے کِسی شوق سے بھی کبھی دلچسپی پیدا نہ ہوئی اور آپی کے راگ رنگ کی ندی سہیل کے سنگ گراں سے سالوں ناکام ٹکریں مارنے کے بعد کِسی اور ڈھلوان کی طرف بہنے لگی۔
اُن کی زندگی کے اس دور میں نہال کرسمس کی چھٹیاں گُزارنے اُنکے گھر آیا۔
نہال کو دیکھ کر آپی کی ہنسی روکے نہ رُکی۔ چار بانس کا سا قد، چوڑی چکلی کلائی۔ ڈاڑھی مونچھیں باقاعدہ شیو کی ہوئی۔ لیکن سب سے ملضحکہ خیز اُس کی وہ پھٹی ہوئی آواز جو کبھی تو مردانہ وقار کے ساتھ کھرج میں ٹھیری ہوئی بہت ہی پیاری لگتی اور دوسرے ہی لمحے بت سُرے دھیوت پر جا کر پھٹ جاتی۔
جب تک سہیل گھر میں رہے نہال نہایت ادب سے اُنکے سوالوں کا جواب دیتا رہا، جو تحفہ تحائف والدہ نے بھیجے تھے سب نکال کر سامنے رکھے جس میں آپی کی بڑی بچّی رضیہ کے لیے سُرخ جھم جھماتا جوڑا بھی تھا۔ آپی جٹھانی کا اشارہ سمجھ گئیں لیکن اپنے تیوروں سے بالکل ظاہر نہ ہونے دیا بلکہ ہنس کر بولیں۔ ’’ یہ بھابی نے لڑائی کرانے کو ایک جوڑا بھیجا ہے۔‘‘
آپی کچھ تعجب، کچھ افسوس کے ملے جُلے جذبات سے نہال کو دیکھ رہی تھیں۔ ’’ کیا یہ وہی شریر چنچل نہال ہے؟ کِس قدر بدل گیا ہے‘ میرا بچپن کا دوست اب ہمیشہ کے لیے رُخصت ہو گیا شاید۔‘‘ مگر توبہ کیجئے جناب۔ ادھر سہیل کی موٹر رُخصت ہوئی اور اُدھر نہال نے اپنی پھٹی ہوئی آواز سے ’’ہاؤ‘‘ کا نعرہ مار کر اُسی پرانی بے تکلفی سے آپی کے لبوں کو چوم لیا بلکہ گود میں اُٹھا کر میز پر کھڑا کر دیا اور کمر پر ہاتھ رکھ کر قہقہے لگانے لگا۔
آپی لمحہ بھر کے لیے جھجکی، لیکن جب نہال کی آنکھوں میں سوائے معصوم شرارت کے اور کچھ نہ پایا تو میز پر سے کود کر ڈنڈا لے کر اُس کے پیچھے ہنستی ہوئی بھاگیں۔ ’’ ٹھیر بے ایمان تجھے کیسا مزا چکھاتی ہوں۔‘‘ گھر میں باقاعدہ آنکھ مچولی شروع ہو گئی اور آپی کی بچّیاں بھی نہال بھائی کو پکڑنے دوڑ پڑیں۔
ایک ہی دن میں نہال اور آپی کی یہ کیفیت تھی گویا برسوں کی بچھڑی سہیلیان ہیں کہ ہر وقت سر جوڑ کر باتیں ہو رہی ہیں۔ آپی کو نہ گھر کی فکر ہے نہ شوہر کی۔ خانساماں نے پوچھا کیا پکّے گا؟ نہال کی طرف اشارہ کر دیا کہ ’’جو میاں کی پسند ہو پکا لو۔‘‘ آیا نے آ کر اگر اتنا پوچھا کہ ’’بے بی لوگ کو کیا پہنا دوں۔‘‘ تو بیزاری سے بول اُٹھتیں ’’جو بچوں کی مرضی ہو پہن لینے دو۔‘‘ نہال سے باتوں کے بیچ میں اگر کوئی نوگر گھریلو مسئلہ پیش کر دیتا تو آپی جھنجہلا اُٹھتیں۔ نہال کی ذات میں انہیں ہر ہر لمحہ نئے نئے پہلو سے دل بستگیاں اُجاگر ہوتی نظر آتی تھیں۔ سہیل کا دفتر جانا اور نہال کا تاش لے کر آ دھمکنا۔ بچیاں بھی اسکول سے آتے ہی آپی کی بغل میں گُھس کر بیٹھ گئیں اور چیخ چیخ کر ماں کی حمایت میں نہال بھائی کی بے ایمانیوں کے پول کھرلنے لگیں۔ اور پھر اُنکی باتیں۔ گویا الف لیلٰہ کی داستان تھی کہ جس کا سرا ہی ہاتھ میں نہ آتا تھا۔ دوپہر کو یہ دلچسپ سلسلہ مجبوراً ختم کر دینا پڑتا تھا۔ کیونکہ دوپہر میں سہیل صاحب کے ساتھ خوابگاہ میں آرام کرنا بھی آپی کے فرائض میں شامل تھا۔ لیکن وہ خراٹے لیتے ہوئے سہیل کے پہلو میں بے چینی سے کروٹیں بدلتی رہتیں۔ کبھی کوئی کتاب کھولتیں، کبھی گھڑی پر نظر ڈالتیں۔ خدا خدا کر کے دن ڈھلتا اور سہیل شام کی چائے پی کر کلب سدھارے۔ کسی شرعی فرض کی طرح سہیل کا روزانہ کلب جانا جو سالوں سے آپی کے دل کو گُھن کی طرح کھائے جاتا تھا۔ اب اُن کے لیے پروانہ آزادی تھا۔ خوشیوں کا پیغام تھا۔
