پہلے ذرا رک کر اور گہرائی میں غور کریں کہ آخر آپ اس تحریر کو کیوں پڑھ رہے ہیں؟ اور ساتھ ایک وارننگ۔ اگر آپ کس کو مکمل پڑھ لیں گے تو اس کے آخر تک آپ کا ذہن بدل چکا ہو گا۔ اگر آپ ایسا نہیں چاہتے تو رک جائیں اور اس کو آگے پڑھنا چھوڑ دیں۔
اس وقت آپ کچھ اور بھی کر سکتے تھے۔ کسی دوست کو فون کر سکتے تھے، ٹی وی دیکھ سکتے تھے یا پھر فیس بُک پر کچھ اور دیکھ سکتے تھے۔ لیکن ان سب کو چھوڑ کر آپ نے یہ تحریر پڑھنے کا انتخاب کیا اور ایک وارننگ کے باوجود اسے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ فیصلہ آپ نے اپنی مرضی سے لیا ہے؟ یہ آسان سوال نہیں اور ہزاروں سال سے فلسفیوں کی بحث کا مرکز ہے اور یہ ایک ایسی بارودی سرنگوں سے بھری زمین جس میں ہر قسم کے دلائل دئے جا چکے ہیں۔ ان بحثوں کو ابھی کھڑکی سے باہر پھینک کر اس کے جواب کو فزکس، نیوروبائیولوجی اور ارتقا کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
یہ سوال اہم کیوں ہے؟ ایک شخص اپنی خوشگوار ازدواجی زندگی کے برس ایک طرف رکھ کر ایک فیصلے کی لغزش سے اپنی زندگی خراب کر رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ اس کے اپنے ذہن میں اس کے خلاف ایک جنگ چل رہی ہے۔ کیا وہ اپنے ڈی این اے، اپنے ماحول، اپنی تربیت اور اپنے ہارمونز کے ہاتھوں مجبور ہے؟
ہم قانون میں آزاد مرضی کو مدِنظر رکھتے ہیں اور یہ بھی کہ کون کس وقت کتنا آزاد تھا اور کتنا مجبور۔ فوری اشتعال میں کئے گئے قتل کو ایک منصوبہ بندی کے تحت کئے گئے قتل سے فرق ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ ایک شخص جس کا ذہنی توازن درست نہیں، اس پر قانون کا اطلاق اس طرح نہیں ہوتا۔ یا پھر ویت نام کا وہ بدھ راہب جس نے 1963 میں احتجاجا اپنے آپ کو مراقبہ کرتے ہوئے آگ لگائی تھی۔ اس تمام وحشت ناک منظر میں اس کا پرسکون چہرہ، جب آگ اس کو نگل رہی تھی اور وہ اس دوران تکلیف سے آزاد لگ رہا تھا۔ کیا وہ ایسا کرنے میں آزاد تھا؟ ہم وجدانی طور پر جانتے ہیں کہ کون اپنے فعل میں کس قدر آزاد تھا۔ کیا ہمارے وجدان کی کوئی سائنسی بنیاد بھی ہے؟
اس کی ابتدا ہم کلاسیکل فزکس کے ڈیٹرمنزم (determinism) سے کرتے ہیں۔ انسانی فہم کی ترقی کا اہم سنگِ میل نیوٹن کی اس دنیا کی سمجھ سے آیا۔ حرکت اور گریویٹی کے قوانین سے۔ ان کا ایک بہت اہم نتیجہ تھا۔ اگر ایک بار گیند لڑھکا دی جائے تو اس کی مستقبل کی تمام حرکت فزکس کے اصولوں کے تحت معلوم کی جا سکتی ہے۔ اس میں درمیان میں کچھ بھی آڑے نہیں آتا۔ وقت کے آخر تک اس گیند کی قسمت لکھی جا چکی ہے۔ فزکس کے قوانین کی یہ کڑی پکڑ نہ صرف اس گیند تک محدود ہے بلکہ سورج، ستاروں اور کائنات کی ہر شے پر۔ یہ ڈیٹرمنزم کے خیال کی روح ہے۔ مجھے آج ایک سسٹم کے تمام اجزاء کی پوزیشن اور رفتار بتا دی جائے اور میرے پاس کمپیوٹنگ کی طاقت ہو تو پھر میں مستقبل کے بارے میں تمام پیشگوئی کر سکتا ہوں۔ اس خیال کو عمر خیام نے اپنی رباعیات میں اور لاپلاس (Laplace) نے انیسویں صدی میں اپنی ریاضی میں پیش کیا۔