نہال ہمیشہ سے آپی پر رُعب گانٹھنے کی کوشش کرتا تھا۔ جب آٹھ برس کا تھا تو آر۔ اے۔ ٹی ریٹ پڑھ کر ہی اپنے کو بہت بڑا پروفیسر سمجھنے لگا تھا۔ اب ایف۔ اے سیکنڈ ائیر میں کیا پہنچ گیا تھا کہ ہر وقت آپی کے میٹرک کا مذاق اُڑانے لگا تھا۔ اُسے بچپن کی سُبکی کبھی نہ بھولتی تھی جب آپی چھوٹتا ہوا انار لے کر اس کے پیچھے دوڑی تھیں اور وہ ڈر کر بھاگ گیا تھا۔ باتیں کرتے کرتے آپی کی دونوں کلائیاں اپنے لوہے جیسے ہاتھ میں کس کر پکڑ لیتا اور چھیڑ کر کہتا۔
’’آپی تو بڑی سور ماہیں نا۔ پیڑ پر چڑھ کر دیوار پھاند جاتی ہیں۔ ذرا ہاتھ چُھڑا لیں تو جانیں۔‘‘ اور آپی زچ ہو کر دوانتوں سے کاٹنے پر اُتر آتیں اور ہاتھ چھوٹتے ہی اس قدر چپتیاتیں مگر اُلٹے اپنے ہاتھ سُرخ ہو جاتے، اور نہال کے کان پر جُوں بھی نہ رینگتی۔ ایک دن تو آپی کو سچ مچ غُسّہ آ گیا اور اپنے لمبے لمبے ناخن کھچ سے نہال کی کلائی میں بھونک دیئے، مگر وہ ڈھیٹ ہنستا ہی رہا اور اُلٹا چھیڑنے لگا۔
’’ارے ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہمارے چچا بلّی بیاہ کے لائے ہیں۔‘‘
شرمندہ ہو کر آپی نے نہال کی زخمی کلائی پر اُسکے نہ نہ کرنے پر بھی اپنا رومال بھگو کر پٹی باندھ دی۔
ایک دن نہال نے نہایت راز دارانہ سرگوشی کے انداز میں آپی کو بتایا کہ اُسے کِسی سے شدید قسم کی محبت ہو گئی ہے۔ آپی ایک دم کھیل کود چھوڑ کر معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے نصیحت پر اُتر آئیں۔ پُورے پندرہ منٹ مُشفقانہ تقریر کر چکنے کے بعد آپی سانس لینے کو رُکیں تو اُنہیں خیال آیا کہ یہ تو پوچھا ہی نہیں کہ آخر وہ کون ہے جس سے نہال کو محبت ہے۔ نہال سر جھکائے شرمیلہ دولہا بنا بیتھا تھا۔ آپی کی ہر نصیحت آمیز جملے پر ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھرتا تھا۔ آپی گھبرا گئیں کہ معاملہ شدید سنگین ہو چکا ہے۔ دلدہی کے طریقے سے تسلّی دینے لگیں۔
’’خیر کیا ہرج ہے، خدا نے چاہا کِسی دن اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاؤ گے۔ کِسی قابل ہو گئے تو کیوں نہیں، اپنی مرضی کی شادی تو بہت ضروری ہے۔ ہاں ابھی ان خیالات کے لیے تمہاری عمر بہت کم ہے۔ کہیں تمہاری تعلیم پر اثر نہ پڑے۔ خیر۔لیکن یہ تو بتاؤ وہ کون سی لڑکی ہے۔ معلوم نہیں میں نے دیکھی بھی ہے یا نہیں۔‘‘
اب جتنا جتنا آپی کا اصرار بڑھتا جاتا تھا اتنی اتنی نہال کی اداکاری ترق پر تھی۔ آخیر میں ضبط نہ ہوا تو اُس کی ہنسہ چُھوٹ گئی۔ آپی کے متفکّر چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر نہال نے اُنہیں پیار کر لیا اور ہنس کر بولا۔
’’آپی بھلا اور کون ہو گا جس سے مجھے عشق ہو۔ عشق تو مجھے آپ سے ہے۔‘‘ اور ساتھ ہی زبان نکال کر آپی کا مُنہ چِڑا دیا کہ دیکھا کیسا اُلّو بنایا۔
توبہ توبہ! آپی کی جان میں جان آئی کہ یہ گدھا بے تُکا مذاق کر رہا تھا اور میں سچ سمجھ بیٹھی۔ خفّت دُور کرنے کے لیے ڈرامائی انداز میں بولیں۔ ’’ہاں بس کلارک گیبل کے بعد تو ہی تو ایک قابل ایکٹر پیدا ہوا ہے۔‘‘ لیکن اس چوٹ کرنے کے باوجود بھی نہال کا پلّہ بھاری دیکھ کر کمینہ پن پر اُتر آئیں اور نفرت سے بولیں۔ ’’ایسا ہی تُجھے پیار کرنے کا شوق ہے تو پیاز کھا کر تو مجھے معاف ہی رکھا کر۔ اُونہوں ساری ناک پیاز کی سڑڑاند سے بس گئی۔‘‘
ارے؟ نہال کو تو سچ مچ مات ہو گئی۔ اُسکی ہنسی ایک دم غائب ہو گئی اور پریشانی میں حلق سے پھٹی پھٹی آوازیں نکلے لگیں۔ جانے کیا اوٹ پٹانگ بکتا ہوا اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور سارا دن باہر نہیں نِکلا۔
رات کو کھانے پر سیخ کے کبابوں کے ساتھ پیاز کے لچّھے خاص طور پر آپی نے خود بیٹھ کر تیار کئے تھے۔ روز تو بکری کی طرح کچر کچر ساری پیاز کھا جاتا تھا لیکن آج تو اُس نے کبابوں تک کو ہاتھ نہ لگایا۔ سارے وقت چچا سے اپنے مُتقبل کے بارے میں باتیں کرتا رہا اور کھانا ختم ہوتے ہی نیند کا بہانہ کر کے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
آپی کی جان جل کر خاک ہو گئی۔ ’’آئے کہیں سے مرزا پھویا، وہ دن یاد نہیں جب میں نے بیٹھ کر صاحبزادے کی سینکڑوں جُوئیں نکالی تھیں۔ اب ذرا سی پھیتی کس دی تو میاں کو آگ لگ گئی۔ رُعب کِس پر گانٹھتا ہے۔ نہیں بولتا نہ بولے۔ میری جُوتی کو بھی غرض نہیں کہ ان بالشت بھر لونڈوں کی خوشامد کرتی پھروں۔‘‘ آپی بھی جل کر جلدی ہی اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
لیکن وہ رات جس بے کلی سے آپی کی کٹی اُسے وہی جان سکتی ہیں۔بچپن ہی سے اُن کے دل میں کِسی کی طرف سے کدورت باتی نہ رہتی تھی۔ اور پھر یہ تو نہال تھا۔ اُن کا غُصّہ تو منٹوں میں اُتر گیا اور ندامت کے سمندر میں غوطے کھانے لگیں۔ اور دل ہی دل میں کہنے لگیں:۔
’’اے ہے مجھے بھی کیا ضرور تھا کہ بچوں میں بچہ بن جاؤں اور اپنا کھیانہ پن مٹانے کے لیے ایسا ذاتی حملہ کر بیٹھوں۔ اس عمر میں تو ویسے ہی اِنسان ضرورت سے زیادہ حسّاس ہوتا ہے۔ لو وہ نگوڑا تو دن بھر مُجھے بہلاتا رہتا ہے اور میں نے اس کا اچھا بدلہ چکایا۔‘‘ انہیں خیالوں میں کبھی سوتے کبھی جاگتے آپی نے رات کاٹی۔ صبح اُٹھ کر اُن کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ نہال سے کیسے سیل کر لیں۔ دو روٹھے ہوئے بچّوں کی طرح وہ ایک دوسرے سے آنکھیں چار نہ کرتے تھے۔ ناشنہ پر نہال سر جُھکاتے خاموشی سے آملیٹ کھاتا رہا اور آپی ایک اچھے میزبان کی طرح اس کے لیے توس پر مکھن لگا کر جام وغیرہ سے اُس کی تواضع کرتی رہیں۔
جب سہیل دفتر اور دونوں بڑی بچّیاں اسکول چلی گئیں تو آپی سے یہ بیگانگی برداشت نہ ہو سکی۔ کتاب پرھتے ہوئے نہال کی کُرسی کے پیچھے آ کر کھڑی ہو گئیں۔ اس کے دھوپ میں سونے کی طرح چمکتے ہوئے بالوں میں اپنی انگلیوں سے بھنور بناتی رہیں۔ خودبخود آپی کی اُنگلیاں پھسلتے پھسلتے نہال کی کُھردری ٹھوڑی کے نیچے پہونچ گئیں۔