اس پر پہلی ضرب اس وقت لگی جب پوینکارے نے ڈیٹرمنسٹک کیاوس (deterministic chaos) کی ریاضی پیش کی۔ اس سے ہمیں علم ہوا کہ مستقبل کی ٹھیک پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ انتہائی معمولی سا ابتدائی فرق بہت بڑی تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔ اس کی ایک مثال سٹاک مارکیٹ ہے۔ کونسی افواہ کس شئیر کی قیمت پر کیا اثر ڈالے کی، اس کو ٹھیک سے پریڈکٹ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم پلوٹو کی آج سے کئی ملین سال بعد پوزیشن دیکھنا چاہیں تو وہ بھی نہیں نکالی جا سکتی۔ یاد رہے کہ پلوٹو کا مدار انتہائی سادہ سسٹم ہے، جہاں پر گریویٹی واحد فورس ہے۔ انسان، کیڑا یا ایک خلیہ اس کے مقابلے میں خاصے پیچیدہ ہیں۔ بالکل ایک جیسی مکھیوں کو اگر ہم ایک جگہ پر بھیجیں جہاں سے دو راستے نکلتے ہوں۔ کچھ دائیں طرف چلی جائیں گی، کچھ بائیں طرف، کچھ واپس آ جائیں گی، کچھ فیصلہ نہیں لے سکیں گیں اور ادھر ادھر گھومتی رہیں گی۔ کونسی مکھی کیا کرے گی، اس کی پیشگوئی کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا سٹاک مارکیٹ کے شئیر کی قیمت کی پیشگوئی کرنا۔ لیکن یہاں پر یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ ڈیٹرمینسٹک ہے۔ یعنی اگر کلاسیکل فزکس کے مطابق کیاوس ہے تو پیشگوئی تو نہیں کی جا سکتی لیکن اختیار ان مکھیوں کے پاس پھر بھی نہیں۔ اگر ڈیٹرمنزم درست ہے تو پھر ہمیں کسی بھی چیز کا کوئی اختیار نہیں۔ ہماری پیدائش کے وقت ہی سب کچھ طے ہو چکا تھا۔ زندگی بس پوری عمر جاری رہنے والی فلم ہے جس میں ہماری کوئی کردار نہیں۔ اس فلم کے کسی سین کو ہم نہیں بدل سکتے۔ آپ یہ تحریر یہاں تک بھی اگر پڑھ چکے ہیں تو اس لئے کہ آپ کے پاس اس کے سوا کچھ چارہ نہ تھا۔
زندگی میں کسی بھی قسم کے معنی کا گلا گھوٹ دینے والے اس تکلیف دہ خیال سے ہمیں آزادی ہائزنبرگ نے دلوائی۔ کائنات کسی گھڑی کی طرح چلتی ہوئی نہیں۔ کوانٹم فلکچوئیشنز اس کا بنیادی حصہ ہیں۔ اس کا پتہ نہ صرف ہمیں چھوٹے سے چھوٹے ذرے سے لگتا ہے بلکہ اس کائنات کی کہکشاوٗں سے بھی پتہ لگتا ہے۔ ان کے بغیر کچھ بھی نہ ہوتا۔ لیکن یہاں پر پہلے ہمیں ذرا محتاط رہنا ہو گا۔ کوانٹم فزکس کے نام پر ہر الم غلم خیال کا چورن بیچنے والوں سے۔ ایک چھوٹا ذرہ تو کوانٹم ایفیکٹ دکھاتا ہے لیکن ایک بڑا جسم نہیں۔ اس کی وجہ ڈی کوہرنس ہے۔ میں اپنی گاڑی جہاں پارک کرتا ہوں، وہ وہیں پر ملتی ہے۔ اس میں کوئی غیریقینیت نہیں۔ کیا کوانٹم فزکس کا تعلق ہمارے فیصلوں سے بھی ہے؟ اس کا جواب لینے کے لئے ہم ارتقا کو دیکھتے ہیں۔