بہت پیار سے اُنہوں نے اپنے روٹھے ہوئے معصوم دوست کے لبوں کو چوم لیا لیکن پیار کرنے سے ڈر گئیں کہ اب نہال اُٹھ کر بنائے گا کہ آخر کی ناجھک مار کر خوشامد، اپنی چھینپ مٹانے کے لئے ناک بھوں چڑھا کر بولیں۔ ’’اُونہوں، ناڈے کی بساند آ رہی ہے‘‘۔ مگر نہال نے انکے دوستی سے بڑھائے ہوئے قدم کی ہتک نہیں کی۔ ایک سیکنڈ میں قہقہہ لگاتے ہوئے اُٹھ کر آپی سے لپٹ گیا اور اس قدر چک پھیریاں دیں کہ آپی ہنستے ہنستے بیدم ہو کر پاتھ جوڑ کر خوشامد کرنے لگیں۔
چھٹیوں سے واپس جا کر نہال نے اپنی والدہ سے آپی کی تعریف کے پُل باندھ دیئے اور اس کی ماں کو اطمینان ہو گیا کہ رضیہ سے نہال کا رشتہ تو اب پکّا سمجھو۔ لیکن وہ جانتی تھیں کہ سہیل اچھی پوزیشن رکھتے ہیں۔ محض رشتہ داری کے بھروسے پر رضیہ کا رشتہ مانگنا بیکار ہو گا۔ انہوں نے تہیہ کر لیا کہ نہال ان کا اکلوتا لڑکا ہے اُسے بہترین تعلیم حاصل کرنے ولایت بھیجیں گی، بات تو جب ہی ہے کہ نہال لائق فائق ہو کر واپس آئے اور سہیل خود جھک کر بیٹی کا رشتہ منظور کریں۔
آپی کی زندگی کی کشتی زمانے کی موجوں پر ہچکولے کھاتی آگے بڑھتی گئی۔ ان کی زندگی میں ایک زبردست انقلاب آ گیا تھا۔ ڈاکتروں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ ان کی چھوٹی بچی سنبل جس کا پیار کا نام چھمو تھا ذہنی اعتبار سے زندگی بھر بچہ ہی رہے گی۔ ڈاکٹروں کے اس فیصلے سے آپی کے سر پر ذمہ داری کا پہاڑ آن ٹوٹا۔ وہ چھمّو کی بھولی بھالی حسین شکل کو دیکھتی تھیں اور اُن کے آنسوؤں کے تار بندھ جاتے تھے۔ اور پھر وہ دل کو مضبوط کر کے جہان تک ممکن ہو سکے اپنی بچی کو دنیا میں اپنی جگہ بنانے کے قابل کر دینے کی انتھک کوششوں میں لگ جاتی تھیں۔ انہوں نے اپنے گھر کا ماحول ہی بدل ڈالا۔ بڑی بچوں کو اس ذمہ داری کا احساس دلانا شروع کیا جو زندگی بھر کے لیے قدرت کی طرف سے ان پر عائد ہو چکی تھی۔ یہاں تک کہ وہ دونوں بچیاں اس کم سنی ہی میں اپنی بہن کے لیے مائیں بن گئیں۔ اُس گھر میں سب ہی ڈانٹے جاتے تھے۔ کیا نوکر، کیا بچے، لیکن چھمّو کے معصوم دل پر آپی کی ڈانٹ سے کبھی خراش نہ آئی۔ اس کی چھوٹی سے چھوٹی خواہش بھی اس گھر میں حکم کا اثر رکھتی تھی۔ سہیل بھی چھمّو کی طرف بہت مائل تھے۔ جہاں دوسری بچیاں باپ کے خوف سے ان کے کمرے میں قدم نہ رکھتی تھیں۔ وہاں چھمو بے دھڑک باپ کے پلنگ پر ان کے ساتھ جا کر لیٹ جاتی تھی۔ اُن کے ہاتھ سے کتابیں چھین لیتی تھی لیکن سہیل کی تیوری پر کبھی بل نہ آیا تھا۔
آپی کے گھر میں اب ضروت مند طالبعلم لڑکیاں بھی نظر آنے لگی تھیں جو اپنی فرصت کا تمام وقت آٹھ دس سال کی چھمو کا دل بہلانے میں گزار دیتی تھیں۔ آپی کے تمام ولولے اب چھمّو کی ذات کے لیے وقت ہو چکے تھے۔ وہ گاتی تھیں کہ چھمّو ناچے کیونکہ ناچنے کا اسے بے حد شوق تھا۔ اپنے ذاتی کام چھوڑ کر وہ اُس کی خوشی کے لیے ڈھول پر بیٹھی گاتی رہتی تھیں۔ آپی اپنے ہاتھ سے اچھے سے اچھا سی کر پہناتی تھیں۔ وہ گھنٹوں صبر سے بیٹھ کر اپنی بچی کو پڑھاتی رہتی تھیں۔ جتنا دوسرے بچے ایک دن میں سیکھ لیں، چھمّو مشکل سے مہینہ بھر میں سیکھ باتی تھی۔ لیکن انہون نے کبھی ہمت نہ ہاری اور نت نئے کھیل ایجاد کرتیں جس سے چھمّو کی دماغی نشوونما ہو سکے۔ آپی نے دنیا کے ہر کونے سے اس موضوع پر کتابیں منگوا کر پڑھیں۔ جدید تریں دوائیں استعمال کیں۔ لیکن اس کٹھن سفر میں سہیل آپی کا ساتھ نہ دے سکے۔ سہیل برے باپ نہ تھے، اپنے طریقے پر وہ بچوں پر مہربان بھی تھے۔ لیکن ان کی محبت بس اسی حد تک تھی کہ بچوں کے لیے چاکلیٹ مٹھائی لے آئے یا اُن ہاتھ میں سینما دیکھنے کے لیے روپے پکڑا دیے، اپنی ذات پر بچوں یا بیوی کی خاطر کسی قسم کی جسامانی یا دماغی تنگی کو گوارا نہ کر سکتے تھے۔ کوئی بیمار ہو یا اچھا ہو ان کا کلب جانا نہ چھوٹ سکتا تھا۔
جُوں جُوں آپی کی محویت چھمّو میں بڑھتی گئی ویسے ویسے سہیل کا تاشوں کا شوق اور دوستون کے ساتھ شب بیداری بڑھتی گئی، ظاہر طور پر سہیل کی گھریلو زندگی اب بھی ایک شاندار محل کی طرح دکھائی دیتی تھی۔ لیکن یہ آپی ہی کا دل جانتا تھا کہ اس محل کی بنیادیں کس قدر کھوکھلی ہو چکی تھیں۔
اور پھر چھمّو مر گئی۔ اچانک دو دن بیمار رہ کر ختم ہو گئی۔ اور آپی کے سارے قلعے اڑا ڑا دھم کر کے آن گرے۔ اُس دن ان کی زندگی کا مقصد ہی ختم ہو گیا۔ اُس دن انہوں نے بالکل ہی ہتھیار ڈال دیے۔ ایک سیکنڈ نیچے نہ بیٹھنے والی آپی اب سارا سارا دن پلنھ پر مردے کی طرح پڑیں رہتیں۔ روتی بھی وہ زیادہ نہ تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا۔ ان کے ہاتھ پیروں کی جان نکل چکی ہے۔ ایک زندہ لاش کی طرح اُٹھ کر ضروری کا فرض سمجھ کر کر دیتیں اور پھر آ کر لیٹ جاتیں۔ انہیں کسی سے اپنی مرحرم بچی کا ذکر کر کے رونے سے چڑ تھی۔ اس قدر اس غم کو آپی نے اپنا لیا تھا۔ کہ اس کے ذکر تک کو وہ چھمّو کی یاد کی توہین سمجھنیں لگی تھیں۔
زندگی کے اس دور میں آخری بار نہال پھر ان سے ملا۔ اب وہ ستائیس اٹھائیس برس کا شکیل نوجوان تھا۔ ولایت اور امریکہ سے بڑی بڑی ڈگریاں لے کر لوٹا تھا اور مگرب سے اس قدر متاثر ہو کر آیا تھا کہ کناڈا کی ایک بڑی فرم میں ملازمت بھی کر لی تھی اور وہیں مستقل رہائش کا ارادہ بھی رکھتا تھا۔ اس کی والدہ کی خواہش تھی کہ نہال کے واپس کناڈا جانے سے پیشتر رضیہ یا کسی اور خاندان کی لڑکی سے جو نہال کو پسند ہو اُس کا عقد کر دیا جائے۔
نہال جب آپی سے ملنے آیا تو چھمّو کے انتقال کو سال بھر کے قریب ہو چکا تھا۔ گھر کا حال بدستور سابق تھا۔ سہیل کی تاش اور یار باشی حسبِ عادت جاری تھی۔ رضیہ اور صفیہ کالج جاتی تھیں اور اپنی سہیلیوں میں خوش تھیں۔ ایک آپی کا دل تھا جنہیں اب نہ گانے سے سروکار تھا نہ ڈھول کی تمنّا تھی۔ جنہیں محفلوں سے وحشت ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ سہیل سے بات کرنے میں بھی ایک اُلجھن کا احساس ہوتا تھا۔ گو سہیل کا رویّہ آپی کے ساتھ اب بہت نرم ہو گیا تھا۔ وہ آپی کو سینما لے جانے کے لیے اصرار کرتے۔ کبھی زبردستی سیر کے لیے موٹر میں ساتھ لے جاتے۔ لیکن آپی کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود ان کے دل میں ایک کرن بھی اُمید یا خوشی کی اپنی جھلک نہ دکھاتی۔ وہ اپنے دل کو اُمنگوں سے یکسر خالی پاتی تھیں۔ اُن کی دلچسپی لے دے کر بس کتابوں میں رہ گئی تھی۔ کبھی روحانیت کی گتھیوں میں اُلجھی ہوئی ہیں، کبھی صوفیانہ کلام پڑھ کر رقت طاری ہے۔ یہی اُن کی زندگی رہ گئی تھی کہ یا تو پڑھتی رہیں یا آنکھ بند کیے ساکت و سامت پڑی رہیں۔