زندگی فزکس کے ہر قانون کا فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھتی ہے جو اس کے لئے بہتر ہو۔ ایک مکھی جو کہ اپنے شکار سے بچ رہی ہے، اس کے لئے بہتر ہے کہ وہ اپنے فیصلوں کو رینڈم رکھے۔ کبھی اچانک ہی دائیں طرف غوطہ لگا دے۔ اس کے لئے کوانٹم رینڈم نس اس کے لئے معاون ہے۔ یہ رینڈم نس ہمیں زندگی کی ہر قسم میں بہت زیادہ ایولوڈ نظر آتی ہے۔ (اگر کسی کا خیال ہے کہ ایسا نہیں تو اس نے شاید کبھی کسی ٹین ایجر کے ساتھ وقت نہیں گزارا)۔
انڈیٹرمنزم (indeterminism) اگر درست ہے، تو اس کا گہرا مطلب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی اعمال کی پہلے سے پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔ اگرچہ کائنات اپنے لگے بندھے اصولوں کے تحت ہی چلتی ہے اور ہم اسی کے تابع ہیں لیکن ہمارا مستقبل پہلے سے نہیں لکھا ہوا۔ اور ہم وقت میں جتنا دور چلے جائیں، اتنی ہی اس غیریقینیت میں اضافہ ہو گا۔
ذاتی طور پر مجھے ڈیٹرمنزم کا خیال سخت ناگوار لگتا ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ آج میں کیا کروں گا، یہ بھی بگ بینگ کے وقت طے ہو گیا تھا لیکن میرے ذاتی جذبات کا حقیقت پر اثر نہیں پڑتا۔ اس لئے اس خیال کو کچھ اور تفصیل سے اور تجربات کی مدد سے دیکھ لیتے ہیں۔
ہمیں کوانٹم بائیولوجی کا باقاعدہ طور پر 2010 میں علم ہوا۔ ابھی تک نیوروبائیولوجی میں ہمیں کوانٹم فلکچوئیشنز کے کردار کا علم نہیں۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ نیورونز کے فائرنگ میں سپرپوزیشن کا کردار نہیں۔ جان ایکلز (John Eccles) اس پر کارل پوپر کی تائید میں جواب سٹرونگ وِل (strong will) سے دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ جان ایکلز کوایٹم اینٹینگلمنٹ یا شروڈنگر کی بلی کو بنیاد بنا کر اپنا سوڈوسائنس کا چورن بیچنے والے نہیں بلکہ نوبل انعام یافتہ سائنٹسٹ ہیں جن کی تحقیق ہی نیوروسائنس پر ہے لیکن ابھی تک فزکس سے ان کے خیالات کی تصدیق (یا تردید) نہیں ہوئی۔
یہاں پر کچھ تجربات کا ذک۔ ایک بنجمن لبٹ کا تجربہ۔ اس میں انہوں نے ثابت کیا کہ ہمارا دماغ فیصلہ پہلے لے چکا ہوتا ہے جس کا شعوری طور پر ہمیں علم بعد میں ہوتا ہے اور دوسرا ڈینئئیل ویگنر کے تجربے کا جس میں ہمیں پتہ لگتا ہے کہ ہم اُن ایکشنز کو بھی اپنی مرضی سے منسوب کر سکتے ہیں جو ہمارے اپنے اختیار میں نہیں۔ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ دماغ کی کئی بیماریاں ہمارا اختیار ختم کر دیتی ہیں۔ کئی ادویات یا نشہ اس اختیار کو مدھم کر دیتا ہے۔ ایک ٹورٹ سنڈروم کا شکار مریض جانتے بوجھتے وہ الفاط کہہ دیتا ہے جو نہیں کہنا چاہتا لیکن رک نہیں سکتا۔ ہم تجربوں میں لوگوں کے دماغ کی حالتوں میں وہ تبدیلیاں لے آتے ہیں جو ان کو کچھ ایسا کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں جو وہ اپنے خیال میں اپنی مرضی سے کر رہے ہوتی ہیں۔ ہم اتنے آزاد نہیں جتنا ہمارا خیال ہے۔