آپی کے حسن و جوانی کا سورج پندرہ سال نصف النہار پر چمک کر اب مغرب کی طرف ڈھلنے لگا تھا۔ اُن کی آنکھوں کے گرد باریک لائینں نظر آنے لے تھیں اور کنپٹوں کر دو چار سفید بال چاندی کے تاروں کی طرح چمکنے لگے تھے۔ اس سال میں وہ بہت آہستہ بات کرنے لگی تھیں۔ پوڈر سوخی سے اب ان کی صورت بے نیاز تھی۔ لباس کے معاملے میں وہ حد سے زیادہ لاپرواہ ہو گئی تھیں۔
نہال مردان خانے میں تھوڑی دیر بیٹھ کر اندر آیا۔ گیلری کے پاس والے کمرے میں صفیہ اور اس کی سہیلیوں کی محفل گرم تھی اور رضیہ کی تو صبح سے کھینچل ہو رہی تھی۔ لڑکیوں کی کِھل کِھل کر آواز سن کر نہال مسکراتا ہؤا اندر دالان میں آیا۔ جہاں تخت پر آپی کو بیٹھا دیکھ کر اُس کے قدم وہیں رُک گئے۔ اولاد کے غم سے اس کا جوان دل ناآشنا تھا۔ اس کو گمان بھی نہ تھا کہ آپی نے چھمّو کے غم میں خود کو اس طرح تباہ کر لیا ہو گا کہ دنیا میں زندہ ہوتے ہوئے بھی ان پر مردہ کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ انہیں غم کی پُتلی کہنا بھی ٹھیک نہ تھا۔ پُتلی تو وہ جب ہوتیں، جب وہ موجود ہوتیں۔ مگر وہ وہاں تخت پر تھیں کہاں، وہ تو جانے کن خلاؤں میں تحلیل ہو کر کبھی کی گُم ہو چکی تھیں۔
دھیمے لہجے میں آپی نے کہا۔ ’’آؤ نہال میاں، کھڑے کیوں ہو یہاں آ کر بیٹھو‘‘۔ آپی کی آنکھوں میں غیریت تھی نہ اُنس تھا۔ بلکہ انتہائی لا تعلقی ٹپکتی تھی جو زبانِ حال سے کہہ رہی ہو۔ ’’تم آ گئے ہو اچھا ہؤا۔ تم نہ بھی آتے تو اچھا ہوتا‘‘۔ اتنے میں نہال کی والدہ اندر کمرے میں آئیں اور بُرقعہ اتارتے اتارتے آنسو پونچھ کر کہنے لگیں۔
’’دیکھا ہے نہال، تیری آپی کا کیا حال ہو گیا ہے۔ سال بھر سے غریب پتھر کی طرح جم کر رہ گئی ہے۔ کتنا کہتی ہوں کی بی بی رو لے، جی بھر کے رو لے، کچھ تو دل ہلکا ہو گا۔ مگر اس کی آنکھوں سے ایک آنسو نہیں ٹپکتا، اندر ہی اندر گُھٹی جاتی ہے۔ بیچاری سال بھر میں کیا سے کیا ہو گئی (ٹھنڈی سانس بھر کر) ساری جوانی، سارا حُسن، ساری شوخی پلک مارتے میں ختم ہو گئی‘‘۔
آپی نے ایک غمگین مسکراہٹ سے کہا۔ ’’بھابھی حُسن تو عمر کے ساتھ ساتھ رخصت ہونا ہی تھا، اب بڑھاپے میں شوخیاں کرتی اچھی لگوں گی کیا۔ چلیے، ہٹائیے، یہ کوئی ایک دن کی تو بات ہے نہیں کہ کر لی اور ختم ہوئی۔ ہاں نہال میاں تم اپنی باتیں کرو۔ کہاں کہاں رہے، سُنا ہے موٹر بھی ساتھ لائے ہو‘‘۔
نہال کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اپنی کھوئی ہوئی آپی کا کہاں سے دھونڈھ کر لائے، اس کا حلق خشک تھا۔ کوئی بات ذہن میں نہ آتی تھی جس سے سلسلۂ کلام شروع کرے۔ آپی کے گہرے غم کا رسمی الفاظ میں ذکر کرنا بھی وہ آپی کی توہین سمجھتا تھا۔ آپی کس قدر بدل گئی تھیں۔ لیکن امّاں ٹھیک نہیں کہتیں۔ آپی تو اب بھی بہت حسین تھی۔ اس سے پہلے نہال نے ان کے لازوال حُسن کا صرف شگفتہ ہی رُخ دیکھا تھا جو نسبتاً کسی قدر سطحی تھا۔ آپی کا حسن تو ان کے غم اور عمر کی پختگی کے ساتھ ساتھ اُس کی نظروں میں اور بھی قیامت بن گیا تھا۔ زندگی کا کوئی دور بھی ہو آپی میں اور اس میں کبھی بھی دوری نہیں ہو سکتی۔ بغیر ایک لفظ کہے نہال جا کر آپی کے پاس تخت پر بیٹھ گیا اور جیسے دس برس نہیں بلکہ دس منٹ سے زیادہ آپی سے دور نہ رہا ہو، پیار سے ان کے گلے میں باہیں ڈال کر اُن کا منہ چوم کر بولا۔ ’’اُونہوں، تمباکو کی بو آ رہی ہے، اب تمباکو بھی کھانے لگی ہیں آپ‘‘۔
نہال کی والدہ ایک سیکنڈ کے لیے دھک رہ گئیں کہ یہ کون سا بے تُکا پُرسا دینے کا طریقہ ہے؟ اور جانے شکیل دُلہن اپنے دل میں کیا سوچے گی۔ لیکن ان کی حیرت کا ٹھکانہ نہ رہا جب انہوں نے دیکھا کہ آپی پر تو جیسے قہقہوں کا دورہ پڑ گیا ہو۔ دس منٹ تک وہ ہسٹریا کے مریض کی طرح ہنستی رہیں۔ اس گھر میں جو سال بھر سے آپی کی مسکراہٹ کو ترس گیا تھا ان کے قہقہے اس قدر ناموزوں اور بے وقت کی راگنی کی طرح کانوں کو معلوم ہو رہے تھے کہ ان کی قطعی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ کیا کریں۔ لیکن جب ہنستے ہنستے نڈھال ہو کر آپی نہال کے سینے سے لگ کر سِسکیان بھر بھر کر رونے لگیں اور نہال نے گُھٹی ہوئی آواز سے کہا۔ ’’امّاں آپ جلدی چائے بنوا لیجئے‘‘ تو وہ آنسو پونچھتے باورچی خانے کی طرف چلی گئیں۔
نہال کے آ جانے سے گویا آپی کے سوکھے دھانوں پر آبحیات کی بارش ہو گئی۔ زور وہ ایک بار پھر سر اُٹھا کر حوادث کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو گئے۔ نہال سے انہیں کس شدت کی اور کس نوعیت کی محبت تھی آپی خود بھی سمجھنیں سے قاصر تھیں۔ کبھی وہ تصور میں اسے اپنے داماد کی صورت میں دیکھتیں، اس کی حسین پیشانی پر سہرے کی سنہری لڑیاں لٹکتے دیکھتیں اور والہانی انداز سے نہال کی پیشانی چوم لیتیں۔ نہال مسکراتا ہؤا چھڑتا۔ ’’خیر تو ہے آپی، ‘آج اس قدر کرم کیسے؟‘‘ اور وہ بات ٹال کر کہتیں۔ ’’اس قدر احمق لگ رہے ہو کہ مجھے تمہارا بچپن یاد آ گیا‘‘۔
نہال فوراً مڑ کر رضیہ اور صفیہ سے کہتا۔ ’’ذرا انہیں اپنی آپی کو تو دیکھو۔ جیسے یہ بڑی میری نانی دادی ہیں کہ میرا بچپن یاد کر رہی ہیں۔ اور مجھے کیا ان کا بچپن یاد نہیں ہے؟ تم دونوں کیا جانو کہ ہی کیسے ستم دُلہنا پے ہی میں ڈہاتی تھیں۔ چوریاں انہوں نے میرے ساتھ مِل کر کیں، دیواریں انہوں نے پھاندیں اور مجھے پکڑوا کر خود صاف بچ گئیں‘‘۔
آپی تُرکی بہ تُرکی جواب دیتیں۔ ’’وہ آتشبازی تُو چرا کر لایا تھا یا میں؟ ارے لڑکیو یہ ایسا سنپولا ہے جس کے کاٹے کا منتر نہیں۔ خود تو مجھ سے بازی ہدی کہ آپ ہرگز دیوار نہیں پھاند سکتیں۔ مجھے سُسرال میں نکّو بنوایا اور اپنے چچا کو آتے دیکھ کر ایسا اُڑن چھو ہُوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ‘‘۔
نہال اُٹھتے ہوئے بولا۔ ’’ہٹائیے بھی میں ہی ڈرپوک سہی۔ چلیے ذرا ڈرائیو کو ہو آئیں۔ گھر میں بیٹھے بیٹھے پھپھوند لگ گئی ۔‘‘