تو اس سے ہمیں پتہ کیا لگتا ہے۔ عمر خیام یا لاپلاس والا کلاسیکل ڈیٹرمنزم تو درست نہیں۔ ڈیٹرمنسٹک کیاوس یہ حد تو مقرر کر دیتا ہے کہ دنیا کا بہترین سائنسدان بھی کسی شخص کے مستقبل کے ایکشنز کی ٹھیک پیشگوئی نہیں کر سکتا۔ کوانٹم مکینکس کا اس میں کس حد تک کردار ہے، یہ ابھی ہم نہیں جانتے۔ یہ سب فزکس سے باہر نہیں اس لئے مکمل آزاد مرضی (cartesian free will) کا تصور بھی درست نہیں۔ لیبارٹری میں ہمیں یہ پتہ لگتا ہے کہ دماغ بہت سے فیصلے اس طرح لیتا ہے جیسے ہمارا دفاعی نظام۔ یعنی ہمارے اپنی شعوری علم کے بغیر۔ جو فیصلے ہم اپنے خیال میں اپنی مرضی سے لیتے ہیں، وہ تمام ہم اپنی مرضی سے نہیں لیتے۔ کونسی قمیض پہننی ہے؟ کھانے میں کیا پکانا ہے؟ ان فیصلوں کا مکمل پس منظر خود ہم سے روپوش ہے۔ لیکن ہم مجبورِ محض بھی نہیں۔ ہم اب اپنے دماغ کی ری وائرنگ اور اس کو بدلنے کی طاقت سے بھی آگاہ ہو چکے ہیں۔ میں اپنے اوپر کچھ پابندیاں سوچ سمجھ کر لگاتا ہوں۔ کسی ایک خاص حالت میں میں فیصلہ کیا کروں گا، اس پر میرا اختیار شاید نہ ہو لیکن وہ فیصلہ کرنے میں جس برین سرکٹ نے کردار ادا کیا، اس کی تشکیل میں اپنے پر مسلط کرتا ہوں۔ میری گہری سوچ دماغ کی ری وائرنگ کرتی ہے۔ کیا میں دوسروں کو جان بوجھ کر تکلیف پہنچانا چاہوں گا؟ میں اپنی صحت، اپنے خاندان، اس دنیا کے ساتھ کس قسم کے تعلقات رکھنا چاہوں گا؟ میں اپنے خوف، اپنی خواہشوں اور اپنی امنگوں کا خود اس گہری سوچ کے ذریعے جائزہ لے سکتا ہوں۔ جب میں نوجوان تھا، اس سے بہتر طور پر۔
میری یہ گہری سوچ میری آزاد مرضی ہے۔ یہ ایک muscle کی طرح ہے جس کا جتنا استعمال کیا جائے، اتنا مضبوط ہو گا (اگر اسے استعمال نہیں کیا جاتا، تو واقعی آپ کی کوئی آزاد مرضی نہیں)۔ میرے غیراختیاری اعمال میری اختیاری سوچ کا نتیجہ ہیں۔ آج کی سوچ کل کے اعمال کا نتیجہ بنتی ہے۔ اس کو ہم وجدانی طور پر جانتے ہیں، اسی لئے ٹھنڈے مزاج سے اور پلاننگ کے تحت کئے گئے قتل کی سزا اشتعال میں کئے گئے قتل سے فرق رکھتے ہیں۔ زندگی ایک کتاب ہےجو ابھی لکھی نہیں گئی۔
اور اگر آپ اس تحریر کو یہاں تک پڑھ چکے ہیں تو اس تحریر سے اتفاق رکھیں یا شدید اختلاف، آپ کا ذہن بدل چکا ہے کیونکہ یہ بدلتا رہتا ہے۔
نوٹ: اس تحریر سے آگے اور اس کی ریاضی کے لئے مندرجہ ذیل کتاب
Consciousness: Confessions of a Romantic Reductionist