ایک دفعہ آپی نے گھر کی تین چار لڑکیوں کو موجود دیکھ کر سوچا کہ یہ بچے اکیلے ہی ہوا خوری کر آئیں تو اچھا ہے۔ آخر کچھ بات تو کھلے کہ نہال کا رضیہ پر دل یا پھر صفیہ پر۔ یا کسی اور طرف مائل ہے۔ ظاہر میں وہ سب لڑکیوں میں دلچسپی لیتا نظر آتا تھا ۔ رضیہ کی عملی قابلیت کا وہ دل سے معترف تھا۔ صفیہ کی آواز کی دل کھول کر تعریف کرتا تھا۔ نسیم کی مصوری کے متعلق اس کی رائے تھی کہ کسی نمایش میں رکھنے کے قابل تصویریں بناتی ہے۔ اور روحی کی دستکاری دیکھ کر اسے وجد آ جاتا تھا۔ آپی نے فراخدلی سوچا کہ سب گھر ہی کی تو لڑکیاں ہیں۔ ’’جو بِندھ گیا سو موتی‘‘۔ پھر یہ تو دل کا معاملہ ہے اس میں جبر کِس طرح ہو سکتا ہے۔ یہی سب سوچتے ہوئے کہ چار چار تو ہیں، اکیلی لڑکی تو ہے نہیں کہ کوئی اُنگلی اُٹھائے۔ اب میں کیا کباب میں ہڈی بن کر ہر جگہ ساتھ جاؤں۔ نہال سے بولیں۔
’’تم سب بچے ہو آؤ، میں سوچ رہی تھی کہ آج کھڑے مصالحہ کا قورمہ تمہارے لیے اپنے ہاتھ سے بناؤں گے‘‘۔
مگر نہال سے کہا جیت سکتیں تھیں۔ اُس نے دم بھر میں لڑکیوں کو راضی کر لیا کہ ڈرائیو کو ڈالو بھاڑ میں، یہیں آپی سے قورمہ بنانے کی ترکیب سیکھیں گے ۔ معنی خیز مسکراہٹ سے بولا۔ ’’ کیا معلوم میرے ساتھ کناڈا جانے پر کوئی رضامند ہو یا نہ ہو اور وہاں قورمہ مجھے خود ہی پکانا پڑے، سیکھ ہی لینا ٹھیک ہے، کیوں آپی‘‘۔
یہ تیر بیک وقت چار نشانوں پر جا بیٹھا اور چار حسین نوجوان چہرے اس جملے کو اپنی طرف مخاطب سمجھ کر ارغوانی ہو گئے۔ آپی نے لاکھ چاہا کہ نہال کا اشارہ سمجھ جائیں کہ کس طرف ہے۔ مگر وہ بے فکری سے لڑکیوں میں چھریاں تقسیم کر رہا تھا۔ اور ذرا سی دیر میں چاروں لڑکیاں بیٹھی گھریلو پن سے لہسن پیاز چھیل رہی تھیں۔
آخر وہ منہ سے پھوٹتا کیوں نہیں۔ کیا ولایت میں کسی سے وعدہ کر آیا ہے اورا سی لیے گھر کی لڑکیوں کے لیے صاف صاف نہیں کہتا؟ وہ بہانے سے کھبی ایک لڑکی کو، کبھی دوسری کو گول کمرے میں نہال کے پاس اکیلا چھوڑ کر خود باورچی خانے میں چلی جاتیں کہ شاید وہ لڑکی سے خود براہ راست بات کرنا چاہتا ہو مگر چِڑ کر رہ جاتیں کہ اُن کی یہ ترکیب بھی ناکام ہوئی کیونکہ نہال دو منٹ ہی میں اُن کی صورت پر سوار ہو جاتا۔ کبھی پکتی حلیم میں انگلی ڈال کر نمک چکھنے لگتا، تو کبھی تلتا شامی کباب کڑاہی میں سے نکال کر آدھا کھا جاتا اور جلتا بُھلستا آدھا کباب آپی کے منہ میں ٹھونسے دیتا ہے۔ آپی بعض وقت ان حرکتوں سے بے بس ہو کر روہانسی ہو جاتیں۔ اُن کا دل چاہتا کہ نہال کو اپنے گھٹنوں پر اوندھا لِٹا کر اُس کے ننگے ننگے چوتڑوں پر کَس کَس کے چانٹے لگائے۔ مار مار کر لال کر دیں۔ اس وقت ان کے تصور میں نہال کو وہ بچپن کا نقشہ آ جاتا جب نہال گول مٹول ننگا دھڑنگا گوار گورا لُڑھکتا پھرتا ہو گا۔ اور وہ ٹھنڈی سانس لے کر سوچنے لگتیں، کس قدر پیارا ہو گا جب نہال۔ کاش وہ میرا ہی بچہ ہوتا تو اس سارے گورکھ دھندے کی ضرورت ہی نہ رہتی۔
پھر بھی آپی مایوس نہ ہوتیں۔ فوج کی فوج ساتھ لے کر سینما جاتیں، مگر”